بیرونی سرمایہ کاری کا ٹیکہ: قومی معیشت کیلئے ناگزیر

April 04, 2019

پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے یہ بات عیاں ہوگئی ہے کہ پاکستان کی معاشی صورتحال دوست ممالک سے امداد کی شکل میں ملنے والے اربوں ڈالرز کے باوجود بھی کھڑ ی نہیں ہوسکی۔ معاشی تجزیہ کاروں کاکہنا ہے کہ معاشی صورتحال میں بہتری آنے کے مستقبل قریب میں کوئی امکان نہیں۔ وزیراعظم نے غیرملکی قرضوں پر روزانہ چھ ارب سود کی ادائیگی کا راز فاش کرکے قومی خزانے پر عیاشی کرنے والوں کی اوقات بتادی ہے۔1999 میں جب نوازشریف کی دوتہائی اکثریت کی حامل جمہوری حکومت پر شب خون مارا گیا اس وقت وطن عزیز 2946 ارب روپے کا مقروض تھا اورڈالر کی قیمت52 روپے تھی۔2007 کے نتیجہ میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت بننے تک قرضوں کا بوجھ 6126 ارب روپے تک پہنچ گیا تھا اور مئی 2008 میں ڈالر کی قیمت67 روپے تک پہنچ گئی تھی۔ 2013 کے انتخابات تک قومی قرضے14318 ارب روپے تک پہنچ گئے تھے ۔ نواز شریف دور حکومت میں 2017تک پاکستان پر قرضوں کا بوجھ 25109 ارب روپے تک پہنچ گیا تھا ،ڈالر 105 کا ہوگیا ، نوازشریف کی نااہلی کے بعد جولائی2018میں قومی قرضہ29861 ارب روپے ہوگیا اورڈالر کی قیمت دسمبر 2018 میں139 روپے تک پہنچ گئی ،مارچ 2019 تک ڈالر کی قیمت میں وقفے وقفے سے اضافہ جاری ہے۔2018 میں پاکستان کے عوام نے تبدیلی کے نام پر جس حکومت کو منتخب کیا وہ وہ انہیں ابھی تک خوشگوار تبدیلی کا خواب پورا کرنے میں کامیاب نظر نہیں آتی۔ اشیائے خوردنوش کی قیمتوں میں گیارہ فیصد اضافے سے عوام کی چیخیں نکل گئی ہیں ۔ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اپنی طویل ترین انتخابی مہم کے دوران پاکستان کے عوام کو تبدیلی کے جو سہانے خواب دکھایا کرتے تھے اور کھانے پینے اور بجلی و گیس کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے ڈراؤنے خواب کی شکل اختیار کرتے نظر آتے ہیں۔ بیرون ملک محنت مزدوری کرنے والے پاکستانیوں سے غیرملکی قرضہ ختم کرنے کے سلسلے میں کرکٹ کے قومی ہیرو کی حیثیت سے عمران خان نے جو توقعات وابستہ کی تھی اس کاخاطرخواہ رسپانس نہیں ملا۔ معاشی تجزیہ نگاروں کاکہنا ہے کہ ایک طرف ہم قرضوں میں جکڑے ہوئے ہیں دوسری طرف حکومت اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں کی قیادت کی مبینہ کرپشن کو بے نقاب کرنے میں مصروف ہے۔ نوازشریف کو ایک ریفرنس میں بیٹی اورداماد سمیت دس سال قید بامشقت اور دوسرے ریفرنس میں سات سال قید کی سزا کے بعد جیل یاترابھی ہوچکی۔ عدالت عظمیٰ نے نوازشریف کی علاج کیلئے چھ ہفتوں کی ضمانت منظورکرکے انہیں رہا کردیا۔ بعض سیاسی حلقے اسے ملکی سیاست میں تبدیلی کا سنگ میل قرار دیتے ہیں ان کاکہنا ہے کہ عدالت عظمیٰ نے نوازشریف کی علالت کو تسلیم کرکے ضمانت پر رہائی کا حکم دیا ہے۔ علاج کے سلسلے میں ملنے والی اس رہائی کو توسیع ملے گی، دوسری جانب این آر او نہ دینے کا بار بار اعلان کرنے والے وزیراعظم عمران خان اپنے دورہ سندھ کے دوران یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ قومی دولت لوٹنے والے پیسہ واپس کردیں چھوڑ دونگا۔ نوازشریف کی طرف سے ایون فیلڈاپارٹمنٹس میں کی گئی سرمایہ کاری ختم کرکے پیسے حکومت کو دینے کی افواہیں بھی گردش میں ہیں۔ بعض سیاسی تجزیہ نگار تو عدالت عظمیٰ سے چھ ہفتوں کی ضمانت کو بھی اسی’’ رعایت‘‘ کی ایک کڑی قراردیتے ہیں۔ایک تجزیہ نگار کا دعویٰ ہے کہ نواز شریف کو ملنے والی حالیہ ’’رعایت‘‘ دراصل مریم نوازشریف کی مقتدر حلقوں سے ملاقاتوں کا نتیجہ ہے ، ان کا خیال ہے کہ دس ارب کی ادائیگی سے معاملہ مزید آگے بڑھے گا اور نوازشریف کو علاج کیلئے بیرون ملک جانے کی بھی اجازت دے دی جائے گی لیکن ابھی تک مریم نواز کے سیاسی مستقبل کے حوالے سے بات واضح نہیں ہورہی۔ معاشی تجزیہ نگار معیشت کی اس سخت گھڑی میں 1990 سے 2015 کے دوران معاف کئے گئے چار کھرب اکتالیس ارب انیس کروڑ بیاسی لاکھ سات ہزار روپے کے قرضوں کی وصولی پر بھی زور دیتے ہیں۔ ان کا کہناہے کہ اگر تو قرضے لینے والے واقعی تباہ وبرباد ہوگئے تھے تو معافی ان کا حق بنتا ہے مگر اگر انہوںنے جھوٹ بول کر اپنی سختی تو ختم کرالی مگر ملک و قوم کو سوددر سود کے چکر میں جکڑ دیا ،اگر ان کی معاشی حالت قومی قرضے ادا کرنے کی پوزیشن میں ہے تو ان سے پوری طاقت سے قرضے وصول کئے جائیں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے تینوں ادوار میں مجموعی طور پر تین کھرب، ایک ارب، ترپن کروڑ چھیاسی لاکھ اور چھیاسٹھ ہزار روپے کے قرضے معاف کئے گئے۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی اپنے تینوں ادوار کے دوران 25 ارب16 کروڑ51 لاکھ30 ہزار کے قرضے معاف کئے۔ پرویز مشرف کے دور اقتدار کے دوران بھی ایک کھرب 14 ارب48م کروڑ70 لاکھ اور81 ہزار روپے کے قرضے معاف کئے گئے۔ پاکستان سے بیرون ملک دولت منتقل کرنے والوں میں صرف سیاستدان ہی نہیں بیورو کریٹس اورجرنیل بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں ۔ معاشی تجزیہ نگاروںکاکہنا ہے کہ کمزور معاشی ترقی کی وجہ سے غربت میں مزید اضافہ ہوگا۔ روزگار کے مواقع پیدا کرنے میں دشواری ہوگی ضرورت اس امر کی ہے کہ خسارے میں اضافے کے آگے بند باندھ دیا جائے،نہ صرف بیرون ملک آباد پاکستانیوں کو وطن عزیز میں سرمایہ کاری پر آمادہ کیا جائے بلکہ پاکستان سے دولت بیرون ملک منتقل کرنے والے سیاستدانوں ،بیورو کریٹس اور ریٹائرڈ جرنیلوں کو بھی وسائل پاکستان منتقل کرنے کی راہ دکھائی جائے۔سیاسی تجزیہ نگاروں کی رائے ہے کہ پاکستان میں اپوزیشن بڑی مضبوط ہے مگر وہ متحد ہوکر میدان میں اترنے کیلئے تیار نہیں۔ سیاستدان مقتدر حلقوں سے دوستی اپنی ضرورت سمجھتے ہیں ،مقتدر حلقے ابھی موجودہ حکومت کی ہر میدان میں سرپرستی کریں گے لہٰذا سیاسی طاقت کا ضیاع بے وقوفی ہی ہوگی۔ وزیراعظم عمران خان اپوزیشن رہنماوں کے بارے میں کرپشن کے الزامات کے ساتھ سختی سے نمٹنے کا تاثر دے کر مخالفین کو مضبوط کرنے کا موجب بنتے ہیں تاہم یہ بات حقیقت ہے کہ اپوزیشن جماعتیں اگر واقعی متحد ہوگئیں اور انہوں نے اکٹھے ہوکر پارلیمنٹ کے اندر اور باہر قومی پالیسیوں پر رائے دینا شروع کردی تو موجودہ حکومت جہیل نہیں پائے گی ۔ عوام کو ریلیف دے کر کوئی حکومت سیاسی مخالفین کو کمزور کرسکتی ہے، مولانا فضل الرحمن نے اپوزیشن جماعتوں کو انتخابی نتائج کے خلاف پارلیمنٹ کا حلف نہ اٹھانے کاجو مشورہ دیا تھا سابق وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان ابھی تک اس مشورے پر چل رہے ہیں، ان کاکہنا ہے کہ پنجاب اسمبلی کا حلف اٹھانے کا مطلب یہ کہا جائے گاکہ انہوں نے انتخابی نتائج کو تسلیم کرلیا ہے۔ نوازشریف کی ضمانت پر رہائی اور شہباز شریف کی ضمانت کے بعد نام ای سی ایل سے نکالنے کے عدالتی فیصلوں کو اپوزیشن سے مثبت رویے کا نام دیا جارہا ہے۔ سیاسی اور معاشی تجزیہ نگار اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ ملک کی معاشی حالت اس وقت تک مضبوط نہیں ہوسکتی جب تک شرح نموں میں اضافہ نہ ہو جس کیلئے سرمایہ کاری کا فروغ ضروری ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کیخلاف جعلی اکاونٹس کیس آخر مرحلے میں داخل ہوچکا ہے۔ آصف علی زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور کی گرفتاری کی صورت میں سندھ میں امن وامان کی صورتحال پیدا ہونے کو ناممکن ہرگز قرار نہیں دیا جاسکتا۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کاکہنا ہے کہ پاکستان کے ہر شہری کے شناختی کارڈ نمبر میں ٹیکس نمبر قرار دے کر اثاثوں کی چھان بین شروع کی جائے تو ثابت ہوگا کہ ’’ اس حمام میں سبھی ننگے ہیں‘‘ آمدنی رکھنے والے بھی ٹیکس دینا موت سمجھتے ہیں بلکہ یہ کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ اگر صاحب حیثیت شہری زکوۃ کو فرض سمجھ کر ادا کردیں تو حکومت پر غریبوں کو پالنے کیلئے پانچ ارب روپے کا بوجھ کم ہوجائے گا۔ حکومت مزید قرضے کے حصول کیلئے آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کے سامنے سرنگوں ہونے پر مجبور ہے۔ قومی غیرت کا تقاضا ہے کہ عوام خود ہی وطن عزیز کو معاشی ٹائیگر بنانے پر عمل پیرا ہوں مگر اس کیلئے کھربوں روپے قرض لے کر عیاشی میں اجاڑنے والوں سے بھی پوچھ گچھ کا آغازکرنا ہوگا۔ آئین کی بالادستی کو تسلیم کرکے اس پر بلاتفریق عمل پیرا ہوکر ہی ہم آگے بڑھ سکتے ہیں۔