مشاورت کا فقدان یا عوامی ردعمل!

October 18, 2018

کھلا تضاد … آصف محمود براہٹلوی
کسی بھی حکومت کی کارکردگی چند ماہ میں ہرگز جانچی نہیں جاسکتی۔ ظاہر ہے کہ عوام نے منتخب حکومت کو آئندہ پانچ برسوں کیلئے مینڈیٹ دیا ہے اور انکی کارکردگی بھی آئندہ پانچ سال عوام دیکھیں گے کہ اس حکومت نے کیا کیا۔ آیا کہ اپنے انتخابی وعدے پورے کئے یا پھر جن نعروں یا منشور پر وہ عوامی حمایت حاصل کرکے اقتدار میںآئے انہیں کس حد تک پورا کیا۔ لیکن ہر منتخب حکومت اقتدار میںآنے کے بعد اپنے پہلے ایک سو دن کا ماسٹر پلان کا اعلان کرتے ہیں کہ عوام تبدیلی محسوس کریں گے، ہم عوامی فلاح و بہبود کیلئے مختلف پروگرامز پر عمل کریںگے اور کارکردگی سامنے نظر آئیگی۔ اسکے ساتھ ساتھ جیسے کہ ایک سے زائد سیٹوں پر منتخب ہونے والے اراکین اسمبلی چاہے وہ قومی اسمبلی میںہوںیا کہ صوبائی اسمبلیوں میں انہیں ایک سیٹکے سوا باقی ساری چھوڑنا ہوتی ہیں۔ 14اکتوبر کو پاکستان کے ضمنی الیکشن میںحکومتی جماعت پاکستان تحریک انصاف کو تین ماہ قبل جیتی ہوئی نشستیں ہارنے کے ساتھ جن سیٹوں پر کامیابی ملی وہاںبھی جیت کا تناسب غیرمعمولی حد تک کم ہوا ہے۔ جہاں تک ضمنی الیکشن کی بات ہوتی ہے وہ ہمیشہ حکومتی امیدوار بآسانی جیت جاتے ہیں۔ موجودہ ضمنی الیکشن میں پاکستان تحریک انصاف کو نقصان ہوا۔ پاکستان مسلم لیگ نواز کی سیٹوں میںاضافہ ہوا، پیپلزپارٹی اپنی پوزیشن مستحکم رکھنے میں کامیاب رہی اور ’’ق‘‘ لیگ اپنی سیٹیں جیت گئی۔ ایم ایم اے کی سیٹ میںبھی اضافہ ہوا اور عوامی نیشنل پارٹی بھی اپنی سیٹ جیت گئی۔ ضمنی الیکشن کے نتائج بہت سارے سوالات چھوڑ گئے۔ حکومت کو دیکھنا ہوگا ایسی کون سی وجوہات ہوئیں کہ نہ صرف انہیں اپنی سیٹوں سے ہاتھ دھونا پڑا بلکہ عام انتخابات میںلئے گئے ووٹوں کے تناسب میں بھی زبردست کمی آئی۔ کیا پی ٹی آئی نے ضمنی الیکشن میںٹکٹوں کی تقسیم کے معاملے میںجماعت کے اندر مشاورت نہیںکی یا حکومتی معاملات میں اس قدر مصروف ہوگئے کہ ضمنی الیکشن میںوقت نہیںدے پائے، یا پھر گزشتہ چند ماہ سے بڑھتی ہوئی مہنگائی، تجازوات کا خاتمہ، روپے کی قدر میںکمی اور قرضہ لینے کے وعدوں کے باوجود IMF سمیت دیگر ممالک سے مال اکھٹا کرنے سمیت تمام آپشن پر حکومت مصروف عمل ہے۔ 60روز کی کارکردگی کو سامنے رکھتے ہوئے عوام نے ایک ’’یوٹرن‘‘ لیا اور ووٹ PTIکے مخالف جماعتوںکے حق میںدے دیئے۔ اگر دیکھا جائے تو پی ٹی آئی کی عمران خان کی قیادت میں بننے والی حکومت کا مہنگائی کا تناسب ساٹھ دنوں کا میاںنواز شریف یا آصف علی زرداری کی پانچ پانچ سالوں کے تناسب سے بڑھ گیا ہے۔ عوام کو بنیادی ضروریات زندگی کی چیزیں مثلاً گیس، پٹرول، بجلی، آٹا سستے داموں چاہئے تاکہ باآسانی گزر بسر ہوسکے۔ عوام کو کوئی غرض نہیں کہ کس کی حکومت ہے اور کس نے کتنا قرضہ لیا۔ ضمنی الیکشن کے بعد عمران خان پر ذمہ داری عائد ہوگئی ہے کہ تمام تر فیصلے عوامی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے کئے جائیں، ایسا نہ ہوکہ مہنگائی کا جن قابو میں نہ آئے اور آئندہ عام انتخابات میں عوام اپنا فیصلہ سنائیں جسکی ایک جھلک ضمنی الیکشن میںدیکھنے کو ملی ہے۔