دیوارِ سندھ . . . ’’رنی کوٹ‘‘

September 08, 2018

کہا جاتا ہے کہ ہزاروں برس پہلے زمین کا بہت سا حصہ برف کے نیچے دبا ہوا تھا، پھر آہستہ آہستہ برف پگھلنے لگی اور زندگی کے آثار نمودار ہوئے۔ انسان غاروں سے نکل کر زمین پر پھیل گیا اور پھر حیرت انگیز شاہکار تخلیق کیے۔ دیوار چین کو ہی لے لیجیے، اس کو خلا بازوں نے چاند سے بھی دیکھنے کا دعویٰ کیا ہے۔ اسی طرح لہلہاتے کھیتوں، سنگلاخ پہاڑوں، بہتے جھرنوں اور فطری حسن سے مالا مال ’رنی کوٹ‘ سندھ میں انسانی ہاتھوں کا بہترین کرشمہ اور نمونہ ہے، جو دیکھنے والوں پر اپنا سحر طاری کر دیتا ہے۔

دیوارِ سندھ

تاریخ کے صفحات میں اس قلعے کا تذکرہ رانی کا کوٹ، موہن کوٹ اور رنی کوٹ کے نام سے ملتا ہے۔ اس کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے اسے عالمی ثقافتی ورثہ قرار دے کر، عالمی ورثےکی فہرست میں شامل کر لیا گیا ہے۔ تقریباً 32کلو میٹر رقبے پر پھیلے اس قلعہ کے گرد مشہور کھیرتھر پہاڑی سلسلے میں پتھروں کو تراش کر اس کے نشیب و فراز کے ساتھ ایک مضبوط فصیل تعمیر کی گئی، جسے دیوار سندھ بھی کہا جاتا ہے۔

رنی کوٹ ضلع جامشورو کے قدیم علاقے سن کے شمال مغرب میںواقع ہے جبکہ حیدر آباد سے یہ90کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ یہ قلعہ وادی کے گرد اس طرح تعمیر کیا گیا ہے کہ ہزاروں سال کے موسمی تغیرات، سورج کی تمازت اور زمین کا ارتعاش بھی اس پر بے اثر ثابت ہوا ہے۔

دنیا کی قدیم ترین جگہ

رنی کوٹ کا شمار دنیا کےقدیم ترین مقامات یا تہذیبوں میں ہوتا ہے۔ یہاں سے ڈائناسورز کے فوسلز بھی ملے ہیں۔ قدامت کے لحاظ سےقلعےکی مختلف تاریخیں سامنے آئی ہیں۔کسی کا کہنا ہے کہ اسے رومیوں نے بنایا ہے، کوئی کہتا ہے ساسانیوں نے جبکہ اکثریت کی رائے ہے کہ میر کرم علی نے 1712ء میں اسے بنایا، لیکن اس میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے۔ کچھ اسکالرز ایسے ہیں جن کا کہنا ہے کہ اسے540سال قبل مسیح میںایرانی شہنشاہ سائرس اعظم نے بنوایا تھا مگریہ بھی ایک اندازہ ہے۔ قلعے سے ایسی کوئی چیز نہیں ملی جہاں سے اس کی قدامت اور تاریخ کا پتا چل سکے۔ پچیس تیس سال پہلے یہاںخطرناک جانور تھے۔

رنی کوٹ کے دروازے

بارش کے موسم میں قلعے کے سنگلاخ پہاڑ سرسبز پودوں کی چادر اوڑھ لیتے ہیں۔ جب ابر برستا ہے تو ان پہاڑوں پر جا بجا جھرنے بہنے لگتے ہیں۔ تاحدِ نگاہ دلوں کو موہ لینے والے مناظر ہوتے ہیں، جنہیں سیاح اپنے کیمروں میں محفوظ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ رنی کوٹ کے چار مختلف سمتوں میں دروازے ہیں اور ہر دروازہ سمت میں قائم علاقوں سے منسوب ہے۔ مشرق میں سن دروازہ، جنوب مشرق میں آسری دروازہ، شمال میں شاہ پیر دروازہ اور مغرب میں موہن دروازہ ہے۔

موہن دروازے کو مرکزی حیثیت حاصل ہے کیونکہ درمیان میں قلعے کے اندر سے آنے والی 25 کلو میٹر طویل ندی موجود ہے، جو قلعے کے لیے سامان کی ترسیل کے لیے مؤثر اور حفاظتی ذریعہ تھی۔ رنی کوٹ کی فصیل میں مناسب فاصلے پرروزن بنائے گئے ہیںجو شاید بیرونی حملہ آوروں پر تیر اندازی کرکے انہیں پسپا کرنے یا پھر دور تک نگرانی کے لیے تعمیر کیے گئے تھے۔

دفاعی مورچہ

اس دور کے لوگوں نے نہ صرف چنے کی دال، چونا، بجری، ٹاٹ، شنگرف اور دیگر اشیا کےمسالے سے پتھروں کو جوڑنے کا ہنر سیکھا بلکہ وہ اپنی ضرورتوں کے لیے اجناس کا پورا ذخیرہ رکھنے کی اہمیت سے بھی آگاہ تھے، اس لیے وہاں غلہ رکھنے کا گودام بھی موجود ہے۔ 30فٹ اونچی فصیل کے ساتھ ساتھ پہرہ داروں کے گشت کے لیے6فٹ چوڑی گذرگاہ ہے۔ پہرہ داروں کے بیضوی نما کمرے ہیں، جن کے سامنے سے گزر کر دوسرے دروازے سے کھلی جگہ آتی ہے۔ اس حصے میں ساسانی قوم کے محلات کی طرز پر کمرہ بنا ہوا ہے،جو دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔

یہ ایک پہاڑی سلسلہ ہے جبکہ اوپر کنٹرول کے بغیر ایک بہت بڑی دیوار بنائی گئی ہے۔ اس دیوار کے متعلق کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ پاکستان کی عظیم دیوار ہے، جس کو پہاڑیوں کی چوٹیوں نے سمیٹا ہوا ہے۔ اب تک یہاں پر آبادی کے کوئی شواہد نہیں ملے ہیں کیونکہ دیکھنے میں یہ نظر آتا ہے کہ اسے صرف دفاعی نقطۂ نظر سے تعمیر کیا گیا تھا۔ اس دیوار کے اندر جو قلعہ ہے وہ تقریباً 29 کلو میٹر پھیلا ہوا ہے، جو مشرق کی جانب سن اسٹیشن کے نزدیک ہے۔

شیرگڑھ قلعہ

اس قلعے سے15کلومیٹر کےفاصلے پرمیری کوٹ اوردوسری سمت میں شیرگڑھ قلعہ واقع ہے، جوسطح سمندرسے1480 فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ یوں تو ان دونوں میں کوئی مماثلت نہیں ملتی مگر قیاس ہے کہ میری اور لکشمیر جبی نامی کسی بادشاہ یا سپہ سالار کی یہاں حکومت رہی ہو اور یہ نام ان قلعوں کے لیے دائمی ہوگیا۔ اس قلعے تک پہنچنے کے لیے کوئی راستہ نہیں ہے سوائے ان لوگوں کے جو پہاڑوں پر چلنے اور انہیں سرکرنے کا خاصاتجربہ رکھتے ہوں۔ اس قلعے سے تھوڑی دیر کی مسافت پر 150 مربع گز پر محیط میری قلعہ واقع ہے۔

کلہوڑہ، تالپوروں اورانگریزوں نے اپنے دور حکومت میں جنگی حکمت عملی، ضرورتوں اور سہولتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اس قلعے میں تبدیلیاں کیں، جس سے اس کی کسی حد تک شناخت متاثر ہوئی مگر ساتھ ہی اس کی خوبصورتی ابھر کر سامنے آئی۔ انگریزوں نے یہاں پتھروں پر پھولوں کے نمونے تراش کر محرابیں، طاق سیڑھیاں اور دروازوں کی چوکھٹیں بنائیں۔ فصیل پر پہنچنے کے لیے دروازے میں داخل ہونے کے بعد دائیں اور بائیں جانب پتھروں کی سیڑھیاں بنائیں،یہیں پر ایک کنواں کھدوایا گیا جو کبھی ٹھنڈے اور میٹھے پانی سے لبریز ہوتا تھا۔