پینٹنگ کی طرح کردار میں بھی رنگ بھرے جاتے ہیں

April 23, 2019

راشد فاروقی پاکستان کی شوبز انڈسٹری کا بڑا نام ہیں ۔انہوں نے اپنے کیریئر کا باقاعدہ آغاز تھیٹر سے کیا ۔ بعدازاں اُنہوں نے ٹیلی ویژن انڈسٹری کا رُخ کیا اور کئی سپر ہٹ سیریلز اور ٹیلی فلمز میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائے۔ تھیٹر اور ٹی وی پر اپنا سکہ جمانے کے بعد راشد فاروقی نے فلم انڈسٹری میں یاد گار کردار ادا کرکے اپنی دھاک بٹھادی ۔ راشد فاروقی کے مقبول ڈراموں میں میری ذات ذرۂ بے نشاں، خانی، ننھی، ادھورا بندھن خواب زادی وغیرہ شامل ہیں۔ ’’شاہ رُخ خان کی موت‘‘ اِن کی پہلی ٹیلی فلم تھی۔ اس کے بعد 2009ء میں ’’انشاء اللہ‘‘ اور 2016ء میں ’’ریاست میں ریاست ‘‘ نامی ٹیلی فلموں میں اپنے فن کا جلوہ دکھایا۔ اگر فلم انڈسٹری کی بات کریں تو مہرین جبار کی ہدایتکاری میں عکس بند کی گئی فلم ’’رام چند پاکستانی ‘‘راشد فاروقی کی ڈیبیو فلم تھی جس نے اُنہیں مزید بلندیوں پر پہنچا دیا۔ اس فلم میں اُنہوں نے ’’تھر‘‘ کے باشندے کا مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ اس کے علاوہ فلم ’’مالک ‘‘ اور ’’زندگی کتنی حسین ہے‘‘ میں بھی شاندار کردار ادا کئے۔ حال ہی میں ریلیز ہونے والی فلم ’’لال کبوتر‘‘ میں کرپٹ پولیس افسر کا کردار پیش کیا ۔ راشد فاروقی2009ءکے لکس اسٹائل ایوارڈ میں فلم کے بہترین اداکار کیلئے بھی نامزد ہوچکے ہیں۔ سادہ طبیعت، با اخلاق اور محنت کے بل پر اپنا منفرد مقام بنانے والے اِس ارشد فاروقی سے گذشتہ دِنوں اُن کی نجی اور فنی مصروفیات کے حوالے سے گفتگو ہوئی، ہمارے سوالوں کےجوا ب میں انہوں نے کیا کہا،نذر قارئین ہے۔

٭… فلم ’’لال کبوتر‘‘ میں آپ نے کرپٹ پولیس افسر کا کردار ادا کیا،اس سے قبل بھی منفردکردارکیے۔ آخر کس طرح آپ ہر کردار کو دوسرے سے مختلف بنا لیتے ہیں؟

راشد فاروقی … ہر کردار کو پہلے سے زیادہ شاندار ، یادگار اور مختلف بنا کر پیش کرنا ہی میرا فن ہے۔ بات یہ ہے کہ ہر آرٹسٹ کو ایک ٹاسک دیا جاتا ہے کہ وہ اپنی پرفارمنس کے ذریعے اُس کردار میں جان ڈالے۔ میں اداکاری کافی عرصے سے کررہا ہوں اس لئے اب بہت سی چیزیں آسان لگنے لگی ہیں۔

٭… کردار کا انتخاب کیسے کرتے ہیں؟

راشد فاروقی … دراصل یہ ایک پروسس ہوتا ہے ، سب سے پہلے تو اسکرپٹ پڑھتا ہوں، اس کے بعد اس کردار کے حوالے سے سوچتا ہوں، کئی چیزیں خود تلاش کرتاہوں، پھر اُنہیں اس کردار میں شامل کرلیتا ہوں۔ جیسے ہی کردار ایک بہترین شکل اختیار کرلیتا ہے۔ اُسے ناظرین کے سامنے پیش کردیتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ جس طرح کوئی پینٹنگ بنائی جاتی ہے اُسی طرح کردار کو بھی بنا کر پیش کیا جاسکتا ہے۔

٭… اگر کسی کو بھکاری کا کردار ادا کرنا ہو تو وہ اُن کے درمیان پہنچ جاتا ہے، اِسی طرح بہت سے اداکار خواجہ سرا کی اداکاری کرنے سے پہلے اُن کے پاس جاکر بہت سی چیزیں سیکھتے ہیں ، کیا آپ نے کبھی ایسا تجربہ کیا ہے؟

راشد فاروقی … جی بالکل! میں اس طرح کے کئی تجربات کرچکا ہوں، میری ایک یادگار فلم ہے ’’رام چند پاکستانی‘‘ اِسی فلم سے مجھے عروج ملا تھا، وہ میری پہلی فلم تھی۔ ہم حقیقت پر مبنی کہانی پر کام کررہے تھے لہٰذا مجھے اپنے کردار میں حقیقت کا رنگ پیش کرناتھا میرا کردار ’’تھر‘‘ میں رہنے والے آدمی کا تھا۔فلم کی انتظامیہ مجھے ’’تھر‘‘ کے ایک علاقے میں لے گئی ،وہاں میں نے ایک ڈیڑھ ہفتہ گزارا، لوگوں سے ملاقات کی، اُن سے بہت کچھ سیکھا، علاقے کی تصاویر بھی بنائیں، اس کے بعد میں نے اپنے کردار کے بارے میں سوچنا شروع کیا۔ اس کے باوجود مجھے احساس ہورہا تھا کہ کردار میں وہ بات نہیں آرہی جو آنی چاہئے تھی لہٰذا میں نے اپنی فلم کی ہدایتکارہ مہرین جبار سے کہا کہ جس بچے اور آدمی پر آپ یہ فلم بنانا چاہتی ہیں مجھے اُن سے ملنا ہے، پھر میں اُن سے ملا اور اکثر وہ دونوں ہمارے ساتھ شوٹ پر موجود رہتے تھے۔ میں جس بچے کے ساتھ اداکاری کررہا تھا اُسے اپنے کندھے پر بٹھا کر رکھتا تھا اور وہ اپنے بچے کو اپنے سر پر بٹھا کر رکھتے تھے، ہم سلام کوٹ میں ہوتے یا مٹھی میں ساتھ ساتھ ہوتے تھے۔ اُن کو دیکھ کر ہمیں بہت سی چیزیں سیکھنے کو ملتی تھیں، اُس آدمی اور بچے کے چہرے پر ایسا ایکسپریشن تھا جو مجھے کہیں نہیں مل رہا تھا، اُن کے چہرے پر ایسی معصومیت تھی جو صرف اُن ہی کے چہرے پر نظر آتی تھی کہیں اور نہیں آتی تھی ، جب وہ ہمارے ساتھ رہتے تھے تو میں نے اُن کی کئی چیزیں اپنے اندر جذب کیں۔ اُن کی زبان اور لہجہ اپنانا بھی بہت مشکل تھا۔ میں اُنہیں دیکھ کر اُن کے کلچر میں اس قدر ڈوب گیا تھا کہ اکثر ٹیم کے ممبران مجھے تلاش کرتے رہتے تھے ،جب کہ میں اُن کے سامنے بیٹھا ہوتا تھا ، کیونکہ تھر کے لوگوں کا ایک خاص اسٹائل ہوتاہے کہ وہ کافی دیر تک زمین پر اُکڑو بیٹھے رہتے ہیں، اس کے برعکس ایک عام آدمی اتنی دیر تک آسانی سے نہیں بیٹھ سکتا مجھے اس کے لیے کافی پریکٹس کرنا پڑی تھی۔

٭… ’تھر‘‘ میں آپ کہاں کہاں گئے؟

راشد فاروقی … اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان بہت حسین ہے، ننگر پاکر کے ساتھ پہاڑوں کا بہت ہی خوبصورت سلسلہ ہے، میرا ذاتی خیال ہے کہ اگر آپ وہاں برسات میں چلے جائیں تو لوگ سوات کو بھول جائیں گے۔ اگر وہاں بارش ہورہی ہو تو لوگ موٹر سائیکلوں پر آتے۔ میں تقریباً پورا تھر گھوم چکا ہوں، گرمیوں میں وہ علاقہ خالی ہو کر پیچھے کی طرف آجاتا ہے، لوگ میر پور یا عمر کوٹ کی جانب چلے جاتے ہیں۔

٭… کہا جاتا ہے کہ آرٹسٹ بہت حساس ہوتا ہے، ہمارے معاشرے کے ارد گرد ہونے والی منفی چیزیں آپ کو کس طرح متاثر کرتی ہیں؟

راشد فاروقی … ظاہر ہے کہ کوئی بھی چیز اگر محسوس ہوتی ہے تو ہمارے اندر اُس کی تبدیلی رونما ہوتی ہے، اگر دُکھ محسوس ہوتا ہے تو اس کا میرے اندر کیمیکل ری ایکشن ہوگا اور اس سے میری شخصیت پر بھی اثر پڑے گا۔ آپ ہمارا معاشرہ دیکھ لیجئے، ہماری سوسائٹی یقینا آئیڈیل نہیں ہے، یہاں لوگ پریشان رہتے ہیں، چھوٹی موٹی باتوں پر ایک دوسرے سے لڑنا جھگڑنا شروع کردیتے ہیں، یہ تمام چیزیں ہم پر اپنا اثر چھوڑتی ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ آرٹسٹ زیادہ حساس ہوتا ہے وہ اِن تمام چیزوں کو زیادہ محسوس کرتا ہے،پھر ہمارے معاشی حالات ظاہر ہے کہ بہت اچھے تو نہیں ہیں اور ویسے توبالکل نہیں ہیں جیسے پہلے ہوتے تھے۔جہاں تک فن کاروں کی بات ہے تو یہ آرٹسٹ پر منحصر ہوتاہے، میں سمجھتا ہوں اگر وہ مستقبل کے بارے نہیں سوچتا، جو کماتا ہے اُسی وقت اُڑا دیتا ہے تو پھر اس پر ایک وقت ایسا آجاتا ہے وہ کہ معاشی طور پر بدحال ہوجاتا ہے۔

٭… شوبز انڈسٹری میں پہلے اور اب آنے والوں میں آپ کو کیا فرق لگتا ہے؟

راشد فاروقی … بہت فرق آگیا ہے، پہلے جو لوگ آتے تھے جیسے کہ میں آیا ہوں اور میری طرح کئی اور بھی اس فیلڈ میں آئے ہیں وہ کام کرتے کرتے سیکھتے تھے، اب جو لوگ اس انڈسٹری میں آرہے ہیں وہ باقاعدہ سیکھ کر داخل ہورہے ہیں۔ پہلے ہم جس مقام پر سات آٹھ برس بعد جاکر کھڑے ہوتے تھے، آج کا نوجوان اکیڈمی سے سیکھ کر آتا ہے اور وہاں کھڑا نظر آتا ہے جہاں ہم کئی برس بعد قدم جماتے تھے۔ فن سکھانے والے اداروں نے بہت فرق پیدا کردیا ہے جو واضح نظر آتا ہے،البتہ یہ الگ بات ہے کہ جو لوگ شوبز سے وابستہ ہو جاتے ہیں تو پھر وہ سیکھنے کا عمل ترک کردیتے ہیں۔

٭… آج کل کی فلمیں کن لوگوں کیلئے بنائی جارہی ہیں؟

راشد فاروقی … فلم دیکھنا اب بہت مہنگا ہوگیا ہے، عام لوگ اب فلمیں اتنی آسانی سے نہیں دیکھ سکتے جس طرح پہلے دیکھا کرتے تھے، ملک کے معاشی حالات بھی صحیح نہیں ہیں۔ لوگوں کی آمدن بھی کم ہوگئی ہے ایسے میں وہ فلم دیکھنے کیلئے کہاں سے پیسے نکالیں گے؟ مجھے لگتا ہے کہ پنجابی فلمیں بننا بھی اسی لئے بند ہوگئی ہیں ،کیونکہ فلم دیکھنا بہت مہنگا ہوگیا ہے۔