جرمن کار سازی کی صنعت

December 10, 2018

2016ء اور2017ء میں کاروں کی عالمی منڈی میں جرمنی کا حصہ22فیصد تھا، جوکہ کاریں بنانے والے تمام ممالک کے مقابلے میں سب سے زیادہ تھا۔ برسوں سے دنیا میں جرمن کاروں کی مانگ میں وسعت کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ عام تاثر ہے کہ کار خریدنے والے کو اگر مناسب قیمت میں کوئی کار دستیاب ہو اور وہ جرمن ساختہ ہو، تو وہ اسے خریدنے کو ترجیح دے گا۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس وقت دنیا بھر میں جرمن کاروں کو مشکلات کا سامنا ہے۔

دو برس قبل ووکس ویگن کاروں سے دھوئیں کے اخراج کا اسکینڈل ابھرا۔ یہ اسکینڈل عالمی سطح پر ڈیزل گیٹ اسکینڈل کے نام سے مشہور ہوا۔ اس دوران اس کی لپیٹ میں کئی کار ساز ادارے بھی آئے۔ اسی اسکینڈل کے دوران ایسی مختلف تحقیقاتی و تفتیشی رپورٹس بھی منظر عام پر آئیں ، جن میں جرمن کار ساز انڈسٹری کے تاریک رُخ کو پیش کیا گیا۔

ڈیزل گیٹ اسکینڈل کے باوجود ’ میڈ اِن جرمنی‘ کا جادو اب بھی سر پر چڑھ کر بول رہا ہے۔ جرمن کار صنعت کے لیے چین بھی بہت اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ چین میں 30فیصد کاریں جرمنی سے درآمد کی جاتی ہیں۔ چینی خریداروں میں دھوئیں کے کم اخراج کی حامل گاڑیوں کو بہت زیادہ پسند کرنے والوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔

چین کی طرح روس میں بھی جرمن کاروں پر اعتماد کیا جاتا ہے اور روسی کوشش کرتے ہیں کہ ایک لاکھ کلومیٹرز کے بعد کار کو تبدیل کر دیا جائے۔ عام روسی لوگوں کا خیال ہے کہ ایک لاکھ کلومیٹرز گاڑی چلانے کے بعد اُس میں نقائص پیدا ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ روس اور چین میں پورشے، بی ایم ڈبلیو، آڈی اور مرسیڈیز کو خاص طور پر پسند کیا جاتا ہے۔

ماحول دوست کاری سازی

جرمنی میں بتدریج ماحول دوست کاروں کو پسندیدگی حاصل ہو رہی ہے۔ جرمن ادارے ڈوئچے پوسٹ نے ترسیل کے لیے الیکٹرک گاڑیوں کا استعمال بڑھا دیا ہے۔ جرمنی کو عالمی سطح پر بھاری ٹیکنالوجی کے حوالے سے ایک خاص شہرت حاصل ہے۔ اس ملک کی کاروں کو اقوام عالم میں پسند کیا جاتا ہے اور اس کی بنیادی وجہ گاڑیوں کا پائیدار انجن ہے۔

مرسڈیز کا نیا ریکارڈ

ڈائملر کے صدر دفاتر جنوبی جرمن شہر اشٹٹ گارٹ میں ہیں اور مرسیڈیز بینز اس ادارے کا مشہور ترین برانڈ ہے۔ پچھلے سال اس کمپنی کی لگژری کاروں کی عالمی سطح پر فروخت میں جو ریکارڈ اضافہ دیکھا گیا، اس کی ایک بڑی وجہ چینی منڈی میں ان گاڑیوں کی طلب میں غیر معمولی اضافہ تھا۔

ڈائملر کے چیف ایگزیکٹو ڈیٹر سَیچے کے مطابق، گزشتہ برس اس کمپنی نے مجموعی طور پر لگ بھگ 2.3ملین گاڑیاں فروخت کیں، اور یہ تعداد 2016ء کے مقابلے میں تقریباً10فیصد زیادہ تھی۔ اس طرح پچھلا سال اس جرمن ادارے کے لیے مسلسل ساتواں سال تھا کہ ڈائملر نے اپنی پیداوار اور کاروبار میں واضح ترقی کی منزل حاصل کر لی۔

بی ایم ڈبلیو کے سو سال

جرمنی کی لگژری کاریں تیار کرنے والی کمپنی بی ایم ڈبلیو کے قیام کو سوسال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اس کمپنی نے اس عرصے کے دوران کئی اتار چڑھاؤ بھی دیکھے ہیں۔ بی ایم ڈبلیو کا ہیڈ کوارٹر میونخ میںواقع ہے، جہاں اس کا

ایک بڑا پلانٹ اور میوزیم بھی ہے۔ اس جنوبی شہر میں بی ایم ڈبلیو سب سے بڑی نجی ملازمت فراہم کرنے والی کمپنی ہے اور یہاں اس کے ملازمین کی تعداد41ہزار ہے۔ پہلی عالمی جنگ کے دوران شروع ہونے والی یہ کمپنی اب ایک بین الاقوامی برانڈبن چکی ہے۔ اس وقت بی ایم ڈبلیو کے پلانٹس دنیا کے 14ممالک میںموجود ہیں جبکہ اس کے ملازمین کی مجموعی تعداد1لاکھ 16ہزار ہے۔ بی ایم ڈبلیو کی سالانہ فروخت 80ارب یورو ہے۔ آج بی ایم ڈبلیو کاروں کے علاوہ موٹرسائیکل بھی بناتی ہے اور اس کمپنی کے برانڈز میں رولس رائس اور مِنی بھی شامل ہیں۔

امریکا میں ڈیوٹی عائد کرنے پر غور

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے محکمہ تجارت کو کاروں، ٹرکوں اور گاڑیوں کے فاضل پرزہ جات پر عائد شدہ درآمدی ڈیوٹی کا جائزہ لینے کا حکم دیا ہے۔ ٹرمپ کے مطابق، ’کار سازی اور فاضل پرزہ جات جیسی کلیدی صنعت ہماری قوم کے استحکام کے لیے اہم ہیں‘۔ ٹرمپ کے بقول یہ واضح ہونا چاہیے کہ بیرون ملک سے گاڑیوں کی درآمد امریکا کی قومی سلامتی کے لیے کتنا بڑا خطرہ ہے۔

ٹرمپ نے رواں برس مارچ میں المونیم اور اسٹیل پر اضافی محصولات عائد کرتے وقت بھی یہی کہا تھا کہ وہ قومی سلامتی کے تحفظ کے لیے یہ قدم اٹھا رہے ہیں۔ جریدے ’وال اسٹریٹ جرنل‘ نے بھی کہا ہے کہ اس تناظر میں 25فیصد تک اضافی ٹیکس عائد کیے جانے کا امکان ہے۔

ٹرمپ نے اس سے قبل یورپی یونین اور چین سے درآمد کی جانے والی گاڑیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ ٹرمپ نے مارچ میں ایک ٹویٹ کی تھی، ’اگر یورپی یونین نے بزنس کرنے والی امریکی کمپنیوں پر بھاری محصولات عائد کیے یا ان کے لیے مزید مشکلات پیدا کیں، تو ہم امریکا میں آزادی کے ساتھ درآمد کی جانے والے غیر ملکی گاڑیوں پر بھی ٹیکس بڑھا دیں گے‘۔