رمضان المبارک سے پہلے مزید سختیوں کا امکان

April 04, 2019

میاں نواز شریف کی مشروط ضمانت اور میاں شہبازشریف کا نام ای سی ایل سے خارج ہونے کا براہ راست تعلق سندھ کی سیاست سے نہیں مگر شریف برادران کو ملنے والے ریلیف کے اثرات سندھ کی سیاست پر بھی پڑیں گے پی پی پی کی احتجاجی سیاست اپوزیشن کے ممکنہ اتحاد اور حکومت کے خلاف مشترکہ بڑا سیاسی محاذ بنتااب نظرنہیں آرہاپی پی پی کی قیادت انتہائی مشکلات کا شکار ہے ایک درجن کے قریب پی پی پی کے رہنما جیلوں میں ہے یا پھرعبوری ضمانت پر ہے کچھ نیب کی پیشیاں بھگت رہے ہیں شریف برادران کو ملنے والا ریلیف پی پی پی کے لیے پریشان کن ہوسکتا ہے بعض حلقوں کے مطابق حکومت نے دو محاذوں پر لڑنے کے بجائے اپوزیشن کو تقسیم کرکے اپنی توپوں کا رخ پی پی پی کی جانب موڑ دیا ہے کہاجارہا ہے کہ رمضان المبارک سے قبل پی پی پی کی مرکزی قیادت نیب کے شکنجے میں ہوگی جس مقصد کے لیے کراچی تالاڑکانہ ٹرین مارچ کیا گیا وہ مقصد جزوی طور پر کامیاب قراردیا جاسکتا ہے تاہمآصف علی زرداری کے ترپ کے آخری پتہ بلاول بھٹو ٹرین مارچ کے ذریعے کوئی بڑی سیاسی مقصد حاصل نہیں کرپایا اور ناہی سندھ کے عوام نے ان کی اس طرح پذیرائی کی جس کی امید کی جارہی تھیں تمام ترسرکاری وسائل کے باوجودبلاول کے استقبال کا تاثر متاثرکن نہیں تھا اس مارچ نے پی پی پی کی تنظیمی کمزوریوں کو بھی عیاں کردیا ایک زمانے میں پی پی پی اور اس کی ذیلی تنظیمی یوتھ رنگ، خواتین ونگ، لیبرڈویژن ، وکلاء ، ڈاکٹرز ، طلبہ وارڈ تک منظم اور متحرک تھے تاہم بلاول بھٹو زرداری کے ٹرین مارچ میں سندھ کی منظم تک نظر نہیں آئی صوبائی صدر نثارکھوڑو مارچ کے دوران انتہائی محتاط رہے اور فرنٹ فٹ کے بجائے بیک فٹ پر نظرآئے حکومتی اور تنظیمی عہدے الگ ناکئے جانے کے سبب عوامی رابطے کافقدان رہا ٹرین مارچ سے قبل عوام سے براہ راست رابطہ کرنے کے بجائے بجلی کے کھمبوں کے ذریعے رابطے کی کوشش کی گئی اور بجلی کے کھمبوں پر جھنڈے، ہوہلڈرز لگاکر عوام کو ٹرین مارچ میں شرکت کی دعوت دی گئی ۔کراچی ڈویژن کے صدر سعیدغنی فعال نظرآئے تاہم دوہری ذمہ داریوں کے سبب وہ بھی عوامی رابطہ مہم نہیں چلا سکے کراچی ڈویژن کے جنرل سیکریٹری کو شاہد ہی کوئی جانتا ہوصوبائیصدر نے بھی کارکنوں سے ملنے کی ضرورت محسوس نہیں کی ضلعی صدر پس منظرنہیں رہے وارڈمتحرک نظر نہیں آئے حکومتی ترجمان مرتضی وہاب کو پارٹی میں پیراشوٹر کہاجاتا ہے ان کی واحدقابلیت ان کے والدین کی پارٹی سے وابستگی ہے وہ بھی پارٹی کے جیالوں، ووٹروں، کارکنوں سے براہ راست رابطے میں نہیں رہے وہ میڈیا میں مارچ کاوہ تاثر قائم کرنے میں ناکام رہے جو انہیں کرنا چاہیئے تھا مارچ سے متعلق بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ بڑی تعداد میں لوگ دھاڑی پر لائے گئے تھے بہرحال مارچ کے دوران بلاول بھٹو زرداری سندھ کے عوام کو کوئی پروگرام نہیں دے پائے ۔ان کی تمام ترتوجہ مرکزی حکومت پر تنقید پر رہی یہاں تک کہ جب انہیں میاں نوازشریف کو ضمانت پر رہائی اور شہبازشریف کا نام ای سی ایل سے خارج ہونے کی خبر ملی تو انہوں نے مبارک باد کے ساتھ ساتھ انہیں این آر او کا بھی عندیہ دے ڈالا بلاول بھٹو کے ٹرین مارچ کو جے یو آئی کے سربراہ مولانافضل الرحمن نے بھی سنجیدہ احتجاج قرار نہیں دیا پی پی پی کے اس ٹرین مارچ پر پی پی پی کے سیاسی مستقبل کا دارومدار تھا یوں محسوس ہوتا ہے یہ ٹرین مارچ پی پی پی کی سیاسی مشکلات کم کرنے کے بجائے بڑھائے گا ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ پی پی پی تمام ترقوت 4 اپریل کے جلسے کے لیے لگاتی تاہم انہوںنے اپنی اور بچے کچے کارکنوں کی توانائی ٹرین مارچ میں جھونک کر سیاسی دانشمندی کاثبوت نہیں دیا ہے۔لاڑکانہ میں بلاول بھٹو نے میئرلاڑکانہ محمداسلم شیخ سے ان کے بھائی علی نواز کی وفات پر تعزیت کے بعد میڈیاسے بات چیت کرتے ہوئے کہاکہ ٹرین سے سفر کیامارچ نہیں کیا ۔ نوازشریف نے راولپنڈی سے لاہور تک مارچ کیا اس کا سیاسی مقصد تھا اور انہوںنے مقاصدحاصل کئے، انہوں نے کہاکہ نیب میں وزراء کے خلاف ثبوت ہیں لیکن کارروائی نہیں ہوتی، نیب کالاقانون ہے جو صرف سیاسی انتقام لینے کے لیے بنایاگیا ہے، بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ جرنیل ہو، جج ہو احتساب سب کے لیے یکساں ہونا چاہیئے، اگر یہ تاثر ہے کہ ن لیگ کو ڈھیل اور پیپلزپارٹی پر سختی کی جارہی ہے تو اسے دیکھاجاناچاہیئے۔ادھر طویل انتظار کے بعد وزیراعظم عمران خان نے کراچی سمیت گھوٹکی کا دورہ کیا اور کراچی کے لیے 162 ارب روپے پیکیج کا اعلان بھی کیا وزیراعظم نے گورنرہاؤس میں ایم کیو ایم کے وفد سے بھی ملاقات کی ملاقات میں کراچی وحیدرآباد کے ترقیاتی منصوبوں سمیت سیاسی صورتحال، ایم کیوا یم کے لاپتہ کارکنوں، ایم کیو ایم کے دفاتر کی واپسی پر گفتگو ہوئی وزیراعظم نے ایم کیو ایم کے وفد کو مسائل حل کرانے کی یقین دہانی بھی کرائی بعد ازاں گھوٹکی میں جلسہ عام سے خطاب اور کراچی میں اجلاس کےد وران کہاکہ زرداری اور نوازشریف چاہے اکٹھے ہوجائیں اور اپنی چوری بچانے کے لیے جو مرضی کرنا ہے کرلیں انہیں نہیں چھوڑیں گے اگر قوم کا پیسہ واپس کردیں تو ہم چھوڑدیں گے، انہوں نے کہاکہ کراچی کی ترقی کے بغیر پاکستان آگے نہیں بڑھ سکتا۔کراچی کے حالات ٹھیک کرنا سندھ حکومت کی ذمہ داری ہے افسوس ہے اندرون سندھ سے جیت کر کراچی کاخیال نہیں رکھا جاتا۔ ان کا اس شہر سے سلوک سب کے سامنے ہے ۔