’’سید علی شیرازی‘‘ جن سے ہزاروں بندگانِ خدا زیورِ علم سے آراستہ ہوئے

April 09, 2019

سید علی ثانی شیرازی سندھ کے مشہور صوفیاءے کرام میں سے تھے۔ ان کے فضل و کمال اور بزرگی کا سب ہی مؤرخین نے تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ ان کے آبائو اجداد نے سلطان مبارز الدین ابن سلطان مظفر الدین (713ھ تا765ھ) کے زمانے میں شیراز سے سندھ کی طرف ہجرت کی تھی اور ٹھٹھہ کو اپنا وطن بنایا تھا۔

سید علی ثانی شیرازی کے والد سید جلال اور دادا سید علی کلان اپنے دور کے مشہور عالم اور بزرگ تھے۔ سید علی ثانی نے ان کی آغوش میں تربیت اور نشو و نماپائی اور پروان چڑھے۔ مورخوں کے بیان سے اندازہ ہوتا ہے کہ صغیر سنی ہی سے ان پر زہد و تقویٰ اور پرہیزگاری کا غلبہ تھا۔ وہ ریاضت اور مجاہدہ کو کسی وقت بھی اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے۔ چونکہ ان کو علوم باطنی کی تحصیل کا بے حد ذوق تھا۔ وہ اپنے دور کے تمام ہی اکابرین سے روحانی استفادہ کرنا چاہتے تھے۔ ان کی نگاہ تجسس اپنے خاندان کے باہر کے افراد اور اکابر پر بھی گئی۔ اس زمانے میں ہالا کی خانقاہ سندھ میں دعوت و تبلیغ کا مرکز بنی ہوئی تھی۔ حضرت مخدوم نوح ہالائی کی مجلس درس میں بندگان خدا جوق در جوق حاضر ہوتےاور اپنی مراد کو پہنچتے تھے۔ سید علی ثانی نے بھی ٹھٹھہ سے نکل کر ہالا کا سفر کیا۔ وہاں پہنچ کر مخدوم نوح ہالائی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے بیعت کرکے سلوک و طریقت کی تمام منزلیں طے کیں۔

سید علی ثانی نے جس دور میں ہوش سنبھالا تھا وہ ارغونوں کی نگ و تاز کا زمانہ تھا۔ ان کے دور میں میرزا شاہ حسن ارغون نے سندھ میں اپنی حکومت کی داغ بیل ڈالی اور ٹھٹھہ کو اپنا دارالحکومت بنایا۔ اس کے بعد ٹھٹھ میں مستقل رہائش پذیر ہونے کی وجہ سے بہت سے علما اور فضلا اس کے ساتھ ٹھٹھہ چلے آئے اور وہیں آباد ہوگئے۔ اس زمانے میں ٹھٹھہ علم و فضل کا مرکز بنا ہوا تھا۔ صحیح اسلامی تہذیب کی جس قدر مثالیں ٹھٹھہ میں ملتی ہیں۔ وہ سندھ کے کسی اور علاقے میں ممکن نہیں تھیں۔

یہی وہ زمانہ ہے، جس زمانے میں ہمایوں ، شیر شاہ سوری کے ہاتھوں شکست کھانے کے بعد دربدر پھر رہا تھا اور اسے کسی علاقے میں بھی پناہ نہیں ملتی تھی۔ اگرچہ وہ پناہ حاصل کرنے اور امداد فراہم کرنے کے لئے سندھ کی حدود میں داخل ہوگیا تھا، لیکن سندھ کے حکمران یہ خیال کرتے تھے کہ اگر ہمایوں سے سندھ میں قدم جمائے پھر ان کا تسلط جلدی ختم ہوجائے گا۔ اسی لئے سب ہی اس کی دل جوئی کرتے اور ہمدردی جتاتے تھے، لیکن اس کے ساتھ ہی ان کی جوکوشش ہوتی تھی کہ ہمایوں سندھ میں زیادہ دنوں نہ رہنے پائے، اس دوران جلاوطنی کے زمانے میںہمایوں نے حمیدہ بیگم سے شادی کی اور پھر مدد کی تلاش میں راجپوتانہ پہنچا۔ وہاں کے ہندو راجہ نے اس کو مدد فراہم کرکے یقین دہانی کرائی تھی اور اطاعت کا وعدہ کیا تھا، لیکن جب ہمایوں راجپوتانہ پہنچا تو اس کو شدید مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ ہمایوں نے وہاں کے حالات کو اپنے خلاف دیکھا تو عمر کوٹ کی نواح میں چلا آیا۔ میرزا شاہ حسن بیگ نے جو سندھ پر حکومت کررہا تھا، اس کی دل جوئی کی اور ہمدردی کے ساتھ پیش آیا۔ اس زمانے میں سید علی ثانی کے کشف و کرامات کے واقعات پورے سندھ میں پھیلے ہوئے تھے۔ ہمایوں کو جب معلوم ہوا کہ سندھ کے تمام ہی اہل اقتدار سید علی ثانی سے گہری عقیدت رکھتے ہیں۔ ہمایوں نے جب ان کے واقعات سنے تو دل سے معتقد ہوگیا۔ جب 5رجب سنہ 949ھ کو اکبر کی ولادت ہوئی تو ہمایوں نے سید علی ثانی کی خدمت میں دعا کی درخواست کی۔ انہوں نے اسے ایک کپڑا عنایت کیا اور کہا کہ اس میں نو مولود کو لپیٹا جائے۔ چنانچہ جس پہلے کپڑے میں اکبر کو لپیٹا گیاوہ کپڑا سید علی ثانی ہی کا عطا کیا ہوا تھا۔ ترخان نامہ کے مولف نے واضح الفاظ میں لکھا ہے کہ ’’جس وقت اکبر تولد ہوا تو اس کا لباس اول سید علی ثای کے پیراہن کا ایک ٹکڑا تھا جو تبرک کے طور پر استعمال کیا گیا تھا‘‘۔

میرزا شاہ حسن ارغون کو سید علی ثانی سے انتہائی عقیدت تھی۔ وہ ان کے احترام و تعظیم کو ہر وقت ملحوظ خاطر رکھتا تھا۔ امور سلطنت میں ان ہی کے مشوروں سےنمٹائے جاتے تھے۔ اس نے ٹھٹھہ کے نظم و نسق کو درست کرنے کی کوشش کی تھی اور اس کے دور کے تمام علما اور فضلا کو مناسب سہولتیں بہم پہنچائی تھیںؒ۔ جب اثنائے سفر، شاہ حسن میرزا نے سنہ 961ھ میں طویل بیماری کے بعد انتقال کیا تو سندھ کی صورت حال دگرگوں تھی۔میرزا شاہ حسن ارغون کی بیگم نے اس کی لاش کو امانت کے طور پر مکلی میں سپرد خاک کیا، جب حالات درست ہوئے اور سیاسی صورتحال معمول پر آئی تومرزا شاہ حسن ارغون کی بیگم نے اپنے شوہر کی لاش کو مکہ معظمہ بھیجنا چاہا۔ اب سوال یہ پیدا ہوا کہ لاش کے ہمراہ کون جائے۔ اس نے اس سلسلہ میں سید علی ثانی سے درخواست کی اور کہا کہ وہ اس کے ساتھ چلیں۔ چنانچہ سید علی ثانی نے اس کے ساتھ جاکر شاہ حسن ارغون کی تکفین و تدفین میں حصہ لیا اور اسے اس کے باپ کے پہلو میں سپرد خاک کیا گیا۔

جب مرزا شاہ حسن ارغون کی وفات کے بعد مرزا عیسیٰ خان ترخان نے حکومت سنبھالی تو اس کے امیروں اور درباریوں کا ہجوم سید علی ثانی کی خانقاہ پر رہنے لگا۔ وہ ان سے ضروری امور میں مشورہ لیتے اور پھر ان ہی مشوروں کے مطابق عمل کرتے تھے۔ مرزا عیسیٰ خان آپ کا بیحد معتقد تھا۔سید علی ثانی کا جو دو سنحاوت اور داد و دہش حد سے بڑھی تھی وہ کسی کو بھی اپنی خانقاہ سے محروم نہیں جانے دیتے تھے۔ ہر سائل کی حاجت پوری کرنا آپ کا معمول تھا۔

بعض مورخوں نے لکھا ہے کہ سید علی ثانی کی ہدایت اور تلقین کی وجہ سے نہ صرف بندگان خدا نے کفر و ضلالت سے نجات پائی بلکہ ایک سچے مسلمان ہوگئے اور ارکان اسلامی کو اپنا شعار بنا لیا۔

جب سید علی ثانی کی عمر ساٹھ سے تجاوز کر گئی اور ان کے مریدوں کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہوگیا اور ان سے یہ ممکن نہیں رہا کہ وہ سب کی تربیت کریں۔ انہوں نے ان کی رہنمائی اور ہدایت کے لئے ایک کتاب لکھنا شروع کی۔ اس کتاب کا نام ’’آداب المریدین‘‘رکھا۔ اس کتاب کی تکمیل میں چار سال لگے۔ جب یہ کتاب مکمل ہوگئی تو آپ کے مریدوں نے اس کی نقلیں کوائیںؒ اور اسے سرمایہ جان بنایا۔ اس طرح سید علی ثانی کا سلسلہ تصوف ٹھٹھہ اور اس کے گردو نواح سے نکل کر دور دور تک کے علاقوں میں پھیل گیا۔ چونکہ سید علی ثانی کے دور میں سندھ کی فضائیں ادبی اور شعری ہنگاموں سے بھی گونج رہی تھی، لوگوں میں علم و ادب اور شعر و شاعری کا ذوق عام تھا اور سید علی ثانی یہ خیال کرتے تھے کہ اس کے ذریعہ بھی لوگوں کی اصلاح کی جاسکتی ہے اور ان میں تبلیغ کا کام کیا جاسکتا ہے، چنانچہ انہوں نے فارسی، عربی اور سندھی میں شعر کہے۔ مثنویاں لکھیں، نثر میں کتابوں کو مرتب کیا۔مرزا شاہ حسن اورمرزا عیسیٰ خان کا زمانہ اقتدار علما اور فضلا کے لئے حد درجہ سازگار تھا۔ ان کے زمانے میں علما اور فضلا کو جو آرام اور اطمینان حاصل تھا وہ میرزا باقی کے برسراقتدار آنے کے بعد رخصت ہوگیا۔ اس کی جگہ تفرقہ اور باہمی آویزشوں نے اپنے زنجیرے کھول دیئے۔ میرزا باقی نے قاضی خمیسہ نامی ایک شخص کو اپنا وکیل مقرر کیا اور نظم و نسق کا بڑا حصہ اس کے سپرد کردیا۔ میر علی شیر قانع کے بیان کے مطابق ایک دن سید علی ثانی کسی ضرورت سے دوسرے علما کے ہمراہ قاضی خمیسہ کے پاس گئے تو اس نے ان سب کا مذاق اڑایا اور سید علی ثانی کے ساتھ جو علما موجود تھے، ان میں سے ایک سے پوچھا کہ ملا کے کیا معنی ہیں۔ وہ عالم جانتا تھا کہ قاضی خمیسہ جاہل ہے اور علم سے بےبہرہ ہے؟ اس نے جواب سے بچنے کےلیےایک دائرہ بنا لیا اور پوچھا ، یہ کیا ہے؟اس کے اس سوال پر سید علی ثانی اور ان کے ساتھی متحیر ہوئے اور پوچھنے لگے یہ کیا ہے؟ ہم کچھ نہیں جانتے۔ قاضی خمیسہ بولا یہ شکل روٹی کی ہے اور تم باوجود بزرگی کے نہیں جان سکے۔ پھر اس نے ایک ہندسے کی شکل بنائی اور پوچھا یہ کیا ہے؟ انہوں نے یہ بتانے سے معذوری ظاہر کی۔ قاضی خمیسہ نے کہا، اے نادانوں! تم کو اس قدر افضل و بزرگی کا دعویٰ ہے، اس کے باوجود تم اتنی معمولی باتوں کو بھی نہیں جانتے۔ یہ سن کر سید علی ثانی اور دوسرے علما نے رخصت کی اجازت چاہی اور اس کے دربار سے نکل آئے۔ اس سے امر کا اندازہ ہوتا ہے کہ مرزا باقی کا دور حکومت علما کے لئے کتنا پریشان کن تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ میرزا باقی نے اپنے دور حکومت میں صرف علما ہی کو اپنے ظلم و ستم کا نشانہ بنایا اور ان کی دل آزاری کی۔ ان کے وظیفے اور روز ینے بند کئے۔ بعد میں سازشوں کے ذریعے ان کو قتل کروایا۔ بعض سے جھوٹی ہمدردی ظاہر کی۔ بعض کے مصنوعی طور پر معتقد ہوگیا۔ اس کو علما سے اس وجہ سے زیادہ خوف محسوس ہوتا تھا کہ لوگ ان کے ساتھ تھے۔ میرزا باقی خیال کرتا تھا کہ اگر ان علما کے کہٓنے پر عوام اس کے خلاف ہوگئے تو اس کے لئے حکومت کرنا مشکل ہوجائے گا۔ چنانچہ وہ ایسے تمام لوگوں کو اپنے راستے سے ہٹا دینا چاہتا تھاکہ جن سے اس کو کسی وقت بھی خطرہ لاحق ہوسکتا تھا۔

میرزا باقی کے دور حکومت میں سید علی ثانی نے اپنے جدبزرگوار سید مراد شیرازی کے حالات ’’تذکرہ المراد‘‘ کے نام سے مرتب کئے۔ تذکرہ المراد، اس اعتبار سے پہلی اور اہم کتاب ہے، جس سے اس خانوادہ ک بانی ک حالات کا علم ہوتا ہے۔ جس نے سندھ میں مساوات، شیرازی کے عنوان سے شہرت پائی اور علم و فضل کو عام کیا۔ معارف الانوار میں سید علی ثانی کے بعض سندھی دوحے نقل کئے ہوئے ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کو سندھی میں بھی پوری دسترس حاصل تھی۔

سید علی ثانی نے زندگی بھر علم و ادب کی خدمت کی۔ ہزاروں بندگان خدا کو زیور علم سے آراستہ کیا۔ ان کے مریدوں کا حلقہ بہت وسیع تھا۔ انہوں نے سنہ 981ھ میں وفات پائی۔ ان کی قبر مکلی میں زیارت خاص و عام ہے۔ میر معصوم بکھری نے ’’قات الحاتم بہ جودے‘‘ سے ان کا سال وفات برآمد کیا ہے۔