گیس ایشو:نظر ثانی کی ضرورت!

February 14, 2019

وزیراعظم عمران خان جب عوام دوست پالیسیوں کو اولین ترجیح دینے کے موجودہ حکومت کے عزم کو دہراتے ہیں تو ان کا مقصد یہ واضح کرنا ہوتا ہے کہ حالات مشکل ضرور ہیں مگر حکومتی پالیسیوں کی سمت واضح ہے اور عام آدمی کے سنہری دنوں کے خوابوں کو حقیقت کا روپ دینے کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ اس باب میں موجودہ حکومت کے شیلٹر ہومز قائم کرنے اور بڑھاپے کی پنشن میں اضافے جیسے اقدامات کی مثالیں دی جا سکتی ہیں؛ تاہم روپے کی قدر میں گراوٹ اور فوڈ باسکٹ سمیت اشیائے صرف میں اضافے کے حوالے سے موجودہ حکومت کا یہ موقف سامنے آتا رہا ہے کہ سنگین مرض کے علاج کے لئے آپریشن کی تکلیف اور کڑوی دوائوں کے مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے۔ منگل کے روز پاکستان ریلوے لائیو ٹریکنگ سسٹم اور نئی ٹرین سروس تھل ایکسپریس کے افتتاح کی تقریب کے بعد خطاب کے دوران گیس کے نرخوں میں اضافے کے حوالے سے وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ گیس مہنگی کرنا مجبوری تھی کیونکہ اس شعبے پر 157؍ارب روپے کے قرضے ہیں اور سالانہ 50؍ارب روپے کی چوری ہو رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ قیمتیں نہ بڑھاتے تو گیس کمپنیاں بند ہو جاتیں۔ وزیراعظم کا یہ بھی کہنا تھا کہ چوری اور کرپشن کے باعث ملکی قرضے دس برسوں میں 6؍ہزار ارب روپے سے بڑھ کر 30؍ہزار ارب روپے تک جا پہنچے ہیں جن پر یومیہ 6؍ارب روپے سود ادا کیا جا رہا ہے۔ وزیراعظم نے گیس کے نرخوں پر اپوزیشن کے اعتراضات مسترد کرتے ہوئے یاد دلایا کہ بحران کے اسباب ان کے ہی ادوارِ حکومت سے تعلق رکھتے ہیں۔ سابقہ حکمرانوں کے چھوڑے ہوئے قرضوں کے حجم کے حوالے سے بطورِ تمثیل ان کا کہنا تھا کہ اگر اتنا قرضہ نہ چھوڑا جاتا تو وہ لوگوں کو مفت حج کرا سکتے تھے۔ جہاں تک ملک کو درپیش مشکلات اور موجودہ حکومت کی کاوشوں کا تعلق ہے اگرچہ حالات میں بہتری کے اشارے دئیے جارہے ہیں اور توقع کی جا رہی ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ان کے ثمرات ملنا شروع ہو جائیں گے مگر اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ سابقہ دور میں جاری کئے گئے بانڈز کی رقوم کی واپسی، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے قرض کے حصول کے لئے متوقع شرائط، ٹیکسوں کی وصولی کے نظام کی خامیوں، درآمدات و برآمدات کے فرق سمیت مسائل کا ایک پہاڑ سامنے کھڑا نظر آتا ہے جس سے موجودہ حکومت کو نمٹنا ہو گا، تاہم کچھ معاملات ایسے ہیں جن کی وضاحت اعداد و شمار کے فن کے ماہرین کچھ بھی کریں، عام آدمی ایسے انداز میں متاثر ہو رہا ہے کہ وزیراعظم کے مشیر عثمان ڈار تک کو یہ خیال ظاہر کرنا پڑا کہ گیس کے معاملات پر نظر ثانی ہونا چاہئے۔ وزیراعظم کے مشیر کی یہ امید حوصلہ افزا ہے کہ آنے والے وقت میں عوام کو ریلیف ملے گا مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ پچھلے دنوں سے ملک بھر میں جاری گیس کی قلت کے اسباب کا معاہدوں کی شرائط سمیت گہرائی میں جاکر جائزہ لیا جائے اور ان مشکلات کا درست ادراک کیا جائے، جن کا محدود آمدنی کے حامل افراد کو گیس کے حیران کن بلوں کی صورت میں سامنا کرنا پڑا ہے۔ وزیراعظم عمران خاں نے اس سلسلے میں بعض اقدامات کا آغاز کر بھی دیا ہے۔ اس مالی بوجھ کو کم کرنے کے اقدامات جاری ہیں جس کے باعث کئی مشکل فیصلے ناگزیر ہو گئے تھے۔ وزیراعظم ہائوس اور مختلف وزارتوں کے اخراجات میں کفایت پر بطور خاص توجہ دی گئی۔ ماضی میں مہنگی غیر ملکی گاڑیوں کی قانونی و غیر قانونی درآمد، بڑی زمینداریوں کی آمدنی، بڑی جائیدادوں، اشرافیہ سمیت آبادی کی غالب تعداد کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے عملی اقدامات سے گریز کیا گیا۔ اس باب میں ایف بی آر کو متحرک کیا جانا چاہئے۔ چھوٹے بڑے آبی ذخائر پانی کی ضروریات اور سستی بجلی کے حصول کا ذریعہ ہیں، ان پر خاص توجہ دینے اور شمسی توانائی سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔ کرپشن کی نذر ہونے والی رقم کی واپسی کی تدابیر اگر جلد نتیجہ خیز ہوتی نظر آئیں تو عشروں سے محض وعدوں پر قناعت کرنے والے عام آدمی کا مروجہ نظام پر اعتماد مستحکم تر ہونے کی امید کی جا سکتی ہے۔