غزل: کہاں گئے وہ لہجے دل میں پھول کھلانے والے

October 10, 2018

عزم بہزاد

کہاں گئے وہ لہجے دل میں پھول کھلانے والے

آنکھیں دیکھ کے خوابوں کی تعبیر بتانے والے

کدھر گئے وہ رستے جن میں منزل پوشیدہ تھی

کدھر گئے وہ ہاتھ مسلسل راہ دکھانے والے

کہاں گئے وہ لوگ جنہیں ظلمت منظور نہیں تھی

دیا جلانے کی کوشش میں ‌خود جل جانے والے

یہ اک خلوت کا رونا ہے جو باتیں کرتی تھی

یہ کچھ یادوں کے آنسو ہیں دل پگھلانے والے

کسی تماشے میں رہتے تو کب کے گم ہو جاتے

اک گوشے میں رہ کر اپنا آپ بچانے والے

ہمیں کہاں ان ہنگاموں میں تم کھینچے پھرتے ہو

ہم ہیں اپنی تنہائی میں رنگ جمانے والے

اس رونق میں شامل سب چہرے ہیں خالی خالی

تنہا رہنے والے یا تنہا رہ جانے والے

اپنی لے سے غافل رہ کر ہجر بیاں کرتے ہیں

آہوں سے ناواقف ہیں یہ شور مچانے والے

عزم یہ شہر نہیں ہے نفسا نفسی کا صحرا ہے

یہاں نہ ڈھونڈو کسی مسافر کو ٹھیرانے والے