’’ای - فراڈ‘‘ سائبر کرائمز میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال

April 21, 2019

مختار احمد کھٹی ، ٹنڈو غلام علی

سندھ سمیت ملک کے تمام شہروں و دیہی علاقوں میں نوسربازوں کی جانب سے لوٹ مار کا سلسلہ طویل عرصے سے جاری تھا لیکن گزشتہ دو سال سے انہوں نے اپنے طریقہ کار میں جدت پیداکرلی ہے اور لوگوں سے بھاری رقومات اینٹھنے کے سائنٹیفک انداز اپنا لیے ہیں۔با الفاظ دیگر انہوں نے بھی جدید سائنسی ایجادات اور کمپیوٹر ٹیکنالوجی کے ثمرات سے استفادہ کرکے ناجائز ذرائع سے دولت کمانے کے لیے نت نئے طریقے ڈھونڈ لیے ہیں۔ ویسے تو ملک بھر میں کرپشن ، جعل سازی اور سادہ لوح عوام کے ساتھ لوٹ کھسوٹ عام ہےلیکن انٹرنیٹ اور موبائل فون پرجعل سازی کا کاروبار بین الاقوامی پیمانے پر جاری ہے۔غیرممالک میںموجود عناصر کا نیٹ ورک افریقہ ، یورپ اور مشرق بعید تک پھیلا ہوا ہے۔پولیس اور ایف آئی اے کا سائبر کرائم ونگز ، اندرون ملک ان عناصر کی بیخ کنی کے لیے پوری تندہی سے کام کررہا ہے لیکن سائبرکرائم ونگز ابھی اندرون سندھ میں زیادہ فعال نہیں ہے، صرف پولیس اس نوع کی وارداتوں پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ کچھ عرصے قبل سکھر میں موبائل فون کے ذریعے اغوا برائے تاوان کی حیران کن وارداتیں بھی ہوچکی ہیں جن کا علم ہونے کے بعد لوگ کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ، اب ماضی کی طرح شاہ راہوں پر گاڑیاں روک کر لوگوں کو اغوا کرنے اوران کے اعزا ءسے تاوان وصولی کا زمانہ ماضی کا قصہ بن چکا ہے۔ آج کے دور میں اغوا کار اور ڈکیت گروہ نسوانی آواز میں پیار و محبت کا خوش کن فریب دے کردل پھینک نوجوانوں کو اپنی کمین گاہوں کے گردونواح بلاکرانہیں اپنے چنگل میں پھانس کر ان کے لواحقین سے تاوان کی بھاری رقومات طلب کرتے ہیں۔ ماضی میں ایسے گروہوں کا کسی حد تک خاتمہ کردیا گیا تھا تاہم ایک مرتبہ پھر ڈاکوئوں اور اغوا کاروں کی جانب سے موبائل فون پر ’’کال وائس چینجر اپلیکیشن ‘‘ (Call Voice Changer Application) کے ذریعے، خواتین کی آوازبنا کر اغوا برائے تاوان کی وارداتوں کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے، جن میں سے ایک گروہ کا سکھر پولیس نے کمپیوٹر ٹیکنالوجی کا ہی استعمال کرکے سراغ لگا کر مغوی کو بازیاب کرانے کے بعد مذکورہ گروہ کا قلع قمع کیا۔ بے روزگاری، بھوک اور بدحالی نے عوام کی ویسے ہی کمرتوڑ دی ہےلیکن اس قسم کی وارداتوں نے ان پر عرصہ حیات تنگ کردیا ہے۔ لوگ اپنی کم عقلی اور لالچ کی وجہ سے نوسربازوں کے جال میں پھنسنے اور بھاری رقومات گنوانے کے بعد پولیس کو اطلاع دیتے ہوئے بھی ہچکچاتے ہیں، اس لیے اس قسم کے کیسزرپورٹ نہ ہونے کی وجہ سےذرائع ابلاغ کی خبروں اور عوام کی نگاہوں سےاوجھل رہتے ہیں۔کراچی سمیت سندھ بھر کے موبائل صارفین کو ایس ایم ایس پر پیغامات بھیج کر ہزاروں روپے نکلنے کی خوشخبری سنائی جاتی ہے اور اس پیغام کا جواب دینے کی صورت میں صارف کا تمام بیلنس ایس ایم ایس کرنے والے جعلسازکے نمبر پر منتقل ہوجاتا ہے۔ کمپیوٹر کی ای میلز پرملکی و غیر ملکی خواتین و حضرات کی طرف سے میل موصول ہوتی ہیں جن میں طویل داستان الم سنانےکے بعد بتایا جاتا ہے کہ’’ ان کے والدین یورپ میں کروڑوں ڈالر کی جائیداد اور بینک بیلنس کے مالک تھے اور ان کی ملین و بلین ڈالر کی رقوم یورپ کے ایک ملک کے اکاؤنٹ میں جمع ہیں لیکن کیوں کہ وہ خود اس وقت ایک افریقی ملک کے پناہ گزین کیمپ میں رہائش پذیر ہیں، اس لیے وہ یہ رقم اپنے نام منتقل کرانے سے قاصر ہیں۔کیوں کہ انہیں پناہ گزین ہونے کی وجہ سے موبائل فون یا کمپیوٹرکی سہولت نہیں ہے اس لیے وہ یہ ای میلز مبینہ طور پر کیمپ میں موجود چرچ کے’’ ریورنڈ فادر‘‘کی مہربانی کی وجہ سے کررہے ہیں ۔ مذکورہ صارف کو لیگل اتھارٹی سے رابطہ قائم کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ جب وہ شخص جو خود کومستقبل کا ارب پتی تصور کررہا ہوتا ہے، لیگل اتھارٹی کو ای میل کرتا ہے تو پانچ منٹ بعد ہی اسے جواب موصول ہوتا ہے کہ آپ کا پاور آف اٹارنی اور دیگر دستاویزات کی تیاری میں 500ڈالر خرچ ہوں گے وہ فوراً بھیج دیں۔ سادہ لوح افراداس نادر موقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے فوری طور سے مذکورہ رقم بھیج دیتے ہیں ۔ ای فراڈ سے سندھ کی ایک سابق سیاسی شخصیت کے صاحب زادے کا بھی واسطہ پڑ چکا ہے اور انہیں بھی پانچ سو ڈالر سے ہاتھ دھونا پڑے تھے۔موبائل فون کے صارفین کو پاکستانی موبائل کمپنیوں کے نیٹ ورک نمبروں سے مسیج موصول ہوتے ہیں کہ ایک غیر ملک کی لاٹری میں ان کا اتنے ملین پونڈ کا انعام نکلا ہے، اس کے حصول کے لیے اس ای میل ایڈریس پر رابطہ کریں۔ جب اس پر رابطہ کیا جاتا ہے تو جواب ملتا ہے کہ آپ کا پیکٹ لے کر ہمارا ایمبیسیڈر فلاں روز آپ کے ملک کے ایئرپورٹ پہنچے گا، اسے 500 یا ہزار پونڈکسٹم کی ادائیگی کی مد میں دے کر رقم سے بھرا ہوا پیکٹ وصول کرلیں۔

لاتعداد سادہ لوح افراد ان منظم جعلساز گروہوں کی کاروائیوں کے ہاتھوں اپنی خطیر رقومات سے ہاتھ دھو رہے ہیں ۔ آج کل بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا بہت شہرہ ہے جس کی وجہ سے ای فراڈ کرنے والے افراد کو بھی سنہری مواقع حاصل ہوگئے ہیں۔ وہ موبائل صارف کو اس کے موبائل نمبر پر تیس ہزار کی رقم جاری ہونے کی خوش خبری دے کر پیغام کےنیچے دیئے ہوئے نمبر پر جواب دینے کی تاکید کرتے ہیں ، جیسے ہی صارف مذکورہ نمبر پر فون کرتا ہے اس کا تمام بیلنس فوری طور سے اس نمبر پر منتقل ہوجاتا ہے۔ ایک نجی ٹی وی چینل پر چلنے والے شو کے نام پر بھی فراڈ کیے جارہے ہیں۔ صارفین کو اس شو کے حوالے سے موبائل فون پر پیغام موصول ہوتا ہے کہ ، فلاں پروگرام میں آپ کے نام پر پانچ لاکھ روپے نقد، 10تولہ سونا اور موٹر بائیک نکلی ہے ، فوری طور پر اس نمبر پر رابطہ کرکے اپنا انعام حاصل کریں۔ جب صارف میسیج کے آخر میں دیئے ہوئے نمبر پر فون کرتا ہے تو اس کا بیلنس بھی اس کے فون سے غائب ہوجاتا ہے۔

کچھ عرصے قبل تک اس قسم کے پیغامات میںموبائل فون کمپنیوں کے نام بھی استعمال کرکے بھیجے جاتے تھےتاہم ان کی جانب سے ایسے گروہوں کی خلاف اشتہاری مہم کے بعدجعلسازگروہ آزادانہ طور پراپنے نمبروں کے ذریعے لوگوں سے لوٹ مار کررہے ہیں۔ موبائل فون اورانٹر نیٹ کے ذریعے جرائم اورجعل سازی کی بیخ کنی کے لیے ایف آئی اے میں نیشنل رسپانس سینٹر، سائبر کرائمز کا محکمہ بنایا گیا ہے جسے تمام جدید سہولتوں سے آراستہ کیا گیا ہے اور جس کے دفاتر پورے ملک میں موجود ہیں۔ انہیں سائبر کرائمز کے خاتمے کے لیے عالمی سطح پر بھی تعاون حاصل ہے۔ جب کہ پی ٹی اے حکام کے پاس موبائل کالز اور ایس ایم ایز کرنے والوں کا سراغ لگانے، لوکیشن اور جرم کے مرتکب شخص تک پہنچنے کی تمام سائنسی سہولتیں دستیاب ہوتی ہیں لیکن پھر بھی اس قسم کی وارداتوں کا سلسلہ جاری ہے۔ ٹنڈو غلام علی میں یہ گروہ خاصا سرگرم ہے حال ہی میں شہر کی ایک معروف شخصیت کو ایسے ہی ایک ایس ایم ایس کے ذریعے انعام نکلنے کا لالچ دے موبائل فون میں موجودہزاروں روپوں کے بیلنس سے محروم کردیا گیاجب کہ ایک صحافی بھی ان کا شکار بن چکے ہیں۔ ایف آئی اے ، پی ٹی اے اور دیگر محکموں کو اس قسم کے سائبر کرائمز کے تدارک کے لیے سائنسی طریقہ کار اپناکر کارروائیاں کرنا چاہئیں جب کہ بین الاقوامی جعل سازوں سے نمٹنے کے لیے ای فراڈ کی بیخ کنی کے لیے قائم عالمی اداروں سے تعاون حاصل کرنا چاہئے جب کہ عوام بھی اس طرح کے جعل سازوں سے ہوشیار رہیں اور اس قسم کے میسجز اور ای میلز ملتے ہی متعلقہ محکموں سے رابطہ قائم کریں۔