امریکا اور چین نے تجارتی مذاکرات کی مدت کا تعین کرنے کیلئے بات چیت کا دور مکمل کرلیا

April 08, 2019

بیجنگ : ٹام مچل

واشنگٹن : جیمز پولیتی

چین کے ریگیولیٹرز نے جمعہ کو اکثریتی کنٹرول بروکرز قائم کرنے کے لئے جے پی مورگن اور نومورا کی جانب سے ایپلی کیشنز کی منظوری دے دی جیسا کہ سینئر امریکی حکام نے بیجنگ میں تجارتی مذاکرات کا ایک آگاہی کا دور مکمل کرلیا ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے چینی برآمدات، جس پر ان کی انتظامیہ چین کی غیر منصفانہ تجارتی پالیسیوں کا الزام لگاتی ہے کیلئے، ان پر تادیبی ٹیرف عائد کرنے کی پہلی دھمکی سے ایک ماہ قبل چینی حکام نے 2017 کے آخر میں مالیاتی صنعت کو آزاد بنانے کے عمل کا بیڑا اٹھانے کا وعدہ کیا تھا۔ تاہم جیسا کہ تجارتی جنگ میں شدت آتی گئی، جے پی مورگن، ویزا، ماسٹر کارڈ اور دیگر امریکی کمپنیوں کیلئے ریگیولیٹری منظوری تاخیر کا شکار ہورہی تھی، جو دونوں ممالک کے مابین ٹکراؤ میں اضافہ کا سبب بن رہی تھی۔

گزشتہ سال ایک نجی ملاقات میں چینی حکام نے امریکی ایگزیکٹوز کو بتایا کہ تجارتی جنگ میں اضافے نے اس طرح کی منظوری دینا ان کے لئے سیاسی طور پر مشکل بنادیا ہے۔ جبکہ دونوں جانب کے حکام نے کہا ہے کہ حتمی تجارتی معاہدہ ہونے میں ابھی بھی کئی ماہ لگ سکتے ہیں، وہ اسے جلد از جلد اسے ممکن بنانے کیلئے تیزی سے کام کررہے ہیں۔

چین کے سیکیورٹی ریگیولیٹر نے ایک بیان میں کہا کہ شعبے کیلئے اس کے مجموعی منصوبے کے ساتھ جے پی مورگن اور نومورا کے لئے منظوری زیر غور تھی اور تجارتی مذکرات کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا۔

دونوں کمپنیوں نے تصدیق کی کہ انہیں ریگیولیٹر کے فیصلے سے مطلع کردیا گیا تھا۔جے پی مورگن نے بطور ایک بڑے سنگ میل کے اس پیشرفت کا خیر مقدم کیا، جبکہ نومورا نے کہا کہ اس کے نئے چینی آپریشن میں اعلیٰ مالی حیثیت کے حامل افراد کے لئے دولت کی انتظامی خدمات پر توجہ مرکوز ہوگی۔

انہوں نے یو بی ایس جوائن کیا، جس نے گزشتہ سال چین کے مشترکہ برکر منصوبے پر اس کے زیادہ سے زیادہ کنٹرول کی منظوری حاصل کی تھی۔

امریکی تجارتی نمائندے رابرٹ لیتھزیئر کے لو ہی کے ساتھ ملاقات کیلئے بیجنگ کے 24 گھنٹے کے دورے کے اختتام پر فیصلے کا اعلان کیا گیا۔ جمعہ کی سہہ پہر ایک توئیٹ میں امریکی وزیر خزانہ اسٹیون منچ نے کہا کہ دونوں فریقین نے تعمیراتی مذاکرات کیے تھے جو آئندہ ہفتے واشنگٹن میں دوبارہ شروع کیے جائیں گے۔

تجارتی جنگ کے خاتمے کیلئے ٹائم ٹیبل حالیہ مہینوں میں آگے بڑھ گیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے چینی درآمدات پر ٹیرف میں اضافہ معطل کردیا جو یکم مارچ سے مؤثر ہونے کے لئے طے تھا،اس امید پر کہ وہ اور ان کے چینی ہم منصب شی جنگ پنگ اس ماہ کے اختتام تک حتمی معاہدہ طے کرلیں گے۔

مسٹر لیو مزید مذاکرات کیلئے آئندہ ہفتے واشنگٹن کا سفر کریں گے، تاہم دنیا کی دو بڑی معیشتوں کے رہنماؤں کے درمیان صدارتی اجلاس کیلئے ابھی تک کوئی حتمی تاریخ طے نہیں کی گئی۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے اعلیٰ سطح کے اقتصادی مشیر لیری کدولو نے واشنگٹن میں صحافیوں کو بتایا کہ اگراس میں مزید چند ہفتے لگے یا اگر یہ کئی ماہ لے۔ ہمیں ایک بڑا معاہدہ کرنا ہی ہوگا، جو امریکا کیلئے کارآمد ہو،جو ہمارا اصولی مفاد ہے۔

رواں ہفتے ایک نجی بات چیت میں چینی حکام نے کہا کہ وہ ابھی بھی اپریل کے اختتام تک معاہدہ ہونے کی امید کررہے ہیں، لیکن مئی یا جون تک مذاکرات کے جاری رہنے کے لئے بھی تیار ہیں۔

مسٹر لیو کی مذاکراتی ٹیم ایک ایسے معاہدے گریز کرنے کا عہد کیا ہوا ہے جو چین کے جغرافیائی سیاسی حریف کیلئے کافی فراخ دلانہ ہو۔ اگرچہ امریکی اشیا اور تیار کردہ سامان کے اضافہ سے خوش ہے جبکہ رینمبی اور ڈالر کے تبادلے کی مستحکم شرح کو برقار رکھنا بھی جاری ہے، نائب صدر نے امریکا کی جانب سے ساختی اقتصادی اصلاحات اور یک طرفہ نفاذ کا طریقہ کار جو واشنگٹن کو ٹیرف دوبارہ عائد کرنے کی اجازت دے، اگر وہ ایسا سمجھے کہ چین نے معاہدے کی شرائط کی خلاف ورزی کی ہے، کی سخت مخالفت کی ہے۔

چین کے مرکزی بینک کے سابق مشیر اور چین کے معروف ماہر اقتصادیات یو یونڈنگ نے کہا کہ میرا نہیں خیال کہ چین کو کسی بھی معاہدے تک پہنچنے کے لیے جلد کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اس بنیاد پر ہر آئٹم پر مذاکرات کرنے کرنا چاہئے کہ آیا یہ چین کیلئے مفید ہیں نہ صرف قلیل المدت بلکہ طویل المدت کیلئے بھی۔

پروف یو نے بھی مقررہ تجارتی توازن اور کرنسی کے اہداف جو مارکیٹ میں اقتصادی قوتوں میں فیسلہ کن کردار فراہم کرنے کے چین کے بیان کردہ مقصد کو کمزور بناسکتا ہیں، کا عہد کرنے کے خلاف خبردار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں امریکا کے ساتھ تجارت کو مزید متوزان بنانا چاہیے لیکن ہمیں کچھ مقررہ اہداف پر متفق نہیں ہونا چاہئے۔ امریکا کی متعدد درخواستیں نا مناسب ہیں۔

آئی ایم ایف کے چائنا ڈویژن کے سابق سربراہ اور کورنیل یونیورسٹی میں پروفیسر ایسور پرساد نے کہا کہ شی جنگ پنگ اور مسٹر لیو کو ملک میں سیاسی ردعمل کا سامنا ہوسکتا ہے اگر معاہدے کافی کزور نظر آیا۔

چینی داخلی سیاست اغماض نہیں برتے گی کہ چینی حکومت کی انتظامیہ کی اس کی معیشت اور قواعد و ضوابط کے اندر سے امریکی مداخلت کی بو آئے۔ چین کے لئے یہ تسلیم کرنا نامعقول ہوگا کہ امریکا باقاعدگی سے چین کی حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لے، مزید تجارتی پابندیاں عائد کرنے کے قابل ہو اور اس سلسلے میں چین سے یہ توقع کرنا کہ وہ دوبارہ بدلہ نہیں لے گا۔