’’یہ میری طاقت ہے‘‘

February 02, 2019

آج کے ترقی یافتہ دور میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والا ذرائع ابلاغ، سوشل میڈیا ہے۔ فیس بک، انسٹاگرام، واٹس ایپ اور ٹوئٹر جیسی ویب سائٹس اور ایپلیکشنز نے مرد و خواتین، نوجوان اور بوڑھوں کے ساتھ ساتھ بچوں کو بھی اپنا گرویدہ بنا لیا ہے۔ گزشتہ ایک دہائی کے دوران اس میں انتہائی تیز رفتار ترقی ہوئی ہے، جس کے پیش نظر سوشل میڈیا نوجوانوں میں تیزی سے دلچسپی کا محور و مرکز بنتا جا رہا ہے۔ اس وقت پاکستان میں 50 ملین سے زائد سوشل میڈیا اکاؤنٹس ہیں، جو بیشتر نوجوان استعمال کر رہے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں سب سے زیادہ فیس بک استعمال کرنے والوں کی تعداد ہے، جو 30ملین سے تجاوز کرگئی ہے۔ سوشل میڈیا، عام افراد اور اداروں کو ایک دوسرے سے مربوط ہونے، خیالات کا تبادلہ کرنے، اپنے پیغامات کی ترسیل اور انٹرنیٹ پر موجود دیگر بہت سی چیزوں کو ایک دوسرے کے ساتھ باٹنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ دنیا کے کسی بھی گوشے میں ہونے والا کوئی بھی واقعہ سوشل میڈیا کے ذریعے چند سیکنڈوں میں ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ جاتا ہے، پاکستان میں رونما ہونے والے واقعات جن میں زینب قتل کیس، انتظار قتل کیس، جعلی پولیس مقابلے، مری میں سیاحوں کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک، فروٹ بائیکارٹ وغیرہ شامل ہیں۔ ان تمام معاملات کو اگر نوجوان صارفین سماجی رابطوں کی مختلف ویب سائٹس کے ذریعے سامنے نہ لاتے تو شاید روایتی میڈیا ان واقعات پر سیلف سئینسر شپ کی قینچی چلاتے ہوئے عوام تک پہنچنے ہی نہ دیتا۔ ملکی تنازعوں کے علاوہ غیر ملکی حالات و واقعات سے باخبر رہنے کے لیے بھی اب سوشل میڈیا کا ہی رخ کیا جاتا ہے۔ یہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس ہی ہیں، جن کے ذریعے عرب ممالک میں نوجوانوں نے تیس برس سے قائم آمرانہ حکومت کے خلاف آواز بلند کی، یہ ان کا اتحاد ہی تھا، جس نے انہیں اپنے مقاصد میں کامیاب کیا۔ فلسطین میں جاری اسرائیلی بربریت جسے بین الاقوامی میڈیا دکھانے سے گریز کرتا ہے وہاں کے حالات و واقعات بھی باہمت نوجوان ہم تک سوشل میڈیا کے ذریعے ہی پہنچ رہے ہیں۔ اسمارٹ فونز آنے کے بعد بلاشبہ انٹرنیٹ تک رسائی نہایت آسان اور تیز تر ہوگئی ہے۔ بڑھتی ہوئی بےروزگاری کا حل بھی نوجوانوں نے اپنی مدد آپ کے تحت ای۔بزنس کی صورت میں ڈھونڈ نکالا ہے، اب وہ وقت گیا جب چھوٹے سے چھوٹے کاروبار کی مناسب تشہیر کے لیے بھی لاکھوں کے اخراجات کا سوچتے ہی ارادہ ملتوی کرکے کم منافع میں بھی شکر ادا کر لیا جاتا تھا۔ اب سوشل میڈیا کا دور ہے، کاروبار چاہئے چھوٹے پیمانے پر ہو یا بڑے، فُل ٹائم ہو یا پارٹ ٹائم، گھر سے ہو یا باہر نکل کر، تشہیر کے لیے چند تصاویر مکمل تفصیلات کے ساتھ سوشل میڈیا پر ڈال دی جائیں، کیوں کہ سوشل میڈیا کے ذریعے لاکھوں افراد تک رسائی چند لمحوں میں ممکن ہوگئی ہے۔ صرف کاروباری تشہیر کے لیے ہی نہیں بلکہ اب ملازمت کی تشہیر کے لیے بھی اخبارات کے بجائے سوشل میڈیا کا پلیٹ فارم ہی استعمال کیا جاتا ہے۔ نوجوان طالب علموں کے پاس بھی اب ماضی کے مقابلے میں زیادہ مواقعے میسر ہیں۔ اب انہیں ڈگری کے ساتھ ساتھ پروفیشنل کورس کرنے کے لیے مختلف انسٹیٹوٹ جانے کی ضرورت نہیں بلکہ آن لائن کورسز سے مستفید ہوسکتے ہیں، صرف یہ ہی نہیں بلکہ اب سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر مسلسل اسکالرشپ اور ان کے حصول کا طریقہ کار بھی اپ ڈیٹ کیا جاتا ہے، جس سے ہر سال ہزاروں طالب علم مستفید ہو رہے ہیں۔

جس طرح کسی بھی تصویر کے دو رُخ ہوتے ہیں اسی طرح ہر چیز کے دو پہلو مثبت اور منفی ہوتے ہیں۔ اب یہ استعمال کرنے والوں پر منحصر ہوتا ہے کہ کون سا اثر لیتے ہیں۔ سوشل میڈیا کے بھی دونوں پہلو ہیں۔ آج کل کے باشعور نوجوان جہاں سوشل میڈیا کا مثبت استعمال کرتے ہوئے ترقی کی منازل طے کر رہے ہیں، وہیں ایسے نوجوان بھی ہیں جو اس کے منفی اثرات کو قبول کر رہے ہیں۔ یہ ہمارے معاشرتی رویے اور اقدار کو بہت تیزی سے تبدیل کررہا ہے۔ آج کا بچہ بچہ موبائل فون اور لیپ ٹاپ بخوبی استعمال کرنا، اپنا من پسند پروگرام چلانا جانتا ہے۔ لیکن بچے ہوں یا بڑے وہ یہ نہیں جانتے کہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر مہیا کردہ معلومات کس حد تک درست ہیں، نہ ہی انہیں یہ علم ہوتا ہے کہ وہ کس طرح درست اور جعلی معلومات میں فرق کرسکیں، یہ ہی وجہ ہے کہ ہر موضوع پر بے مقصد، جعلی اور غلط معلومات کا انبار موجود ہے۔ فیس بک پر جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے انسانیت کو جس طرح داغدار کیا جارہا ہے، اُس سے کون واقف نہیں۔ کبھی بیلینس مانگا جاتا ہے تو کبھی کہا جاتا ہے کہ، اس پیغام کو اتنے افراد کو بھیجیں تو کامیابی ملے گی، یا پھر مختلف اداروں، اداکاروں، کھلاڑیوں، سیاست دانوں الغرض ہر معروف شخصیت کے نام سے منسوب جعلی اکاؤنٹس بناکر لوگوں کو گم راہ کیا جاتا ہے۔ نیز ایسی سرگرمیاں بھی عروج پر ہیں جن سے نفرت کو پروان چڑھانے، باہمی انتشار اور خلفشار کا سبب بن رہی ہیں۔ نوجوان نسل کے ذہنوں پرسوشل میڈیا جنون کی حد تک حاوی ہوچکا ہے، وہ اپنے کام اور پڑھائی کے اوقات بھی سوشل میڈیا پر صرف کر رہے ہیں، جس سے ان کی تعلیم پر منفی اثرات پڑ رہے ہیں۔ صرف یہ ہی نہیں بلکہ آج کل سوشل میڈیا پر ذاتی معلومات اور تصاویر وغیرہ شئیر کرنا جس قدر آسان ہے، اتنا ہی غیر محفوظ بھی ہے۔ فیس بُک کے ذریعے تمام صارفین ایک دوسرے سے دوستی کرنے کے لیے آزاد ہیں اور ایسی دوستیوں کا نتیجہ کسی نہ کسی جرم کی صورت میں نکلتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جہاں فیس بک کی دوستیاں اغوا برائے تاوان یا بلیک میلینگ پر آکر ختم ہوتی ہیں، جن میں بیشتر نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ہی ملوث ہوتے ہیں، جو غلط راہ پر نکل جاتے ہیں۔ حال ہی میں پشاور سے احسن شیراز کو خواتین کی تصاویر فیس بُک پر اپ لوڈ کرنے کے جرم میں8 سال قید اور 50 ہزار جرامنے کی سزا سنائی گئی ہے، جبکہ لاہور میں بھی نجی یونیورسٹی کے ایک طالب علم کو لڑکیوں کی غیر اخلاقی وڈیوز بنا کر انہیں سوشل میڈیا پر بلیک میل کر نے کے جرم میں گرفتار کیا ہے۔ اس کے علاوہ گزشتہ چند ماہ سے کالج اور یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات میں آئس کا نشہ مقبولیت اختیار کرتا جارہا ہے، واضح رہے کہ چند ماہ قبل یہ انکشاف ہوا تھا کہ منشیات کی خرید و فروخت کے لیے بھی منشیات فروش مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز استعمال کر رہے ہیں۔ جہاں یہ سب ہو رہا ہے وہیں بعض ممالک میں بڑھتی ہوئی طلاق کی شرح کا الزام بھی سوشل میڈیا کے سر ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس نوجوانوں میں عدم برداشت کی وجوہ میں سے ایک ہے تو غلط نہ ہوگا۔ یہاں ہر ایک اپنی بات کُھل کرکہنے کے لیے آزاد ہے لیکن اگر یہ ہی آزادی مخالفین استعمال کریں تو ہنگامہ برپا ہوجاتا ہے اور کمینٹس کا نہ روکنے والا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ مخالفین کے خلاف ایسے محاذ کھول دیئے جاتے ہیں جیسے کوئی جنگ کا میدان ہو، جس میں نہ تو زبان کا خیال رکھا جاتا ہے اور نہ ہی جملوں کا۔ مشاہدے میں آیا ہے کہ اکثر عدم برداشت کی بنیادوں پر اُٹھنے والے تنازعات کا نتیجہ کسی ماں کی گود خالی کر دیتا ہے۔

دور حاضر سے قدم سے قدم ملا کر چلنا ہے تو اس دور کے تقاضوں کو بھی ضرور پورا کیا جائے اور انہیں پورا کرتے ہوئے اپنی اقدار کو کھونا نہیں چاہے۔ اگر سوشل میڈیا کا استعمال دور جدید کا تقاضا ہے تو یہ بھی ضروری ہے کہ اس کا استعمال حد میں رہ کر کیا جائے۔ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے منفی پہلوؤں کو کسی طور پر بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، بلاشبہ غیر صحت مند اور نقصان دہ سرگرمیوں کو مانیٹر کرنا حکومت کا کام ہے۔ چین اور دیگر ممالک کی مثال ہمارے سامنے ہے، جہاں اس حوالے سے سخت قوانین موجود ہیں، ساتھ ہی ویب سائٹس کو فلٹر بھی کیا جانا چاہئے، جس کے قوانین تمام کمرشل ویب سائٹس بلکہ سائنسی ویب سائٹس تک سے یہ مطالبہ کریں کہ وہ صارفین سے ایسی تمام اشیا اور معلومات کو دور رکھیں جو کسی بھی لحاظ سے نقصان دہ ہوں۔ واضح رہے کہ گزشتہ برس 2018ء میں صرف ایف آئی اے سندھ زون میں انداج ہونے والی 600 انکوائریوں میں سے 500 انکوائریز فیس بُک کے حوالے سے تھی، جبکہ رواں ماہ تقریباً 50 درخواستوں میں سے 40 سوشل میڈیا پر نازیبا تصاویر و وڈیوز اپ لوڈ کرنے، بلیک میلنگ، آن لائن بینکنگ فراڈ اور جعل سازی کے حوالے سے ہیں۔ مگر افسوس اس بات کا ہے کہ سائبر کرائم ایکٹ کی منظوری کے باوجود ایف آئی اے سائبر کرائم حکام موبائل لوکیٹر، جدید لیپ ٹاپ جیسی بنیادی آلات سے بھی محروم ہیں۔ دوسری جانب حکومت کے ساتھ ساتھ معاشرے کے ہر فرد خصوصاً نوجوانوں کو سوشل میڈیا کے مثبت استعمال کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے تا کہ اقدار، تہذیب اور اخلاقیات کی حفاظت ہوسکے۔ اس کے لیے اساتذہ اور والدین کو بچوں میں شعور بیدار کرنا ہوگا، انفرادی اور اجتماعی سطح پر جدوجہد کرنی ہوگی۔ اس کے لیے مختلف تعلیمی و سماجی، تنظیموں اور اداروں کو ’’تھنک ٹینک‘‘ بنانے چاہئیں، جو پورے وژن کے ساتھ موثر حکمت عملی ترتیب دیں۔ نیز میڈیا کانفرنسں بھی مستقل بنیادوں پر منعقد کی جائیں، تاکہ وقت کے تقاضوں کے مطابق در پیش چیلنجوں کا مقابلہ کیا جاسکے۔