بیری کا درخت

April 16, 2019

حیدر آباد کی تاریخ یوں تو صدیوں قدیم ہے،تاریخ کے صفحات میں کہیں اس شہر کو ارون پور یعنی ٹھنڈا شہر کہا گیا، تو کہیں پٹیالہ ،پٹیالہ بندر، تو کہیں اسے نیرون کوٹ کے نام سے پکارا گیا، مگر اس شہر کے بدلتے ناموں کو بالآخر سندھ کے حکمراں میاں غلام شاہ کلہوڑو نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے صفاتی نام ’’حیدر کرار‘‘ سے منسوب کرتے ہوئے حیدر آباد رکھا، اس وقت یہ شہر قلعہ بند تھا۔ جس کی آبادی محض چند سو نفوس پر مشتمل تھی، بعد ازاں سندھ کی حکمرانی تالپوروں نے سنبھالی اور حیدر آباد کو اپنی حکومت کا پایہ تخت بنا لیا ،مگر انہیں میانی کے مقام پر لڑی جانے والی برطانوی فوج سےجنگ میں زبردست شکست ہوئی،اور انگریزوں نے سندھ کا خطہ بھی اپنی عمل داری میں شامل کرلیا۔ سندھ پر قبضے کے بعدبرطانوی سرکار نے حکمت عملی اور منصوبے کے تحت مقامی ہندووں کی ہر سطح پر حوصلہ افزائی کی ،جس کی بنا پر حیدر آباد سمیت سندھ بھر میں فرسودہ اور روایتی طرز معاشرت کے بجائےنئے معاشرتی و سماجی نظام کو فروغ حاصل ہواجس کے حیدر آباد کے لوگوں پر گہرے اثرات مرتب ہوئے۔علم و ہنر کا دور دورہ ہوا، معاشرتی تبدیلیوں کو قلم کاروں، ادیبوں اور دانش وروں نے اپنے مضامین، تبصروں اور تجزیاتی رپورٹس کا حصہ بنالیا اور وہ انقلابی تبدیلیوںکے ثمرات اور فرسودہ نظام کے مضمرات کوقلم کے ذریعے اجاگر کرنے لگے۔

حیدر آباد میں صحافتی سرگرمیوں میں اضافہ ہوتا گیا ، یہی وجہ تھی کہ یہاں قیام پاکستان سے قبل روزانہ شائع ہونےوالےاخبارات ، ہفت روزہ، پندرہ روزہ اور ماہ نامہ اخبارات و جرائد میںتعلیمی، ادبی و ثقافتی سرگرمیوں کے علاوہ مختلف برادریوں، مذاہب اور فرقوں کی سرگرمیوں کو اجاگرکرنے کیلئے خبریں اور مضامین شامل اشاعت ہوتے تھے۔ ان میں سے بعض مضامین ، مذہبی رواداری کے برعکس اور مقامی و ملکی سیاست کو مخصوص نظریے و انتہا پسندی کو چھوتے محسوس ہوتے تھے۔ مقامی صحافی و قلم کار اپنی خبریں و مضامین گھروں اور ہوٹلوں میں بیٹھ کر تیارکرتے تھے۔

قیام پاکستان کے بعد ہندوستان سےمہاجرین کی آمدکا سلسلہ شروع ہوا جنہیں کراچی سمیت سندھ کےتمام بڑے شہروں میں آباد کیا گیا جن میں حیدرآباد بھی شامل تھا۔ حیدرآباد میں مہاجرین کی آباد کاری کے بعدشہر کی آبادی میںزبردست اضافہ ہوا جس کےساتھ اس شہر کے مسائل بھی بڑھنے لگے۔ہندوستان سے نقل مکانی کرکے حیدرآباد منتقل ہونے والے افراد میں پڑھے لکھے افرادکی خاصی تعداد بھی موجود تھی جو مطالعے اور اخبار بینی کے رسیا تھے، جس کی وجہ سے اس شہر میں سندھی اوراردو اخبارات کے اجراءکے ساتھ ساتھ لاہور اور کراچی سے شائع ہونے والے اردو اور انگریزی اخبار ات و جرائد اسٹالوں پر فروخت کیلئے آنے لگے۔حیدرآباد کےپڑھے لکھے نوجوانوں کی کثیر تعداد صحافت کے پیشے میں آگئی اوریہاں سے شائع ہونے والے اخبارات وو جرائد سے وابستہ ہو گئی۔ ان کی صحافتی سرگرمیوں کے مرکز کے طور پر ایک ایسی عمارت کی ضرورت محسوس کی گئی کہ جہاں صحافی اپنی پیشہ ورانہ سرگرمیوں میں اجتماعی طور پر شریک ہو سکیں۔ کئی ماہ کی تلاش کے بعدپریس کلب کے قیام کے لیے شاہراہ میراں محمد شاہ سے متصل ایک پرانی عمارت حاصل کی گئی۔ یہ عمارت ایک پارک اور چھوٹے سے کمرے پر مشتمل تھی۔ دوسری جانب جب اخبارات اوران سے وابستہ صحافیوں کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا تو اس پرانی عمارت کی جگہ نئی اور خوب صورت عمارت کی تعمیر کا آغاز 29جولائی 1991میں کیا گیا۔ اس وقت سینئر صحافی علی حسن صدر ،کامریڈ لکھانو سیال نائب صدر، انصار نقوی ،قائم مقام سیکرٹری خازن اور چیئرمین مالیاتی کمیٹی عثمان اجمیری تھے۔ بعد ازاں بلدیہ اعلیٰ حیدر آباد سے مزید اراضی حاصل کر کے اس عمارت کو وسعت دی گئی۔ اب یہ خوبصورت عمارت حیدر آباد پریس کلب کے نام سے معروف ہے،جو اپنے قیام کے بعد سے ہی حیدر آباد کے مسائل ،انکشافات ،اقدامات ،احتجاج ،بھوک ،ہڑتالوں ،وسائل اور منصوبوں کو بیان کرتے اور سیاسی وسماجی قد کو اونچا کرنے، مخالفین کو نیچا دکھانے ،گردش حالات و واقعات کے ستائے، بیورو کریسی کے ہاتھوں ،ظلم و ستم کا نشانہ بننے والوں کے لئے اہم مرکز بنی رہی۔ لوگوں کی کثیر تعداد روزمرہ کے بیانات اور خبروں کی اشاعت کیلئے یہاں آتی ہے۔

حیدرآباد پریس کلب کی عمارت کے عین سامنے شاہراہ کےدوسرے کنارے پر 80سال سے خاموش کھڑا بیری کا درخت ہر روز تبدیل ہونے والے خوش کن، اشک بار حالات وواقعات ،بلندو بانگ دعووں، نعروں اور خاموش صدائوں، آہوں، سسکیوں کاچشم دید گواہ ہے۔ بیری کا یہ درخت اس امر کا بھی گواہ ہے کہ خبروں کی اشاعت پر متعلقہ محکمے فوری کارروائی کر کے مظلوموں کی داد رسی کیا کرتے تھے، مگر اس نے یہ بھی دیکھاکہ اسی کی چھائوں میں رکھی جانے والی لاش کے سرہانے کھڑے ہو کر مظاہرین سے تصویروں کی اشاعت پر رقم طے کی جا رہی ہے۔ یہ بیری کا درخت اس بات کا بھی گواہ ہے کہ جب سندھ روڈ ٹرانسپورٹ کے برطرف ملازمین کس طرح اپنے گلے میں روٹیاں لٹکائے سوکھی گھاس کھا رہے ہیں تو یہ درخت انتہائی دکھ و کرب و گہرے سکوت کے ساتھ تمام واقعات دیکھ رہا تھا۔۔ حتیٰ کہ مظاہرین کو پولیس کے ہاتھوں پٹتے دیکھ کر بھی یہ اس کیفیت سے باہر نہیں آیا اور حیران کن بات یہ ہے کہ وہاں ہنگامہ آرائیوں کے باوجود درخت کا کوئی ایک پتہ ٹوٹ کے نہیں گرا۔ اس درخت نے پاکستان کو بستے اور حیدر آباد کو جدیدخطوط پر استوار کرنے کیلئے لاکھوں روپے کے فنڈز کو استعمال کرنے والوں کو بھی دیکھا، کرپشن اور لوٹ کھسوٹ میں ملوث وائٹ کالر افسران و سیاست دانوں کو جھگڑتے ہوئے بھی دیکھا، یہ ان دنوں کی بات ہے جب یہ درخت گھنا اور سایہ دار تھا، اسی درخت کے نیچے ضلع سانگھڑ سے تعلق رکھنے والا منو بھیل بھی اپنے والدین اور بیوی بچوں اور بھائی سمیت9افراد کی زمین ولد عبدالرحمٰن مری کے ہاتھوں گمشدگی اور اتنظامیہ و متعلقہ اداروں سے انکی بازیابی کامطالبہ لئے1287دن علامتی بھوک ہڑتال پر بیٹھا ،لیکن حکومت کی جانب سے اس کے احتجاج کا کوئی نوٹس نہیں لیا گیا، حتیّ کہ اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان ،جناب جسٹس افتخار احمد چوہدری نے اس واقعہ کا ازخود نوٹس لے کر منو کو انصاف فراہم کرنے کے احکامات جاری کئے تو منوبھیل نے عدالتی احکامات کے باوجود صاف اور پڑھنے کے قابل ایف آئی آر عدالت میں پیش نہیں کی، جس کے باعث منو بھیل مبینہ طور پر غیر سرکاری تنظیموں سے فنڈز حاصل کرتا رہا۔ چناں چہ جب مقامی افراد کی جانب سے عدالت کو ایف آئی آر کی اصل کاپی فراہم کر دی گئی تو منو بھیل نے راہ فرار اختیار کرنے ہی میں عافیت سمجھی۔ دوسری جانب اسی بیری کے درخت کے نیچے بدین کے قدیم شہر ٹنڈو باگوکےرہائشی 70 سالہ عارب لوہار نے بھی اپنے ساتھی مزدور رفیق کے قتل کے خلاف اور بااثر ملزمان کی گرفتاری کیلئے پاکستان کی تاریخ کی طویل ترین بھوک ہڑتال کی ۔ اس دوران عارب لوہار نے اسی درخت کی ڈال پر لگے پتوں اور اسے کے گھنےسائے کو اپنا گھر تصور کر لیاتھا۔وہ عیدین و دیگر مذہبی تہوار، خصوصی ایام حتیٰ کہ یوم عاشور کے دن بھی اسی درخت کے نیچے بیٹھا خلا میں دیکھتا رہتا تھا کہ جیسے کہہ رہا ہو کہ اس بھرے شہر میں کون ہے جو میری فریاد سنے گا !وہ جب سوچتے سوچتے تھک جاتا تو ایک دم نعرے لگانے لگتا۔ اس نے کئی سال تک احتجاجاً سیاہ کپڑے پہنے اور ننگے پائوں رہا۔ بالآخر ہر روز اخبار و جرائد میں خبریں شائع کی جانے کی بنا پر اس کا مطالبہ محض ریت کا ڈھیر بن گیا۔ انصاف کی توقع لئے انصاف کی زنجیریں ہلا ہلا کر اس کا وجود شل ہو گیا توہ وہ مایوس ہو کر اپنے گھر کو لوٹ گیا۔

بچپن میں یقیناً ہر دوسرے یا تیسرے شخص نے درختوں سے بیر توڑ کر کھائے ہوں گے۔ لیکن اس بیر کے درخت کی ٹہنیوں پر کبھی کسی بچے کو پتھر مارنے یا اس پر چڑھ کر بیر توڑ کر کھانے کا موقع شاید اس بنا پر بھی نہیں ملا کہ یہ درخت ہمہ وقت کسی سرکاری و نجی ملازمین کی اپنے مطالبات کے حق میں بھوک ہڑتال یا پھر احتجاجی ریلیوں، کا آخری ٹھکانہ ہوتا ہے۔ یکم مئی کو شکاگو کے مزدوروں کی یاد میں نکالی جانے والی ٹریڈ یونینز، غیر سرکاری سماجی تنظیموں و کارکنوں یا اجتماع ہو،کشمیریوں کی حمایت ہو یا امریکا و بھارت کی شر انگیزی ، حکومت کی عوام دشمن پالیسی ہو یا سیاسی جماعتوں کی باہمی چپقلش ان مناظر کو یہ درخت اپنی جگہ کھڑا سب دیکھتا ہے۔ اس درخت نے جہاں بے روزگار تعلیم یافتہ نوجوانوں کو اپنی تعلیمی اسناد، بلا جواز بجلی کے ڈیڈکشن کے ساتھ ملنے والے بجلی کے بل ، صارفین کو جلاتے ہوئے دیکھا،سندھ روڈ ٹرانسپورٹ کا ہر طرف ملازم بھورو چھلگری کو انتظامیہ کی بے حسی پر خود پر پیٹرول چھڑک کر آگ لگاتے دیکھا، جس کے نتیجے میں وہ ہلاک ہو گیا۔ اس دن یہ درخت ہی نہیں اس شاہراہ کا ماحول بھی سوگوار تھا۔ پریس کلب آنے والی ریلیوں کے متعدد شرکاء آج بھی اس کی یاد میں بیر کے اس درخت پر بار لٹکاکر بھورو چھلگری کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔

ستائش اور داد حاصل کرنا انسان کا فطری تقاضا ہوتا ہے۔ اس لئے حیدر آباد کے مقامی اسٹیج ڈراموں اور ورائٹی پروگراموں کے فنکاروں ،آرگنائزر اور پروڈیوسورز سمیت وابستہ افراد و ہنرمندوں نے پاکستان کی سب سے بڑے اوپن ائر تھیٹر اور وزارت ثقافت حکومت سندھ کی زیر نگرانی قائم مہران آرٹس کونسل حیدر آباد میں بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے لئے سینئر فن کار خالد عمران کی قیادت میں بھوک ہڑتال کی ،ابتدائی طور پر یہ احتجاج شدید تر ہوتا گیا۔بالآخر 25دن مسلسل احتجاج کے سبب متعلقہ انتظامیہ درپیش مسائل کو حل پر سنجیدہ ہوئی ، شدید دھوپ کی تمازت میں یہ درخت ان فنکاروں کو اطمینان قلب اور سایہ فراہم کرتا رہا۔ اور احتجاج کے دن گزر گئے۔

کہتے ہیں کہ درخت ،انسان اور ماحول دوست ہوتے ہیں، لیکن بیر کا یہ درخت پریس کلب حیدر آباد آنے والوں کیلئے کسی نعمت سے کم نہیں۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ یہ درخت بوڑھا ہو گیا ہے۔ اس کی شاخوں سے پتے آہستہ ،آہستہ ختم ہو رہے ہیں۔ اس درخت کو مسکن بنانے والے پرندوں نے نامعلوم مقامات کی طرف کوچ کرکے اپنے آشیانے بنا لئے ہیں لیکن اس امر کے باوجود اس درخت کی بوڑھی ٹہنیاں متاثرین کو اپنی آغوش میں لے لیتی ہیں۔ اور اس کا قدرے کم ہی سہی سایہ ایک نعمت سے کم نہیں ہے۔