اُجالوں میں چُھپی تھی ایک لڑکی.....

March 03, 2019

گرچہ اقبال کے ان اشعار کے بعد کہ ؎ ’’وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میںرنگ…اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِ دروں…شرف میں بڑھ کے ثرّیا سے مشتِ خاک اس کی…کہ ہر شرف ہے اسی دُرج کا دُرِمکنوں…مکالماتِ فلاطوں نہ لکھ سکی لیکن…اسی کے شعلے سے ٹوٹا شرارِ افلاطوں‘‘ عورت کی ذات سے متعلق کچھ بھی کہنا سُننا، لکھنا پڑھنا اتنا جامع، مکمل، منفرد و مختلف، حسین و دل کش معلوم نہیں ہوتا کہ اگر کسی کو ’’تصویرِ کائنات‘‘ کا رنگ ہی قرار دے دیا جائے، تو پھر باقی کیا بچ رہتا ہے۔ بے رنگ و روپ سا اِک خاکہ، ایک روکھی پھیکی، بے نور و بے رونق، بلیک اینڈ وائٹ سی پکچر۔ لیکن بہرحال.....اس اِک وجودِ زن پہ طبع آزمائی کا سلسلہ ازل سے جو شروع ہے، تو شاید ابد تک جاری و ساری رہے۔

وہ کسی نے کہا تھا ناں کہ ’’اِس دنیا میں خواتین کی اُتنی ہی اقسام ہیں، جتنی کُل خواتین۔‘‘ مطلب ہر اِک عورت، خود اپنی ذات میں مکمل، ایک پوری کائنات ہے۔ تو ممکن ہے، اِسی لیے اِس ایک موضوع پر لکھتے لکھتے قلم تھکتے ہیں، نہ الفاظ ختم ہوتے ہیں۔ عورت کی ذات، عادات، روّیوں، باتوں، جذبات و احساسات، ظاہر و باطن، اندر و باہر، صفات و عیوب سے لے کر قد کاٹھ، نین نقوش، خال و خد، چال ڈھال، رنگ ڈھنگ، آرایش و زیبائش اور بنائو سنگھار تک کون سا رُخ، پہلو، گوشہ ایسا ہے، جس پر خامہ فرسائی، حاشیہ آرائی نہ ہوئی ہو۔ اس اِک وجود کے لیے کیا کیا نہ تشبیہات و تلمیحات، تمثیلات و استعارے تراشے گئے، شعر و سخن، نثر پاروں میںذات کے کس کس راز، اَسرار سے پردہ نہیں اُٹھا، کن کن کھنڈروں، ویرانوں کو تسخیر و دریافت نہیں کیا گیا، اور..... کتنی عجیب بات ہےناں کہ ہنوز اِک تشنگی سی ہے۔

ایک دانش ور کا کہنا ہے کہ ’’عورت کو زندہ رہنے کے لیے صرف تین چیزوں کی ضرورت ہے، غذا، لباس اور توصیف و ستائش۔‘‘ خوراک، پانی کی فراہمی تو ہمارے اختیار میںنہیں، ملبوسات ہماری اسٹائل بزم کا لازمہ و خاصّہ ہیں۔ رہی بات توصیف و ستایش کی، تو وہ بھی جس صورت، جس شکل میںبھی ممکن ہوسکتی ہے، ہم وقتاً فوقتاً کرنے کی کوششکرتے ہی رہتے ہیں۔ اور یہ مہینہ، ماہِ مارچ تو خاص طور پر خواتین ہی کے لیے مخصوص ہے۔ 8 مارچ، ’’عالمی یومِ خواتین‘‘ کے سبب، تو آمدِ بہار کے مژدئہ جانفزا کی مناسبت سے بھی۔

تو چلیں، اس موقعے پر سُرخ، گلابی، آسمانی و سیاہ رنگوں کے حسین و دل نشیں پہناووں سے سجی سنوری، اُجالوں میںچُھپی، اُجالے سی اِک لڑکی کے بہت خُوب صُورت رنگ و انداز دیکھیں اور ساتھ ہی اپنی زندگی کی تیسری بنیادی ضرورت کی تکمیل کےلیے،کچھ توصیفی و ستایشی اشعار بھی سُن لیں ؎ عورت ہوں، مگر صُورتِ کہسار کھڑی ہوں…اِک سچ کے تحفّظ کے لیے سب سے لڑی ہوں…وہ مجھ سے ستاروں کا پتا پوچھ رہا ہے…پتّھر کی طرح جس کی انگوٹھی میں جَڑی ہوں…اس دشتِ بلا میں نہ سمجھ خود کو اکیلا…مَیں چوب کی صورت تِرے خیمے میںگَڑی ہوں…پھولوں پہ برستی ہوں، کبھی صورتِ شبنم…بدلی ہوئی رُت میںکبھی ساون کی جھڑی ہوں۔ اور ؎ عورت!تیرے کتنے رُوپ، کتنے نام…محبُت کے اس بے کراں سفر میں…کتنے پڑائو، کتنے مقام…کبھی کلی، کبھی پھول اور کبھی مُرجھائی ہوئی پنکھڑی…کبھی انار، کبھی ماہتاب اور کبھی پھلجڑی…تخلیق کامنبع، شکتی کا خزینہ تیری ذات…محورِلامتناہی سلسلہ حیات و ممات…شفقت،محبت، ایثارووفاسب تیرے روپ…اے عورت!ایسا تیرا روشن کردار ہے…محبت کے اس بے کراں سفر میں…تجھ سے ہی زندگی استوار ہے۔ اور مجید امجد کے اس خراجِ تحسین کی تو بات ہی کیا ؎ تُو پریم مندر کی پاک دیوی، تُو حُسن کی مملکت کی رانی…حیاتِ انساں کی قسمتوں پر تِری نگاہوں کی حُکمرانی…جہانِ الفت تِری قلم رو، حریمِ دل تیری راج دھانی…فروغِ صد کائنات تیری جبینِ سیمیں کی ضوفشانی…بہارِ فطرت تِرے لب لعل گوں کی دوشیزہ مسکراہٹ… نظامِ کونین تیری آنکھوں کےسُرخ ڈوروں کی تھرتھراہٹ …تِری نگاہوں کے سحر سے گُل فشاں ہے شعرو ادب کی دنیا…تِرے تبسّم کے کیف سے ہے یہ غم کی دنیا، طرب کی دنیا…تِرا تبسّم کلی کلی میں، تِرا ترنّم چمن چمن میں…رموزِ ہستی کے پیچ و خم تیرے گیسوئوں کی شِکن شِکن میں…کتابِ تاریخِ زندگی کے ورق ورق پر تِری کہانی…جو تُو نہ ہوتی تو یوں درخشندہ شمع بزمِ جہاں نہ ہوتی…وجودِ ارض و سما نہ ہوتا، نمودِ کون و مکاں نہ ہوتی…بشر کی محدودیت کی خاطر ترستی عالم کی بیکرانی۔