لعل شاہ واگو یا شیدی میلہ

April 09, 2019

مگرمچھ کا شمار خوں خوار آبی درندے میں کیا جاتاہے ، جونہ صرف پانی کے اندر بلکہ خشکی پر بھی انتہائی تیزی سے حرکت کر سکتا ہے۔ مگرمچھ اپنے شکار کو جھپٹ کر اور دبوچ کر ہلاک کرتے ہیں، اس لیے ان کے دانت تیز ہوتے ہیں تاکہ شکار کے گوشت میں گڑ کر اسے چیر سکیں۔ جبڑے کے پٹھے اتنے مضبوط ہوتے ہیں کہ شکار کو دبوچے رکھیں۔ مگرمچھ کے جبڑوں میں کسی بھی دوسرے جانور کی نسبت زیادہ طاقت ہوتی ہے۔ بعض دفعہ یہ سالم بکرے اور ہرن نگل جاتے ہیں جب کہ کئی من وزنی بھینسوں اور زیبرا کو اپنے جبڑوں میں دبا کر اس کے ٹکڑے کر دیتے ہیں۔ لیکن اسی آبی درندے کے اعزاز میں منگھوپیر کے پہاڑی علاقے میں ایک چار روزہ رنگارنگ تقریب کا اہتمام کیا جاتا ہے ، جس میں مگرمچھوں کی نازبرداریاں کی جاتی ہیں اور ان سے منت مرادیں مانگی جاتی ہیں، اس میلے کو ’’لعل شاہ واگو‘‘ یا ’’شیدی ‘‘میلہ کہا جاتاہے۔ ’’واگو‘‘ مقامی زبان میں مگرمچھ کو کہتے ہیں، لعل شاہ مگرمچھوں کا سردار کہلاتا ہے، کیوں کہ اس میلے کا انعقاد شیدی قوم کی برادریاں کرتی ہیں، اس لیے یہ شیدی میلے کے نام سے معروف ہے۔اس میلے کا انعقاد گزشتہ ساڑھے چار سو سال سے کیا جارہا ہے۔

یہ بات دنیا بھر کے لوگوں کے لیے باعث حیرت ہے کہ سندھ کے ایک دور افتادہ قصبے میں، ایک مقام ایسا بھی ہے جہاں سیکڑوں کی تعداد میں مگرمچھ موجود ہیں لیکن وہ اس حد تک بے ضرر ہیں کہ ان سے آج تک کسی انسانی جان کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ان کی ہلاکت خیزی دنیا بھر میں مشہورہے، یہ پانی کے اندر اور خشکی پر بھی انتہائی تیزی سے حرکت کر سکتے ہیں۔ مگرمچھ اپنے شکار کو جھپٹ کر اور دبوچ کر ہلاک کرتے ہیں، ان کے دانت تیز اور دھار دارہوتے ہیں تاکہ شکار کے گوشت میں گڑ کر اسے چیر سکیں۔ جبڑے کے پٹھے اتنے مضبوط ہوتے ہیں کہ شکار کو دبوچے رکھیں۔ مگرمچھ کے جبڑوں میں کسی بھی دوسرے جانور کی نسبت زیادہ طاقت ہوتی ہے۔سندھ کے سب سے بڑے شہر کراچی سے دس میل یا 16کلومیٹر کے فاصلے پر پہاڑی ٹیلوں اور کیکرکی جھاڑیوں و جنگلات سے گھرا ہوا ’’منگھوپیر‘‘کا علاقہ ہے، جس کے بارے میںبعض مؤرخین کی رائے ہے کہ یہ علاقہ کسی دور میں آباد اور ہنستا بستا شہر تھا جو کسی قدرتی آفت یا حادثے کا شکار ہو کر صفحہ ہستی سےمٹ گیا تھا لیکن اس کے آثار اب بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔یہ علاقہ کراچی کے شمال مشرق میں واقع ہے جو اسے بند مراد کے ذریعے لسبیلہ سے ملاتا ہے۔اس کے ٹیلوں پر واقع چوکنڈی طرز کی منقش قبریں، مکانات،تالاب اور دیگر آثار اس کی تاریخی حیثیت کی گواہی دیتے ہیں۔یہ علاقہ مکران اور ایران کے ساتھ تجارت کے لیے راہ داری کا کام دیتا تھا۔اسلام پھیلنے کے بعد عربوں کی سندھ میں آمد و رفت ایران اور مکران کے راستے ہوتی تھی۔ ان کے قافلے اسی راستے سے گزرتے تھے اور دوران سفر ان کا پڑائو لسبیلہ اور اس کے گردونواح کے قصبوں میں ہوتا تھا،جن میں سے ایک منگھوپیر کا قصبہ بھی تھا۔اس قصبے کی پہاڑیوں کے دامن میں موجود شکستہ،ٹوٹی پھوٹی پرانی قبریں صدیوں قدیم ہیں، ان میں دو چوکنڈی طرز کی قبریں بھی ہیں۔منگھوپیر کی پہاڑیوں کو ’’طوق منگھ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔پہاڑ کے دامن میں حوض ہے جس میںہمہ وقت گرم پانی موجود رہتا ہے۔13ویں صدی میں یہاں حجاز شریف سے حضرت حافظ حاجی حسن تشریف لائے ۔ اس دور میں یہاں حضرت بابا فرید گنج شکر چلہ کشی میں مصروف تھے۔

ان کی ہدایت پرخواجہ حسن سخی سلطان یہاں رشد و ہدیت کا فریضہ سر انجام دینے لگے۔ ایک دوسری روایت کے مطابقساڑھے آٹھ سو سال قبل صوفی بزرگ بابا فرید گنج شکر ایک قافلے کے ہمراہ فریضہ حج کی ادائیگی کے لیے حجاز مقدس کی جانب عازم سفر تھے کہ مذکورہ مقام پر منگھو وسا نے مسافروں کو لوٹنے کی کوشش کی لیکن جب وہ بابا فرید کے پاس پہنچا تو ان کی شخصیت کا منگھو وسا پر اتنا گہرا اثر ہوا کہ اس نے اسلام قبول کر لیا اور جرائم سے تائب ہوکر بابا کی خدمت کرنے لگاا۔ منگھو وسا نے پھر بابا فرید کی رہنمائی میں تصوف کی مشق شروع کر دی اور انہیں بعد میں پیر کا خطاب دیا گیا جس کے بعدوہ منگھو پیر کہلانے لگے اور یہ علاقہ ان کے نام سے موسوم ہوگیا۔ ہے۔منگھوپیر کا مقام ہندوئوں کیلئے بھی متبرک تھا۔سندھ میں اسلام پھیلنے سے قبل ہندو یاتری یہاں اپنے مقدس مقامات کی زیارت کیلئے آتے تھے اور وہ تالاب میں موجود مگرمچھوں کی پوجا کرتے تھے، خاص کر ان کے سردارکی ،جسے وہ ’’لالہ جراج‘‘کا اوتار سمجھتے تھے۔آثار قدیمہ کے ماہرین منگھوپیر کی تہذیب کو کانسی کے دور سے بھی قدیم تہذیب قرار دیتے ہیں۔1925تک اس ہل اسٹیشن تک پہنچنے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔سندھ کی فتح سے قبل برطانوی سرکار کی ریزروڈ فورسز نے کراچی کےپرانے علاقے کے قریب پڑاؤ ڈالا تھا۔ انگریز کمانڈر کارلیس نے 1838ء میں یہاں کا دورہ کیا تھا ، وہ یہاں کے مگر مچھوں کا ذکر اس طرح کرتاہے ، ’’یہاں تالاب میں مگر مچھ موجود ہیں جن کی تعداد سیکڑوں تک ہے ۔ ان میں سے سب سے پرانے مگر مچھ کا نام مورثواب ہے ۔ یہ یہاں کے تمام مگر مچھوں کا جد امجد ہے ۔ یہ مزار کے مجاوروں کا سدھایا ہوا اور ان سے اتنا آشنا ہے کہ اس کا نام پکارنے پر یہ فوراً پانی سے باہر آجاتا ہے ۔ منت مانگنے والےافراد ان مگرمچھوں کے لیے بکرے لے کر آتے ہیں جنہیں یہ ذراسی دیر میں ہڑپ کرجاتے ہیں‘‘ ۔ کارلیس سے ایک سال بعد ہی یہاں ایک ناخوش گوار واقعہ پیش آیا۔ برینکنڈ گرینڈیئر رجمنٹ BNIایک شام منگھوپیر کے علاقے کا جائزہ لینے کے لیے نکلے کہ وہاں کے باشندوں کے ایک گروہ نےانہیں قتل کر دیا ۔

1925میںبرطانوی سرکار نے پاک کالونی سے منگھوپیر تک پختہ سڑک تعمیر کرائی حالانکہ اس دور میں موٹر گاڑیوں اور بسوں کی سہولت نہیں تھی لوگ بیل اور اونٹ گاڑیوں میں سفر کرتے تھے لیکن فوجی گاڑیوں کے سفر کیلئے یہ آسانی دی گئی تھی۔قیام پاکستان کے بعد منگھوپیر سے لی مارکیٹ تک بسیں چلنے لگیں اور یہاں کے گوٹھوں کو پھل،سبزیاں اور اشیائے ضرورت کی خرید و فروخت کیلئے سفری ذریعہ میسّر آ گیا۔60نمبر کی بس چند سال قبل تک لی مارکیٹ سے چلتی تھی جو ریکسر لائن، بڑابورڈ سے ہوتی ہوئی منگھوپیر کے مزار تک جاتی تھی وہاں سے تنگ پگڈنڈیوں پر سفر کرتی ہوئی نارتھ کراچی نکلتی ہے اور سندھی ہوٹل کے قبرستان کے پاس اس کا آخری اسٹاپ تھا۔

منگھوپیر کی درگاہ کے قریب پانی کے دو چشمے ہیں جبکہ اس سے دو میل کے فاصلے پر حضرت جلیل شاہ کے مزار کے قریب دو اور چشمے ہیں جہاں جلدی امراض کے مریضوں کے علاج کیلئے نہانے کا انتظام کیا گیا ہے جسے ’’ماما باتھ‘‘کہا جاتا ہے۔ مقامی لوگوں کے مطابق ،ایک سماجی رہنما آسومل نے یہاں مسافروں کے قیام کیلئے ایک ’’لانڈھی‘‘تعمیر کرائی(سرائے کو مقامی زبان میں لانڈھی کہا جاتا ہے)جہاں چند بستر اور ضروری سامان کا بھی انتظام کرایا۔ان گرم چشموں کے ساتھ ’’سادھو ہیرا آنند جذام اسپتال‘‘ واقع ہے جہاں کوڑھ کے مریضوں کا علاج کیا جاتا ہے۔قدیم روایات کے مطابق حضرت لعل شہباز قلندر اور حضرت بہاء الدین ذکریا ملتانی یہاں تشریف لائے تھے اور اپنے قیام کے دوران انہوں نے اپنی کرامات سے پہاڑی چٹانوں کی کوکھ سے ٹھنڈے اور گرم پانی کے چشمے جاری کئے۔

منگھوپیر کے مزار کے قریب ، نشیب میںواقع تالاب میں سینکڑوں کی تعداد میں مگرمچھ ہیں۔مقامی آبادی کے عقیدے کے مطابق مذکورہ مگرمچھ منگھوپیر بابا کے سر کی جوئیں ہیں جب کہ ایک دوسری روایت کے مطابق ان مگرمچھوں نے ان پھولوں سے جنم لیا، جومنگھو پیر بابانے تالاب میں پھینکے تھے، اس سلسلےمیں یہ بھی کہا جاتا کہ منگھو پیر بابا ان پر سواری کرتے تھے۔ منگھوپیر کے مزار کے سجادہ نشین اور خلیفہ ، سجادجو مگرمچھوں کے تالاب کے انچارج بھی ہیں۔ ان کے آباء و اجداد صدیوں سے مگرمچھوں کی خدمت کافریضہ انجام دے رہےہیں اوروہ محکمہ اوقاف سندھ کے باقاعدہ ملازم بھی ہیں، ان کا شمار ان خدمت گاروں کی گیارھویں پشت میں ہوتا ہے۔، انہوں ان تمام روایات کو گمراہ کن اور من گھڑت قرار دیتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالی ٰ کی برگزیدہ ہستیاں ہمیشہ پاکیزہ حالت میں رہتیہیں، ان کے سر میں جوؤں کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ سجاد نے اس موقع پر نئی روایت سنائی ۔ انہوں نے بتایا کہ بابا فرید گنج شکر، جب منگھوپیر کے علاقے سے رخصت ہونے لگے تو انہوں نے منگھوپیر بابا کو ایک گدڑی دی اور انہیں ہدایت کیکہ وہ اسے ان کی روانگی کے بعد اگلی صبح کھولیں۔ اگلی صبح جب اس گدڑی کو کھولا گیا تو اس میں مگر مچھ کے بچوں کا جوڑا موجود تھا۔ منگھوپیر بابا نے ان کی دیکھ بھال کی اور جب وہ بڑے ہوگئے تو انہیں قریب ہی واقع تالاب میں چھوڑ دیا۔ اس کے بعد ان کی نسل میں اضافہ ہوتا گیا۔ بابا فرید گنج شکر کی نسبت کی وجہ سے منگھوپیر کے تالاب کے مگرمچھ ’’میٹھا ‘‘ کھاتے ہیں جب کہ دنیا بھر میں موجود مگرمچھ سوائے گوشت کے کچھ بھی نہیں کھاتے۔ جنگلی حیات کے عالمی ماہرین نے ان مگرمچھوں کو دنیا کی منفرد اور نایاب نسل قرار دیا ہے۔منگھوپیر کے علاقے میں شیدی محلہ کے نام سےایک پسماندہ علاقے میں افریقی نسل کےسیاہ فام رنگت، اورگھونگریالے بالوں والے افراد کی بڑی تعداد رہتی ہے جو ان مگمرمچھوں کو متبرک تصور کرتی ہے۔ ان شیدیوں کا کہنا ہے کہ جب عرب سپہ سالار محمد بن قاسم نے سندھ پر حملہ کیا تو ان کی فوج میں شیدی سپاہی بھی موجود تھے جو کراچی کے مختلف علاقوں میں آباد ہوگئے تھے۔ شیدیوں کی جانب سے ہر سال لعل شاہ واگو یا شیدی میلے کا انعقاد ہوتا ہے، مگر امن و امان کی خراب صورت حال کی وجہ سے گزشتہ کئی سالوں سے یہ سلسلہ رکا ہوا ہے۔ اس میلے میں شیدیوں کے علاوہ کسی اور برادری کو شرکت کی اجازت نہیں دی جاتی۔ اسے دیکھ کر کسی افریقی میلے کا گمان ہوتا ہے۔یہ لوگ ہر سال مزار پر’’شیدی میلہ‘‘ سجاتے ہیں۔چار دن تک جاری میلے میں دور دراز مقامات سے شیدی یہاں آتے ہیں۔ میلے کے شرکا ءمیلے کے دوران ایسی رسومات ادا کرتے ہیں، جن سے ان پر افریقی تہذیب سے گہرے تعلق کا گمان ہوتا ہے۔میلہ کا آغاز صبح کے وقت کیا جاتا ہے منگھوپیر کے مزار سے دیڑھ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ایک میدان میں کیا جاتا ہے، جو شام تک جاری رہتا ہے ۔پہلے روز کی رسومات کے دوران دھمال سے تقریبات شروع کی جاتی ہیں ، ’’مگرمان‘‘ بجایا جاتا ہے جو بڑا سامخصوص ڈھول ہوتا ہے۔ اس کی آواز سے شرکاء مسحور ہوجاتے ہیں۔اس کے بعد وہ ایکمخصوص مقام پر اکٹھا ہوکر شیدی میلے کی رسم (ٹکہ) کی تیاری کرتے ہوئے ایک بہت بڑے سے تھال میںمکئی کے دانے، دال ،چنے ودیگر اناج بادم آخروٹ کھوپرے ملاکر دیسی گھی کی چوری ( کٹی) بناکر سات تھالیوں میں ڈال کر شیدی قبیلے کی سات چھوٹی لڑکیوں کے سروں پر رکھ کر انہیں سب سے آگے روانہ کردیا اور پھر دیسی شربت بناکرہر شخص کو پلایا جاتا ہے۔چار سے پانچ فٹ مگرمان ڈھول کی تھاپ پر لوبان کی دھونی دیتے ہوئے، شیدی قبیلے کی خواتین مرد اور بچے ایک ہی قطار میں عجیب سی آوازمیں گشتی دھمال ڈالتےہوئے انتہائی تپتی ہوئی دھوپ میںننگے ،پیر مزار کے سامنے سے ہوتے ہوئے مگر مچھوں کے تالاب کے قریب جاکر دن بھردھمال کرتے ہیں اور اپنے عقیدے کا اظہار کرتے ہوئے مگر مچھوں کے گرد جاکر اپنے شیدی میلے مگرچھ (ٹکہ) کی رسم کو مکملکرکے آخرمیں منگھوپیر باباکے مزار پر چڑھاتے ہیں۔

میلے کا آغاز ’’میدانی‘‘نامی ساز سے ہوتا ہے جس کی مسحورکن آواز میلے میں شریک افراد پر وجد کی کیفیت طاری کر دیتی ہے۔ اس موقع پر نعت شریف،اولیائے کرام کی شان میں ثناء پڑھی جاتی ہے بعدازاں لنگر کی تقسیم ہوتی ہے۔اس کے بعد ’’موگرمان‘‘چار فٹ لمبا ڈھول جسے زمین پر رکھ کربجایا جاتا ہے۔ڈھول تاشوں کی آوازوں سے ’’مورا‘‘یا لال شاہ واگو تالاب میں واقع اپنے مسکن سے نکل کر کنارے پر آ جاتا ہے۔خلیفہ ڈنڈوں کی مدد سے اس کا منہ کھول کر تازہ بکرا ذبح کر کے بکرے کے کندھے کا گوشت اس کے منہ میں ڈالتے ہیں، اسی بکرے کے خون میں سیندور ملا کر اس کے سر پر تلک لگایا جاتا ہے جسے تلک کہا جاتا ہے۔ ٹیکے کی رسم کی ادائیگی کے بعد دھمال کے شرکاء تالاب سے نصف میل کے فاصلے پر گرم چشمے کے قریب جلیل شاہ جان کے مزار پر جا کر حاضری دیتے ہوئے نعرہ لگاتے ہیں۔’’جلیل شاہ جان۔ڈینڈومکھن مان۔‘‘شیدیوں کا عقیدہ یہ ہے کہ اگر مور ثواب ان کا دیا ہوا گوشت نہ کھائیں تو ان کا وہ سال اچھا نہیں گزرتا اور اس سال میلہ بھی نہیں ہوتا۔اور اگر مور ثواب گوشت کھالیں تو میلہ کا آغاز جاتا ہے اور اس خوشی میں تالاب سے کچھ فاصلے پر واقع ایک چھوٹے سے میدان میں ایک ڈرم نما ڈھول بجنے لگتا ہے۔ مگرمان شیدیوں کے لیے صرف ناچنے گانے کا ساز نہیں بلکہ ان کا روحانی ساز ہے۔

سیاہ فام مرد اور خواتین مخصوص انداز میں رقص کرنے لگتے ہیں جس دوران میں ان پر وجدانی کیفیت طاری ہوجاتی ہے اور یہ ایک دوسرے کے گلے بھی لگ جاتے ہیں، ان سب کے پاؤں ننگے ہوتے ہوتے ہیں اور سر پر رومال بندھا ہوتا ہے جبکہ ہاتھوں میں فقیری ڈنڈے ہوتے ہیں۔مگرمان کی تھاپ کے ساتھ ساتھ یہ مرد اور عورتیں ایک خاص ورد کرتے نظر آئے جس کے اکثر الفاظ شاید وہ خود بھی نہیں جانتے مگر پرکھوں سے سنی ہوئی یہ آوازیں سینہ بہ سینہ چلی آ رہی ہیں۔سجاد کے مطابق میلے کے منتظمین کا کہنا ہے کہ یہ سواحلی زبان کے الفاظ ہیںجو افریقہ میں آج بھی بولی جاتی ہے۔

اس موقع پر دھمال کرنے والے فقیروں کو لوگ پھولوں کے ہار پہناتے ہیں، ان کے بارے میں ان کا عقیدہ ہے کہ ان کے اندر جنات یا روحیںسمائی ہوئی ہوتی ہیں۔ لوگ ان سے اپنی پریشانیوں اور مستقبل کے بارے میں سوال کرتے ہیں اور تبرک کے طور پر دعا کے دھاگے اور تعویذ بھی دیتے ہیں۔میلے میں توجہ کا مرکز جادو کے ماہر اور روحوں و جنات سے گفتگو کرنے والیمرد و خواتین ہوتے ہیں، جنہیں ’گواتی ماں‘ کہا جاتا ہے۔ ان کے عمل اور طریقے افریقہ کے روحانی عاملوںسے بڑی حد تک ملتے ہیں۔ گواتی ماں اجنبی زبان کے الفاظ بڑبڑا کر آسیب زدہ خواتین و مرد کا علاج کرتے ہیں۔ ایسی مریضہ یا مریض کے ماتھے پر جانور کا خون بھی لگاتے ہیں۔ یہ طریقہ افریقہ میں رائج روحانی علاج’ ’ووڈو‘‘ سے مماثلت رکھتا ہے۔

کراچی میں شیدیوں کی چار بڑی برادریاں اہمیت کی حامل ہیں جنھیں مکان کہا جاتا ہے ۔ ۔ان چار مکانوں کی نسبت سے شیدی میلہ چار دنوں تک جاری رہتا ہے ۔ چاروں برادریاں میلے کے چار دنوں کے انتظامات باری باری کرتی ہیں ۔ یوں دیکھا جائے تو شیدی میلہ شیدی دھمال منگوپیر میں تاریخی حوالے سے دنیا بھر میں مقبول ترین اور ایک منفرد ایونٹ ہے تفریحی لحاظ سے منگھوپیر کے لیے رونق کا باعث ہے،ان کا کہنا ہے کہ میرا خاندان گیارہ پشتوں سے یہ فرض نبھاتا چلا آ رہا ہے۔ ابا منگھو پیر کے مزار پر سال بھرزائرین آتے ہیں، لیکن سندھ اور بلوچستان کے سیاہ فام رنگت،گھونگریالے بالوں والےشیدیوں کو مزار سے خاص عقیدت ہے۔ یہ لوگ ہر سال مزار پر’شیدی میلہ‘ سجاتے ہیں۔ ایک ہفتے تک جاری میلے میں دور دراز مقامات سے شیدی یہاں آتے ہیں۔ ڈھول کی تھاپ پر شیدی مرد و زن ایک دوسرے سے گلےمل کر رقص کرنے لگتے ہیں۔ مگرمچھوں کے تالاب کے نگران اور مزار کے سجادہ نشین ، خلیفہ سجاد نے نمائندہ جنگ سےملاقات کے موقع پر بتایا کہ شیدی میلے کا انعقاد گزشتہ کئی سال سے تعطل کا شکار ہے، اس کی وجہ علاقے میں طالبان کی موجودگی اور امن و امان کی ناگفتہ بہ صورت حال ہے۔ رینجرز اور پولیس کی حالیہ کارروائیوں کی وجہ سے اب حالات میں بہتر آئی ہے جس کے بعد شیدی قبائل کے اکابرین کی جانب سے دوبارہ اس میلے کے انعقاد کے لیے غور کیا جارہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مگرمچھ کو دنیا میں آدم خور درندہ سمجھا جاتا ہے۔حال ہی میں اندونیشا سمیت کئی ممالک میں ان کے ہاتھوں بے شمار انسان ہلاکت کا شکار ہوئے۔کچھ عرصے قبل ہی نڈونیشیا میں17فٹ طویل قامت کے پالتو مگرمچھ نے خاتون سائنسدان کو اپنی خوراک بنالیا۔۔ 44 سالہ خاتون ڈیزی تووو جزیرے سلاویسی میں یوسیکی لیبارٹری میں مگرمچھ کو کھانا ڈالنے کے لیے گئیں۔ اس دوران ان کا پیر پھسل گیا اور وہ تالاب میں جا گر گئی جسےمگرمچھ نے زندہ نگل گیا ۔ میری نامی مذکورہ مگرمچھ جاپان سے تعلق رکھنے والے لیبارٹری کے مالک نے پالا ہوا ہے جہاں متوفیہ ملازمت کرتی تھی۔

لیکن منگھوپیر کے تالاب میں گزشتہ ساڑھے آٹھ سو سال سے مگرمچھ موجود ہیں لیکن یہاں ان کے ہاتھوں ہلاکت کا کوئی بھی واقعہ رونما نہیں ہوا۔ لوگ انہیں گوشت کھلانے کے لیے بلاجھجھک تالاب کے کنارے کھڑے ہوتے تھےلیکن اب باؤنڈری وال بنادی گئی ہے۔ چند سال پیشتر تالاب کے کچھ مگرمچھ باؤنڈری وال عبور کرکے آبادی کی طرف نکل گئے تھے جنہیں بعد میں پکڑ لیا گیا لیکن ان سے کسی انسان کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ چند ماہ قبل اس باؤنڈری وال کے ساتھ کھڑی خاتون کے ہاتھ سے ایک شیر خوار بچہ تالاب میں گرگیا تھا، لیکن مگرمچھ اس کے قریب نہیں آئے، بعد میں رضاکاروں نے اسے تالاب سے نکال لیا تھا۔ لوگ سوکھے کے مرض میں مبتلا بچوں کو لوگ تالاب کے کنارے مگرمچھوں کے سروں پرجھلاتے ہیں اور حیرت انگیز طور پر مریض بچے صحت یاب ہوجاتے ہیں۔ سجاد نے ایک اور حیران کن انکشاف کیا۔ ۔ اس نے بتایا کہ ہر سال مگرمچھ انڈے دیتے ہیں جن میں سے جب بچے نکلتے ہیں تو وہ انہیں اپنے گھر لے جاتا ہے اور گھر میں انہیں ایک پانی سے بھرے ٹب میں ڈال دیتا ہے اور خو راک کے طور پر انہیں قیمہ اور دیگر اشیاء کھلات ہے۔ چار سے پانچ سال بعد وہ انہیں اسی تالاب میں لا کر دوسرے مگرمچھوں کے ساتھ ڈال دیتا ہے۔ سجاد نے بتایا کہ محکمہ اوقاف کی جانب سے یہاں کافی کام کیے گئے ہیں لیکن یہاں طبی سہولتوں اور ایمبولینسوں کی سخت ضرورت ہے تاکہ کسی بھی ناگہانی افتاد سے فوری نمٹا جاسکے۔ شدی یا لعل شاہ واگو میلے کی کوئی مخصوص تاریخ طے نہیں ہے اس کا انحصار برادری کے بزرگوں کی صوابدید پرمنحصر ہوتا ہے۔