یادوں کی پٹاری

April 18, 2019

طلعت آفتاب احمد

مجھے یاد ہے وہ سب کچھ، جب صبح سویرے اطراف سے گزرنے والے اونٹوں کی گھنٹی ایک مخصوص ردھم سے بجاکرتی تھی۔ لکڑی کی جافری والی گیلری میں لیٹی بند آنکھوں سے گھنٹیوں کے ردھم سے اونٹوں کی تعداد دگنا کرتی، آخری اونٹ کی آواز کے بعد وقفہ ہوتا اور پھر وہ مدھرتال کسی دوسری ٹکڑی کی اطلاع کرتی۔ نقل و حمل کے لیے اونٹ اور گدھے گاڑیاں محمد علی ٹرانسپورٹ کمپنی کی ٹرام، ہاتھ رکشا اور سائیکل رکشا عام تھے۔ بسیں اور ٹرک بھی تھے۔ ریلوے اسٹیشن ہر شخص کی پسندیدہ جگہ تھی۔ بھارت سے آنے والے وہیں ملا کرتے تھے، ہر شخص اپنے پیاروں کو ڈھونڈنے وہاں جاتا اور بعض لوگ آواز لگایا کرتے ،بریلی سے کوئی آیا ہے؟ کیا دلّی کا کوئی ہے، بھوپال سے کوئی سواری ہے؟ کوئی کیمپ سے ملا ہے؟ کیا میری ماں کو کسی نے دیکھا ہے، وہیں کسی دردمند کو مائیک پر پکارتے بھی دیکھا جاتا تھا، فلاں شہر کا قافلہ پہنچا ہے، رشتہ دار رجوع کریں، روتے پیٹتے ہنستے مسکراتے لوگ اسٹیشن پر موجود ہوتے۔ (شام کو ’’پور ہائوس‘‘ (Poor house میں کھانا کھاتے۔ اس وقت کراچی میں سہانی صبحیں تھیں اور تاروں بھرا آسمان،، فضائی آلودگی نام کو نہ تھی۔کراچی آئے تو فلاں جگہ رہے‘‘ ہر شخص کی گفتگو اسی جملے سے شروع ہوتی اور سب اپنی اپنی صعوبتیں اور پریشانیاں ایک دوسرے کو بتاتے۔ خدا کا شکر ادا کرتے۔ قائد اعظم کو دعا دیتے اور ایک دوسرے کی ہمت بندھاتے۔ یہ اخوت کی ایک مثال تھی کہ جان نہ پہچان سب شیر و شکر تھے۔47ء کے پاکستان میں کاغذ نہیں تھا۔ سگریٹ ٹین کے ڈبے میں آتی تھی۔یاد کے جگنو تو ہمہ وقت ذہن میں چمکتے ہیں۔ یادکہاں پرانی ہوتی ہے؟ پرانے کراچی کے کلچر کے مطابق اس وقت کی ساری لڑکیاں مل کر چھت پر کھانا کھاتی تھیں۔ وہ اس میں کچھی میمن، سندھی، ہندو سب ہی ہوتی تھیں۔ ہر لڑکی اپنے لیے چھوٹی چھوٹی سی میدے کی چپاتی، سوہانجنے کی پھلی اور دال لاتیں، سب گپ شپ کرتیں اور اپنے گھر کی راہ لیتیں، کوئی تفرقہ نہ تھا۔ پرانا کراچی جن لوگوں نے دیکھا ہے، وہ یہیں کے ہوگئے یا زیادہ سے زیادہ حیدرآباد، سکھر، ماتلی، ٹنڈو آدم اور سندھ کے چھوٹے بڑے شہروں کو جائے پناہ بنایا اور وہی نشیمن ٹھہرا۔

لوگ بھی اس طرح آباد ہوتے، مرشد آباد سے آئے تھے تو کانچ کی صنعت ساتھ آئی۔ مدھو بالا اور دلیپ کمار کی شہرۂ آفاق فلم مغل اعظم میں شیشہ کاری کے کاریگر فیروز آبادی تھے، جب سارے جمع ہوئے تو حیدرآباد کو چوڑیوں کی صنعت بخشی، اسی طرح گوالیار کے چھپے اور کرگھے ایسے اجرک میں جذب ہوئے کہ رنگ اور پھول پھلواری جو حیدرآباد کی کھڈی پر بنتی ہیں، کراچی کے بوتیک پر ہزاروں کے جوڑوں میں ڈھل جاتی ہیں۔کبھی کراچی میں سندھی کاریگروں کی رنگین پائے والی پلنگ پیڑھیاں بکا کرتی تھیں اور میری ماں کہا کرتی تھیں کہ ان کی ساس کے پلنگ کے ہر پائے کا وزن 25سیر تھا، جو تانبے کا بنا ہوا تھا اور چھپرکٹ چاندی کا تھا۔ میں سنتی اور نواڑ کے پلنگ پر ہاتھ پھیرتی، تو لکڑی کے پائے مجھے عجیب لگنے لگتے۔ آنکھ کانشہ، شیشہ جارجٹ، لیڈی ہملٹن، سونے چاندی کی دیوار اور جانے کون کون سے کپڑے ان دنوں عام تھے۔۔ ہر خطے میں خواتین کا ذوق جدا جدا ہوتا ہے، جیسے بنارسی کتان کا شوق اور نام جتنا اب ہے پہلے نہ تھا، کیوں کہ پاکستان میں چھینٹ کے شلوار سوٹ عام تھے، پہلے سندھی، پنجابی، پٹھان ہی پھول دار پسند کرتے تھے، مگر بعد میں آنے والے بھی سادہ شلوار ترک کرکے مکمل پھول دار جوڑے پر آگئے۔ گھر میں چار بینڈ کاریڈیو تھا، جس پر حسین کشیدہ کاری کا غلاف بھی تھا، جسے آج کی نسل جانتی ہی نہیں اور یہی ستم گر ریڈیو ہے، جو ہمیں بڑا نہیں ہونے دیتا۔ ہمارے کانوں میں آج بھی منّی باجی، ظفر بھیا اور قاضی جی کا قائدہ گونجتا ہے۔ فلم اور تھیٹر کے بہت سارے آرٹسٹ اسی ریڈیو سے منجھ کے نکلے۔ رات کے نوبجے اسٹوڈیو نمبر نو میں آنے والا ڈراما سننے عورتیں ہمارے گھر آیا کرتیں۔ سلمیٰ باجی کے گھر حامد میاں، ہاں ، حئی سنزکی محفل تین بجے ایس ایم سلیم کی حسین آواز میں ہوتی۔ ہر صبح کراچی بڑا خاموش ہوجاتا تھاجب ریڈیو پر نعت آتی۔

ہم ایک دوآنے کی ڈبل روٹی نرم اور کڑک خریدنے جاتے تھے۔ اب تو کڑک روٹی کیا ہے، کون جانتا ہوگا؟ ۔ نیو ٹاؤن ڈیری کا پیلا پلاسٹک کا ڈبہ مکھن کاہوتا اور اس پر دوپاؤنڈ لکھا ہوتا۔ صبح دم دودھ والے سائیکلوں پر ڈرم اٹھائے چلے آتے، علاوہ ازیں دودھ کی شیشے کی بوتلیں دہلیز پہ رکھی ملتیں۔ اس وقت کراچی میں سارا کاروبار صبح سویرے ہی شروع ہوجاتا تھا۔ ہر گھر آملہ یا دھنیا کالال تیل سر میں لگایاجاتاتھا، عمرِ رواں نام کا عطر ساری خواتین استعمال کرتیں تھیں۔ تبت سنو سب کے پاس ہوتی تھی ۔ دوپہرکوایک سندھی ’’ بصرے کی خالص کھجور ‘‘ ٹھیلے پر شیشے کے بکس میں رکھے آتا، ہم اکنّی سنبھال کرجا پہنچتے ، کھجور لیتے، بغیر دھوئے غور سے دیکھتے اور خود کو بصرے کی کسی سرائے میں کھجور کے تاجر سے کھجوریں لیتے پاتے۔

ہمارے بچپن میں لانڈھی ،کورنگی، بہت پڑھے لکھوں کی بستی تھی، جہاں گلیاں صاف ستھری اور چوڑی چوڑی ہوتی تھیں، دروازوں پر پردے پڑے ہوتے تھے، کئی بوڑھی عورتیں پردہ تھامے بیٹھی ہوتیں، دروازوں کے پاس پلنگ یا کرسیاں ضرور ہوتیں، بزرگ وہیں بیٹھ کر خوش گپیاں کرتے اور بچّوں پر نظر رکھتے، بچّوں کو کونے کھدرے میں کھیلنے کی اجازت نہیں تھی۔شام کو زمین پر جھاڑو لگا کر پانی کا چھڑکائو کیا جاتا، ایک سوندھی مہک چہار سو پھیل جاتی ۔ بہت سویرے جمعدار سارے شہر میں جھاڑو لگا کر کچرے کو آگ لگا دیتےتھے۔ دن میں چار پائیوں پر بیٹھا جاتا اور رات کو گھر سے باہران ہی پر سوجاتے۔ لانڈھی ،کورنگی ، لیاقت آباد، سب جگہ ایسا ہی ہوتا تھا۔ صبح دم اخبار والے، دودھ ڈبل روٹی والے اور پھر سبزی اور پھلوں کے ٹھیلے والے آتے، گھی تیل کا ٹھیلا بھی آیا کرتا۔ چھوٹے ہرے سیب جو گوشت میں پکتےتھے، اب یہ دونوں چیزیں عنقا ہیں۔اس وقت بہ کثرت ٹھیلے پر بکا کرتے تھے یہ مرغی کھانے والی نسل اس کی لذت وافادیت سے واقف ہی نہیں۔ ڈھیروں لوکاٹ آتے، سنہرے لوکاٹ کی کتھئی گٹھلی بھی دل کو بھاتی، رس بھری سےٹھیلے بھرے ہوتے تھے، اب رس بھری اور ہرے شہتوت میوے کے داموں ملتے ہیں۔ گھر کا مکھن، دہی، مٹھا سندھی سر پہ مٹکا رکھ کر بیچتے تھے۔ ہر شام بچّے کٹوروں اور پلیٹوں میں سالن لاتے لے جاتے نظر آتے، بغیر کسی غرض، بِنا کسی تفریق سب پاکستانی تھے۔اخبار مانگ کر پڑھا جاتا، مرد سیاست اور حکومت کو برا نہ کہتے،حکومتی پالیسیوں پر بات ہوتی۔ خواتین خاموش سنا کرتیں۔

ہم ایک پاکستانی قوم بن چکے تھے۔ پھر نہ معلوم کیا ہوا جو قوم65ء کی جنگ میں ایک جو ایک قوم تھی وہ جماعتوں میں بٹ گئی، مگر اچھی بات یہ ہے کہ کراچی غریب پرور شہر اور دوسرے صوبوں کے لوگوں کے لیے دبئی ۔ دلّی کی نہاری وہ بھی بنا رہے ہیں جو گرم مسالے استعمال نہیں کرتے تھے۔ لاہور کے درزیوں کے سلیقے کی کراچی میں کھپت بہت زیادہ ہے۔ کوئٹہ کا چلغوزہ افغان ڈھیری لگا کر بیچتے ہیں۔ خشک میوہ خوب بکتا ہے۔ یہ پیارا شہر تھیٹر کو دو کروڑو کما کر دیتا تھا، یہاں یاور مہدی نے آرٹس کونسل بسا ئی تھی ، ہزاروں ممبر بنائے جو سنّی، شیعہ، عیسائی، ہندو، پارسی کچھی میمن، سندھی، پنجابی ، پٹھان سب شامل تھے۔اس نادر روزگار شہر میں مشتاق احمد یوسفی رہتے تھے جو اپنے قلم کے سبب پہچانے جاتے ہیں۔ یہاں مہدی حسن اور احمد رشدی رہتے تھے۔ نورجہاں جن کے پلو میں گجرات کی مٹی بندھی ہوئی تھی اور جن کے پیروں نے انڈیا کی خاک چھانی، وہ کراچی میں خاک بسرہیں۔ ایسا ہی ایک روشن دِیا نثار بزمی کراچی میں آسودۂ خاک ہیں۔ پاکستان کے چاکلیٹی ہیرو وحیدمراد رہتے تھے، جن کی فلمیں پونا انسٹی ٹیوٹ کا ذریعۂ تعلیم ہے۔ انور مقصود، جنہوں نے مزاح کو فلسفہ بخشا۔ یہ سب اعزاز ہیں کراچی کے۔