آزمائش گزر گئی یا شروع ہوئی؟ 

March 13, 2019

انڈین پارلیمنٹ پر حملہ ہو، ممبئی کی دہشت گردی ہو یا پھر پٹھان کوٹ واقعہ۔ پاکستان کا اصرار ہے کہ اُن سب واقعات سے پاکستان کا کوئی تعلق نہیں لیکن ان واقعات کی نوعیت ایسی تھی کہ انہیں گھما پھرا کر، بھارت کسی نہ کسی طرح پاکستان سے جوڑ سکتا تھا، تاہم پلوامہ کے واقعے کی نوعیت یکسر مختلف تھی۔ یہ واقعہ ایسے وقت میںہوا کہ جب ساری دنیا دیکھ رہی تھی کہ مقبوضہ کشمیر میںپاکستانی کشمیر کی سرزمین سے مداخلت نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔ اندھے بھی دیکھ رہے تھے کہ مقبوضہ کشمیر کے اندر تحریک آزادی مقبول ترین اور خالص داخلی عوامی تحریک بن چکی ہے۔ یہ پہلی مرتبہ ہوا کہ فدائی حملہ کرنے والا پہلے دن سے معلوم تھا۔ جو مقبوضہ کشمیر کا رہنے والا ہے اور خود اس کے والد میڈیا پر آکر بتا چکے کہ ان کے بیٹے کیوںاور کس طرح اس راستے پر گامزن ہوئے۔ یوںجب بھارتی حکومت نے راتوںرات پاکستان پر الزام لگایا تو دنیا کا اجتماعی ضمیر اس کو ماننے کے لئے تیار نہیںتھا اور گواہی دے رہا تھا کہ نریندرمودی کی حکومت سیاسی مقاصد کے لئے ہٹ دھرمی سے کام لے رہی ہے۔ اس لئے نسبتاً پاکستان برتر اخلاقی پوزیشن میںرہا۔

اب کی بار پاکستان نے ماضی کے مقابلے میںروایتی موقف سے ہٹ کر بھارت کی طرف دست تعاون دراز کیا۔ ماضی میںپاکستان بھارت میںہونے والی دہشت گردی کے واقعات کے بعد بھی تحقیقات میںتعاون کی پیشکش کرتا رہا لیکن اپنی شرائط کے ساتھ۔ تاہم اب کی بار پاکستان نے بغیر کسی شرط کے پلوامہ واقعہ کی تحقیقات کے لئے غیر مشروط طور پر ہر قسم کے تعاون کی پیشکش کی جس سے بھارت نے ابتدا میں کوئی فائدہ نہیں اٹھایا۔ اسی طرح پاکستان نے مذاکرات کے حوالے سے بھی اپنے روایتی موقف سے پسپائی اختیار کی۔ ماضی میںپاکستان کشمیر پر بات چیت کا مطالبہ کرتا اور ہندوستان صرف دہشت گردی پرگفتگو پر اصرار کرتا رہا۔ پھر جامع مذاکرات کی صورت میں دونوںنے یہ لچک پیدا کر دی کہ پاکستان دہشت گردی پر جبکہ انڈیا کشمیر پر بات کرنے پر رضا مند ہوا۔ اب کی بار وزیراعظم عمران خان نے پیشکش کی کہ آپ دہشت گردی پر بات کرنا چاہتے ہیںتو چلو پہلے اس پر بات کرتے ہیں۔ یہ پاکستان کے روایتی موقف سے انحراف تھا اور اگر یہ لچک میاںنواز شریف یا آصف علی زرداری دکھاتے تو شاید ان پر غداری کے الزامات تک لگ جاتے۔ تاہم اب کی بار بھارت نے اس پیشکش کا بھی مثبت جواب نہیں دیا جس کی وجہ سے پاکستان برتر اخلاقی پوزیشن میںرہا۔

پاکستان پر تو مداخلت کا الزام تھا جس کا بھارت کوئی ثبوت دنیا کے سامنے نہ رکھ سکا لیکن اس نے پاکستان کے خلاف کھلی جارحیت سے کام لیا۔ اب کی بار کنٹرول لائن کی خلاف ورزی پر بھی اکتفا نہیںکیا بلکہ خیبر پختونخوا میں واقع بالاکوٹپر حملہ کیا جو بین الاقوامی سرحد کی خلاف ورزی تھی اور اسے اعلان جنگ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس کے جواب میںپاکستان نے مقبوضہ کشمیر کے علاقے میںکارروائی کی۔ یوںپاکستان برتر اخلاقی پوزیشن میںرہا لیکن اس سے بھی بڑی بات یہ تھی کہ بھارت مسلسل جھوٹا اور پاکستان سچا ثابت ہوتا رہا۔ بھارت نے دعویٰ کیا کہ اس نے فضائی حملے میںتین سو سے زائد دہشت گرد مارے لیکن تین کا بھی ثبوت نہ دے سکا۔ وہ دعویٰ کرتا رہا کہ پاکستان نے اس کا کوئی جہاز نہیںگرایا لیکن جب پائلٹ پاکستانی سرزمین سے برآمد ہوا تو اس کا جھوٹ، جھوٹ اور پاکستان کا سچ، سچ ثابت ہو گیا۔ اس نے جھوٹا دعویٰ کیا کہ ان کی فورسز نے بھی پاکستانی جہاز گرایا ہے لیکن کوئی ثبوت سامنے نہ لا سکا اور اس کا یہ جھوٹ بھی واضح ہو گیا۔ اس حوالے سے بھی پاکستان برتر پوزیشن میںرہا کہ پہل بھارت نے کی تھی اور مسلسل مار اُسی کو پڑی۔

پاکستان پر اللہ کا کرم تھا کہبھارت میںانتخابات سر پر تھے جبکہ پاکستان میںایسی کوئی بات نہیںتھی۔ نریندر مودی نے ساری مہم جوئی چونکہ انتخابات کے تناظر میںکی تھی اس لئے اپوزیشن کے رہنما زیادہ دیر خاموش نہیںرہ سکے اور داخلی محاذپر بھی ان کو مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ پاکستان میںاگرچہ سیاسی پولرائزیشن عروج پر تھی اور شاید اسے دیکھ کرنریندر مودی کو مہم جوئی کا شوق ہوا تھا لیکن چونکہ پاکستان میںانتخابی ماحول نہیںتھا اس لئے خلاف توقع پاکستان کے تمام سیاسی عناصر اپنی افواج اور اسی وجہ سے حکومت کے ساتھ یک آواز ہو گئے۔ اسی طرح پاکستانی میڈیا پلوامہ سے قبل اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا تھالیکن جب مودی صاحب نے جنگ کا طبل بجا دیا تو پاکستانی میڈیا اپنی افواج کے ساتھ کھڑا ہو گیا۔ تاہم انڈین میڈیا کی طرح بیہودہ طریقے سے نہیںبلکہ امن کا داعی بن کر پاکستانی بیانیے کا دفاع کرنے لگا۔ اس حوالے سے بھی اللہ نے پاکستان کو اخلاقی برتری دلوا دی۔

بدقسمتی سے جنرل پرویز مشرف نے ایک طرف امریکہ کو پاکستانی سرزمین پر ڈرون حملوںکی اجازت دی اور دوسری طرف حکومت پاکستان یہ جھوٹا تاثر دیتی رہی کہ یہ پاکستان کی مرضی کے بغیر ہو رہے ہیں۔ یہ ڈرامہ کئی سال تک جاری رہا۔ اس منافقانہ پالیسی کی وجہ سے بھارت جیسی قوتوںکے ذہن میںیہ بات بیٹھنے لگی کہ پاکستان تو اپنی سرزمین پر باہر کی کارروائیوںکو برداشت کر لیتا ہے۔ ایبٹ آباد میںاسامہ بن لادن کے لئے امریکہ کی کارروائی ،اور اس حوالے سے پاکستان کے اس موقف کہ یہ کارروائی بھی پاکستان کی اجازت کے بغیر ہوئی، سے اس ذہنیت کو مزید تقویت ملی اور بھارت کے اندر سے اس طرح کی آوازیںاٹھنے لگیںکہ اس کی افواج کو بھی امریکہ کے نقش قدم پر چل کر پاکستان کے اندر کارروائی کرنا چاہئے۔ یوںپاکستانی افواج کے لئے یہ ایک چیلنج تھا کہ وہ بھارت کو یہ روایت قائم کرنے نہ دے۔ پاکستانی افواج نے جس طرح بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا اور جس طرح اس کے مقابلے میںاپنی پیشہ ورانہ برتری ثابت کردی اسے دیکھکر یہ واضح ہو گیا بھارت امریکہ ہے اور نہ پاکستان کبھی اس کو وہ رعایت دے گا جو امریکہ کو دیتا رہا۔ یوںپاکستان اس چیلنج سے نمٹنے میںسردست سرخرو ہو گیا۔

مذکورہ سب کامیابیاںاپنی جگہ لیکن کیا آزمائش ختم ہوگئی؟۔ نہیںہر گز نہیں۔ بلکہ شاید اصل آزمائش اب شروع ہوئی ہے۔ پلوامہ واقعے اور اس کے بعد کے واقعات سے ثابت ہو گیا کہ پاکستان اور بھارت جیسی دو ایٹمی طاقتوںکے تعلقات کا ریموٹ عملاً چند نان اسٹیٹایکٹرز کے ہاتھ میںہے اور وہ کسی بھی وقت ایک آدھ حرکت سے دونوںممالک کو راتوںرات جنگ پر مجبور کر سکتے ہیں۔ شکر ہے پلوامہ کے واقعہ میںتو پاکستان کا کوئی ہاتھ نہیں تھا لیکن پاکستان کو اب ایسے بہت سارے اقدامات کرنا ہیں کہجن سے دنیا کو بھی یقین ہو جائے کہ اس کی سرزمین کسی بھی صورت بھارت یا کسی اور پڑوسی کے خلاف استعمال نہیں ہو سکتی۔ یقینا ًیہ پاکستانی سلامتی کے ذمہ داران کے لئے بہت بڑی آزمائش ہے۔ یہ آزمائش یوںاور گھمبیر ہو گئی ہے کہ بھارت سے اپنی حالیہ سبکی کسی صورت ہضم نہیںہو سکتی تھی لیکن امریکہ، برطانیہ اور سعودی عرب جیسے دوست ممالک نے بھارت کو مزید جارحیت سے باز رکھ کر پاکستان سے یہ یقین دہانی لی ہے کہ جیش محمد اور لشکر طیبہ جیسی تنظیموںکا مسئلہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے حل کیا جائے گا۔ اب جو لوگ ان تنظیموںاور موجودہ حکومت کی استعداد سے واقف ہیں، وہ سمجھتے ہیںکہ امریکہ اور دوست ممالک کی توقعات کے مطابق یہ مسئلہ حل کرنا کتنا مشکل کام ہے اور ان سے نمٹتے وقت اگر معمولی سی بھی غلطی ہو گئی تو اُس کے کس قدر بھیانک نتائج نکل سکتے ہیں۔ تبھی تو جاننے والے جانتے ہیںکہ آزمائش ختم نہیںہوئی بلکہ اصل آزمائش تو اب شروع ہوئی ہے۔