آسٹریلوی پولیس کا نیوزی لینڈ کے دہشت گردی کے واقعہ کے ملزم کی جائیداد پر چھاپہ

April 08, 2019

جمی سائمی اور ایڈورڈ وائٹ

پیر کو آسٹریلیا کی پولیس نے نیوزی لینڈ میں کرائسٹ چرچ میں دو مساجد میں 50 افراد کو شہید کرنے والے ملزم سے منسلک جائیداد پر چھاپہ مارا،جیسا کہ دائیں بازو کی انتہا پسندی کو برانگیختہ کرنے میں سیاستدانوں اور ذرائع ابلاغ کے کردار کے بارے میں ایک تلخ بحث شروع ہوگئی ہے۔

نیو ساؤتھ ویلز ریاست کی پولیس نے کہا کہ کارروائی کا ابتدائی مقصد نیوز لینڈ کی پولیس کے ساتھ ان کی تحقیقات میں مدد فراہم کرنا تھا۔ پولیس نے کہا کہ کمیونٹی کو یقین دہانی کرائی جاسکتی ہے کہ اس سرچ وارنٹ سے متعلق موجودہ یا قریب الوقوع کا خطرہ درپیش ہونے کے بارے میں کوئی معلومات موجود نہیں ہیں۔

28 سالہ برنٹن ٹرینٹ تقریبا دو سال قبل آسٹریلیا سے نیوزی لینڈ منتقل ہوا تھا، نے گزشتہ جمعہ کو کرائسٹ چرچ میں دو مساجد پر اشتعال انگیز فائرنگ سے تھوڑی دیر قبل اپنے منشور کا خاکہ اور سفید فام بالا دستی کے بارے میں رائے انٹرنیٹ پر شائع کی تھیں۔

وہ آسٹریلیا یا نیوزی لینڈ میں پولسی کی کسی نگران فہرست میں نہیں تھا اور حکام تحقیقات کررہے ہیں کہ وہ انتہا پسند کیسے بنا اور انتہائی دائیں بازو کی جانب سے بڑھتے ہوئے خطرے سے نمٹنے کے لئے وہ کون سے اضافی اقدامات کرسکتے ہیں۔

پولسی نے کہا کہ برینٹن ٹیرنٹ کا خاندان تفتیش میں مسلسل ان کی مدد کررہا ہے۔

پیر کو نیوزی لینڈ میں حکومت نے پولیس، انٹیلیجنس، کسٹمز اور امیگریشن سمیت سرکاری ایجنسیوں کی ممکنہ ناکامیوں کے حوالے سے وسیع پیمانے پر چھان بین کرنے کا اعلان کیا ۔ جس کی وجہ سے ملک میں دہشتگردی کا بدترین حملہ ممکن ہوا۔

نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن نے بھی کہا کہ گن لاء اصلاحات کے بارے میں کابینہ نے بھی ابتدائی فیصلے لیے ہیں، مزید تفصیلات کا اعلان روان ہفتے کیا جائے گا۔ دنیا بھر کی تاریخ سے یہ واضح سبق ملتا ہے کہ ہماری کمیونٹی کو محفوظ ترین بنانے کیلئے عمل کا اب وقت ہے۔

رواداری کی ساکھ کے حامل چھوٹے سے ملک نیوزی لینڈ کو حملوں سے شدید صدمہ ہوا ہے۔ آیا کرائسٹ چرچ میں نسل پرستی کا مسئلہ تھا کے سوال پر جیسنڈا آرڈرن نے کہا کہ یہاں پر پہلا ملزم ہے، لیکن جس شخص کو گرفتار کیا گیا ہے وہ نیوزی لینڈ کا شہری نہیں ۔

برینٹن ٹیرنٹ کی آسٹریلوی شہریت نے اس کے آبائی ملک میں تارکین وطن مخالف اور انتہا پسند دائیں بازو کی سوچ کی آگ بھڑکانے میں ذرائع ابلاغ اور سیاستدانوں کے کردار کے بارے میں بحث کو جنم دیا ہے۔ یہ ایک اسٹریلوی سینیٹر فریسر اننگ کے تبصرے کے بعد شروع ہوئی،جس میں انہوں نے تشدد اور دہشتگرد حملوں میں اضافے کیلئے مسلم تارکین وطن کو جزوی طور پر مورد الزام ٹھرایا تھا۔

کرائسٹ چرچ حملے کے نتیجے میں تبصرے نے آسٹریلیا میں اشتعال پیدا کیا، جہاں اب ان کو پارلیمنٹ سے ہٹانے کے مطالبے کیلئے پبلک پٹیشن پر دس لاکھ سے زائد دستخط ہوچکے ہیں۔

فریسر اننگ بھی اختتام ہفتہ کو تنازع میں ملوث ہوگئے جب انہوں نے احتجاج کرنے والے 17 سالہ نوجوان کو مکا مارا، جس نے براہ راست میڈیا سے بات چیت کے دوران ان کے سر پر انڈا پھوڑا دیا تھا۔

آسٹریلیا کے وزیر داخلہ پیٹر ڈٹین نے کہا کہ فریسر اننگ نسلی منافرت کے ساتھ ساتھ حملے کے الزامات کا سامنا کرسکتے ہیں۔

تاہم مبصرین ااسٹریلیا کے حکمراں اتحاد کی جانب سے مسلمانوں اور تارکین وطن کے لئے اشتعال انگیز زبان کے استعمال پر توجہ مرکوز کروارہے ہیں۔

کوئنز لینڈ میں گریفتھ یونیورسٹی میں ماہر آبادیات ڈنکن مک ڈونیل نے کہا کہ یہ اتحادی کرداروں میں سے کچھ کے لئے منافقت ہے جو فریسر اننگ کو بھیڑیوں کے آگے پھینک دیا جب ان میں سے کئی نے خود کو مسلمانوں اور تارکین وطن کی مخالفت میں مسروف ہیں۔

گزشتہ سال پیٹر ڈٹین نے خود نفرت اور تضحیک کا ایک امتزاج پیدا کیا جب انہوں نے کہا کہ میلبورن کے عوام ریستورانوں پر جاتے ہوئے کافی خوفزدہ تھے کیونکہ افریقی گروہ ان کا گھر تک پیچھا کرتے تھے۔

پروفیسر مک صونیل نے کہا کہ اس طرح کے بیانات میں تارکین وطن کی کمیونٹی کو قصوروار ٹہرانے کو قانونی حیثیت دے دی، اس نے حدیں قائم کردیں کہ سیاستدان عوامی خطاب میں کیا کہتے ہیں اور انتہا پسند دائیں بازو اور مسلم کمیونٹی دونوں جانب کے لوگوں کی انتہا پسندی کا خطرہ ہے۔

آسٹریلوی میڈیا کو بھی انتہا پسند دائیں بازو کے خیالات کو پلیٹ فارم مہیا کرنے کیلئے اس کی رضامندی کیلئے تنقید کا سامنا ہے۔ چینل 7 کے آسٹریلیا کے سب سے مقبول بریک فاسٹ شو پر سینیٹر فریسر اننگ کے بیان کے حوالے سے تنازع پر بحث کیلئے پیر کو تارکین وطن مخالف ون نیشن پارٹی کے قائد پاؤلین ہینسن نے میزبانی کی۔ آسٹریلیا میں نسلی امتیاز کے سابق کمشنر ٹم سوتو فمونسن نے کہا کہ ملک کے ذرائع ابلاغ کی تنظیموں کو سفید فام بالادستی کے خیالات کے فروغ دینے میں جو منفی کردار وہ ادا کررہی تھیں کے بارے میں ہوشیار ہونے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ آپ انتہا پسند دائیں بازو کو اپنی نفرت پھیلانے کے لئے انہیں مزید مفت نشریاتی وقت دیے بغیر بھی ان کا جائزہ لے سکتے ہیں۔ شریک جرم ہونے سے رک جائیں۔ایک آزادانہ طور پر چلنے والا نیوز چینل اسکائی نیوزی لینڈ نے روپرٹ مرڈوک کے تحت آسٹریلوی اسکائی نیوز کی ناپسندیدہ سرگرمیاں ہفتہ کو اپنے نیٹ ورک پر عارضی طور پر نکال دیں کیونکہ نیوزی لینڈ پولیس کی فوٹیج ہٹانے کی اپیل کے باوجود براڈ کاسٹر ترمیم شدہ فیس بک لائیو ویڈیو مستقل نشر کررہا تھا۔آسٹریلیا کے ذرائع ابلاغ کے نگراں نے پیر کو رسمی تحقیقات کا آغاز کردیا کہ کیا ملک کے نشریاتی اداروں نے انٹرنیٹ پر براہ راست اسٹریمنگ اور گن مین کی جانب سے فلمائی گئی فلم کو مبینہ طور پر نشر کرکے قانونی کی خلاف ورزی کی ہے۔

ایک بیان میں کہا گیا کہ آسٹریلوی کے ذرائع ابلاغ اور میڈیا کے حکام اس بات پر غور کرنے کیلئے کہ آیا موجود قوانین آسٹریلوی ناظرین کو مناسب تحفظ فراہم کررہے ہیں کیلئے اعلیٰ سطح کی انڈسٹری کی تنظیموں فری ٹی وی آسٹریلیا، آسٹریلوی سبسکرپشن ٹیلی ویژن اور ریڈیو ایسوسی ایشن سے فوری ملاقات کی درخواست کریں گے۔