سائبیریا کا قدیم غار اور انسان کا ارتقا

April 08, 2019

مرزاشاہد برلاس

اب اس سائنسی حقیقت میں کوئی شبہ نہیں رہا کہ نوع انسانی بتدریج ارتقاکے بعد حیوانی سطح سے مختلف انسانی اقسام سے گذرتی ہوئی ہومو سیپین (جدید انسان ) تک پہنچی تھی۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ تمام ارتقا بہت سست روی سے کئی سالوں میں براعظم افریقا میں انجام پذیر ہوا تھا۔ کئی انسان کی انواع نے افریقاسے ہجرت کے بعد دنیا کے دوسرے خطوں میں رہائش اختیار کی تھی۔ان آثار کی دریافت اور تحقیق میں بار بار سائبیریا کے برفانی خطے کا نام استعمال ہوتا رہا ہے جہاں اس سے قبل جدید انسان کے علاوہ نینڈرتھل نام کی انسانی نوع کی ہڈیاں بھی دریافت ہوچکی ہیں یہ شناخت ڈی این اے کی تیکنیک کی دریافت کے بعد ہی ممکن ہوئی ہے۔ لاکھوں سال گزرنے کے بعد بھی ہڈیوں کی موجودگی انسانی آبادی کی دست برد سے محفوظ رہنے کی وجہ سے ہے ۔

تحقیقی رپورٹ کے مطابق دو قدیم انسانی انواع جن کو نینڈر تھل (neanderthal) اور ڈینی سون (denisovans) کے نام دیئے گئے ہیں ۔یہ کئی ہزار سالوں تک سائبیریا کےعلاقے میں رہے تھے ۔ان تحقیقات کے بارے میں جنوبی سائبیریا کے ڈینی سوانامی غار سے ملنے والی ہڈیوں ،آلات اور جمی ہوئی گرد کے تجزیے کے بعد معلوم ہوئی ہے ،جس میں انسانی باقیات بکھری ہوئی پائی گئی تھیں ۔یہ اس کی پہلی معلومات تھیں ،کیوں کہ یہ غارتقریباً300,000 سال تک مختلف قدیم انسانی انواع نے اپنی رہائش کے لیے استعمال کیا تھا ۔

آسٹریلیا کی وولنگونگ یونیورسٹی کے ماہرین کے مطابق اب ہم اس غار کی پوری تفصیلات بآسانی بتا سکتے ہیں ۔1980 ء کے اوائل میں آثار قدیمہ کے سا ئنس دانوں نے کوہ الطائی میں واقع غار ڈینی سووا کی کہانی کی شروعات کی تھی ۔آج تک ا س جگہ پر ماہرین قریباً ایک درجن سے زیادہ قدیم انسانی باقیات کی موجودگی کی نشان دہی کرچکے ہیں ۔یہ غار 2010 ء میں اس وقت مشہور ہو اجب یہا ں ایک ایسی نوع انسان کی چھوٹی سی انگلی دریافت ہوئی تھی ۔جس کے ڈی این اے ٹیسٹ کے بعد معلوم ہو اکہ یہ کسی ایسی نوع انسانی کی انگلی ہے جو نینڈر تھل سے الگ ایک غیر معمولی انسانی نوع رہی تھی ،جس کو بعد میں ڈینی سون کا نام دیا گیا تھا ۔

بعدازاں ہڈیوں کی باقیات کی ڈی این اے کی تر تیب کے بعد دریافت ہوا کہ یہ ڈینی سون کی نوع نینڈر تھل کاحصہ ہی ہے ۔جو کسی زمانے میں پورے ایشیا میں پھیلی ہوئی تھی ۔گذشتہ سال اسی علاقے سے ملنے والی ایک لمبی ہڈی کے ڈی این اے کے تجزیہ سے آج تک کی سب سے پہلی دریافت ہوئی تھی ۔ اس غار کی زیادہ تر نامیاتی اشیاءکی باقیات کی قدامت دریافت کرنے کی ریڈیو کاربن ڈیٹنگ کی تیکنیک 50,000 سال سے بھی زیادہ قدیم ہے ۔جب کہ قدامت معلوم کرنے کی دوسری تیکنیکوں کے استعمال کے لیے غارکی جن تہوں میں باقیات دفن ہیں ان کی جیولوجیکل سطحوں کا صحیح نقشہ بھی موجود نہیں ہے ،کیوں کہ انسانی سر گرمیوں کے سبب ان تہوں میں ردوبدل ہو گئی ہے ۔بعض ماہرین اس لیے متفکر ہیں کہ جانوروں کے سر نگیں بنانے جیسی سر گرمیوں کے تمام باقیات کی اشیاء اتنی اوپر نیچے ہوگئی ہیں کہ وہ ان سطحوں کے درمیان نہیں ملتی ہیں جن سطحوںمیں ان باقیات کا تعلق رہا ہو گا ۔

ان مشکلات پر قابو پانے کے لیے ماہرین نے وہ ڈیٹنگ تیکنیک استعمال کی ہے ،جس کے ذریعے معلوم کیاجاتا ہے کہ مٹی کےان ذرات کا روشنی سے آخری مرتبہ کب سامنا ہو اتھا ۔ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سے غار کی ان جگہوں کی شناخت ہوجاتی ہے جہاں کے برابر کی تہہ کی مٹی کی قدامت کی تاریخ بہت ہی مختلف دریافت ہوتی ہے ،جس کے بعد وہ ان جگہوں کو نظر انداز کردیتے ہیں ۔جہاں برابر کی جیولوجیکل سطحوں کی تاریخیں انسانی باقیات اور آلات کی مطابقت میں نہیں ہوتی ہیں ۔اس بات کی پہلی نشانی 1980ء میں کھدائی سے بر آمد ہونے والے پتھروں کے وہ اوزار تھے جن کی قدامت 300,000 سال تک ہے لیکن محققین پھر بھی اس بات کا فیصلہ نہیں کرسکے تھے کہ ان کے بنانے والے نینڈرتھل تھے یا ڈینی سون تھے ۔غار میں موجود ڈینی سون کی باقیات جن میں ان کا وہ ڈی این اے بھی شامل ہے جو ہڈیوں سے نکل کر مٹی میں مل گیا تھاوہ سب 300,000سے 55,000 سال تک قدیم ہیں ۔جب کہ نینڈر تھل کی باقیات کی قدامت 190,000 سال تک ہے،تاہم ماہرین بالکل درستی سے یہ دریافت نہیں کرسکے تھے ۔ماہرین کے مطابق اس غار میں ہومو سیپین بھی رہتے تھے ،کیوں کہ ابتدامیں یورپ میں رہنے والے جدید انسانوں کے بنائے ہوئے ہڈیوں کے لاکٹ اور اوزار سے ملتی جلتی اشیاء غار کے اوپر کی ابتدائی تہہ سے بر آمد ہوئی ہیں ۔جن کی قدامت 43000 سے 49000 سال کے درمیان تک ہے ،جس کی رپورٹ جرمنی میں قائم جینا میکس پلانک انسٹی ٹیوٹ کے شعبہ سائنس آف ہیومین ہسٹری کے آثار قدیمہ کے ماہرین کی سر براہی میں تیار کی گئی ہے ۔

چوں کہ اس زمانہ سے تعلق رکھنے والے کسی اور ہوموسیپین کی باقیات ڈینی سووا غار یا الطائی کوہستانی علاقہ سے دریافت نہیں ہوئی ہے ،جس کو بنیادی اوپری پیلیولیتھک دور ( Initial Upper Palaeolithic period) کہا جاتا ہے۔ اس لیے روسی آثار قدیمہ کے وہ محققین جنھوں نے یہاں پر کھدائی کا آغاز کیا تھا۔ ان کا خیال ہے کہ یہاں پر کھدائی سے ملنے والے اوزار ڈینی سون نے بنائے تھے جو پرانے دور کے پتھروں کے اوزار سے زیادہ نفیس ہیں لیکن ماہرین اس کوکسی بھی گروپ سے متعلق کرنے سے پہلے کچھ مزید شواہد چاہتے ہیں۔

برطانیہ کی یونیورسٹی آف ایکسیٹر کے آثار قدیمہ کے ماہر روبن ڈینیل کا کہنا ہے کہ ڈینی جیسی مخلوط بھی ان اوزاروں کی تخلیق کی ذمہ دار ہوسکتی ہے۔ان کا مزید کہنا ہے کہ جس کسی نے بھی یہ اوزار تخلیق کیے ہوں گے وہ ہوموسیپین یعنی جدید انسان سے متاثر ہوا ہوگا ۔

ڈینی سون نوع جدید انسانوں سے بھی مخلوط ہوئی تھی۔ چناں چہ ڈینی سون کا ڈی این اے مشرقی ایشیاء میں میلے نیشین آبادی میں 3سے 5فی صد اورایبو ر جنل آسٹریلین اور پاپوا آبادی میں6فی صد تک ملتا ہے۔ سائنسداں کہتے ہیں کہ نینڈرتھل اور ڈینی سون کے اجداد جدید انسانوں کے اجداد سے تقریباً 600,000 سے 744,000 سال پہلے الگ ہو گئے تھے۔ نینڈرتھل کے دماغ انسانوں سے بڑے تھے جب کہ ان کے قد جدید انسانوں سے کم تھے اور ان کی پسلیوں کی ہڈیاں بھی ان سے مختلف تھیں۔ان کے آثار سب سے پہلے جرمنی کی نینڈر تھل کی وادی میں ملے تھے اوران کے اجداد نے افریقا سے یورپ کی طرف تقریباً چھ لاکھ سال پہلے ہجرت کی تھی۔