تاریخی وصیت نامہ

April 23, 2019

آج سے تقریباً چار سو سال قبل، کلہوڑا خاندان سندھ اور موجودہ پاکستان کے کئی علاقوں پرحکم راں تھا۔ ان کی سلطنت کو ایک کلہوڑا قبیلے نے قائم کیا جس نے سندھ پر 1701ء سے 1783ء تک بلا شرکت غیرے حکومت کی۔ ابتدا میں انہیں مغل سلطنت کے ایک وزیر مرزا بیگ نے سندھ کے خطے کی دیکھ ریکھ کے لیے مامور کیا تھا مگر بعد میں ان لوگوں نے اپنی خودمختارسلطنت قائم کرلی۔

سندھ میں کلہوڑاخاندان کی حکم رانی کا آغاز 1701ء سے ہوا جب میاں یار محمد کلہوڑو کو خدا یار خان کے خطاب سے نوازا گیا تھا اور مغلوں کی جانب سے انہیں بالائی سندھ کا والی بنایا گیا تھا۔ بعد میں اسے سبی کا والی بنادیا گیا۔جب اسے بادشاہ اورنگ زیب عالم گیر نے دریائے سندھ اور نعرہ کی زمین عطا کی تو اس نے خداآباد کے نام سے ایک نئے شہر کی تعمیر کی۔ اس شہر میں اپنی راجدھانی قائم کرنے کے بعد انہوں نے اس قدر قوت حاصل کرلی کہ ان کا شمارخطے کے طاقت ور حکم رانوں میں ہونے لگا۔ اس کے بعد انہوں نے اپنی حکومت کو سیہون اوربھکر تک وسعت دی اور شمالی اور مرکزی سندھ کے فرماں روا بن گئے سوائے ٹھٹھہ کے جو مغلوں کے زیرنگین تھا لیکن مغل بادشاہوں نے کلوڑہ حکم رانوں کو نواب کا خطاب عطا کیا ہوا تھا اور وہ انہیں ’’نواب ‘‘ کہہ کر ہی مخاطب کرتے تھے۔کلہوڑا خاندان 1701سے 1783ء تک 82سال کے عرصے میں سندھ پر کلہوڑا خاندان کے چار طاقتور حکمران تخت نشین ہوئے، جن کے نام ،میاں نصیر محمد، میاں یار محمد، میاں نور محمد اور میاں غلام شاہ ہیں۔

کلہوڑا خاندان کی حکم رانی کی بنیاد رکھنے والے اولوالعزم حکم راں ،میاں یار محمد کلہوڑو کی وفات کے بعد ان کے بیٹے محمد مرادیاب خان کو دہلی کے شہنشاہ کی جانب سے سربلند خان کا خطاب دے کر سندھ کا نواب مقرر کیا گیا۔لیکن وہ اپنے والد کی عادات اور منکسرالمزاجی کے بر عکس ایک ظالم حکم راں ثابت ہوئے۔ ان کے ظلم و ستم کی وجہ سے ، سندھ کےبااثر سردار بھی ان سے ناراض رہنےلگے، ان میں سےایک میر شہداد کے بیٹے میر بہرام خان بھی تھے۔ انہوں نے دیگر سرداروں کے ساتھ مشاورت کرکے کرکےمراد یاب سے ناجت حاصل کرنے کا فیصلہ کیا جس کے بعد اسےحکم رانی سے معزول کرکے اس کے بھائی عطر خان کوتخت پر بٹھایاگیا ،مگر وہ بھی نااہل حاکم ثابت ہوا۔ عطرت خان کی جانب سے مایوس ہوکر سرداروں کادوبارہ اجلاس منعقد ہوا جس میں اسے تخت سے اتار کر اس کے دوسرے بھائی غلام شاہ کو تخت نشین کیا گیا۔ عطر خان کے وفادارسپاہیوں نے سرداروں کے اس فیصلے کو قبول نہیں کیا اور نہ غلام شاہ کی حکم رانی تسلیم کی جس کے نتیجے میںدونوں بھائی ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہوگئے اور ان کی فوج کے درمیان خوں ریز جنگ چھڑ گئ۔میر بہرام خان تالپور، میاں غلام شاہ کا سپہ سالار تھا اور عطر خان کو احمد شاہ درانی کی مدد حاصل تھی۔ آخرکار عطر خان کو اوباڑو کے مقام پر شکست ہوئی اور میاں غلام شاہ کلہوڑوکو بادشاہ ہند کی طرف سے ’’شاہ وردی‘‘ خان کا خطاب دے کر سندھ کا نواب مقرر کیا گیا۔ 1772ء میں میاں غلام شاہ کی وفات کے بعد ان کے بیٹے میاں سرفراز ،خدا یار خان کے لقب سے سندھ کے نواب مقررہوئے۔ خدا آباد کا شہر اس وقت کلہوڑوحکمرانوں کی تخت گاہ تھی۔ محلاتی سازشوں کے باعث میاں سرفراز خدا یار خان کے سپہ سالا، میاں میر بہرام اور ان کے بیٹوں میر بجار اور میر صوبیدار کے درمیان چپقلش پیدا ہوگئی جس کے نتیجے میںمیر بہرام اور ان کے بیٹے صوبیدار خان کو قتل کرادیا گیا،جب کہ میر بجار خان حجپر روانگی کی وجہ سے بچ گئے۔تالپور خاندان کے ان دونوں شہزادوں کو خدا آباد میں دفن کیا گیا۔جس کے بعد کلہوڑاخاندان اور تالپورقبیلے کے درمیان دشمنی کی ابتداء ہوئی۔ مرحوم میر صوبیدار خان کے 4 بیٹے تھے، جو اُس وقت انتہائی کم عمر تھے۔ خاندان کے بڑے میر فتح علی خان تھے جو ان کے والد کے چچا زاد بھائی تھے۔ وہ بلوچ لشکر لے کر میاں غلام شاہ پر حملہ کرنے آئے ، ’’ہالانی کی جنگ‘‘ میں کلہوڑو خاندان کو شکست ہوئی اور تالپور خاندان کی عمل داری حیدرآباد کے پکا قلعہ تک قائم ہوگئی۔یہ شہر جسےمیا ں غلام شاہ کلہوڑو نے امن کا شہر قرار دیتے ہوئے جب قلعے پر تختی نصب کرائی تھی تو ا س پر ایک فارسی شعر لکھوایا تھا جس کا مطلب تھا "یا خدا یہ شہر امن کا شہر بنے”

میاں نور محمد کلہوڑو، جن کو مغل تاریخ نویسوں اور وقائع نگار وں نے خدایا زمان عباسی کے نام سے یاد کیا ہے، اپنے والد میاں یار محمد خان کلہوڑوکی وفات کے بعد11محرم الحرام سنہ 1122ھ کوتخت نشین ہوئے اور سندھ کی زمام حکومت سنبھالی۔ وہ انتہائی نیک دل، نیک سیرت اور رحمدل حکمران تھے۔ ان کے دل میں اسلام کا درد کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا،ان تاریخی اعتبار سے یہ کارنامہ سندھ کی تاریخ میں سنہری حروف میں لکھا جائے گا کہ انہوں نے سندھ سے تمام شورشوں ،بغاوتوں اور سازشوں کو ختم کیا ،اور رعایا کو آرام و اطمینان سے زندگی گزارنے کی سہولت بہم پہنچائی۔ سندھ میں ان کا دور حکومت خاصا طویل رہاہے۔کلہوڑا خاندان کو نادر شاہ کے حملے کے دوران قزلباشوں کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہونا پڑا تھا۔ میاں غلام شاہ کلہورو نے تنظیم جدید کرتے ہوئے اپنے اقتدار کو مضبوط کیا، مگر اسی کے بیٹے نے سندھ کو تالپور خاندان کے امرا کے ہاتھوں گنوا دیا۔ میاں عبد النبی کلہوڑو آخری کلہوڑا فرمانروا تھے۔

میاں نور محمد سنہ 1122ھ سے سنہ 1167ھ تک سندھ کا انتظام و انصرام انتہائی حسن و خوبی سے چلاتے رہے۔ وہ 4محرم الحرام سنہ 1167ھ کو تلہار سے ہوتے ہوئے جیسلمیر جا رہے تھے کہ راستہ میں خناق کا عارضہ لاحق ہو گیا اور وہ 16صفر سنہ 1167کو انتقال کر گئے کہ ان کے بیٹوں کے نام یہ تھے۔ میاں مراد یاب خان، میان عطر خان، میان خدا داد خان ،میان احمد یارو خان، میان غلام شاہ، میان غلام نبی اور میان عبدالنبی ہیں۔ میاں نور محمد کلہوڑو نے اپنی وفات سے کچھ عرصے پہلے اپنے بیٹوں کیلئے ایک وصیت نامہ مرتب کیا تھا اور انکو نصیحت کی تھی کہ وہ حکومت کے مسئلہ پر آپس میں لڑنےجھگڑنے کی بجائے، کلی اتحاد اور اتفاق سے کام لیں اور میاں مراد یاب خان کو اپنا قائد اور سردار تسلیم کر لیں۔میاں نور محمد کلہوڑو کی وصیت نامہ (فارسی)کے بعض حصوں کا مفہوم و منشا یہ ہے:اس گنہگار ،بے بضاعت اور بے طاعت کے دل میں محبت پدری اور فرزندی کے سبب سے چند خیالات دل میں گزرے کہ عمر عزیز ختم ہو رہی ہے اور علامات قیامت روز بروز نمایاں ہو رہی ہیں، اور زمانہ آخر ہے،بس مناسب ہے کہ برخوردار ان کامگاران کو زمانے کے نشیب و فراز سمجھائے جائیں۔ تاکہ وہ ان سے آگاہ ہو کر اس دلیل سے دل سرد کریں اور بارگارہ الہیٰ کی طرف متوجہ ہوں:

عبادات کی تلقین:

میرے کامگارو ! ہر وقت اور ہر حال میں اس درگاہ بے نیاز کا نیازمند ہونا چاہئے اور آدھی رات کی بیداری کی عادت ڈالو۔۔۔۔ اور کسی وقت خدا کی یاد سے غافل نہ ہو۔

تلاوت قرآن مجید :۔

تلاوت قرآن مجید اگر زیادہ کی جائے تو اس سے بہتر کوئی بات نہیں، ورنہ ایک قرآن بلاناغہ ہر ماہ تم میں سے ہر ایک کو پڑھنا چاہئے۔

اہلیبت کی محبت:۔

اہلبیت کی محبت ہمیشہ اور ہر وقت یکساں ہونی چاہئے، اور ذوالقربیٰ کی محبت فرض عین اور عین فرض ہے۔

مقدمات کے متعلق وصیت:۔

اگر مقدمہ اہل اسلام کا ہو تو ایسے مقدمات میں علما کی طرف رجوع کریں، وہ جو شریعت شریفہ کے مظابق فتویٰ دیں اس پر عمل کریں اور مسلمانوں کے مقدمے کے سوا اگر دوسروں کا مقدمہ پیش ہو تو اس کی سزا میں مثلاً ہاتھ کاٹنے اور کان کاٹنے میں جلدی نہ کریں ( بلکہ سزا دینے سے پہلے اس پر خوب غور کر لیں ) کہ حق دہر میں ظاہر ہوتا ہے۔

علما ء و صلحاء کی محبت:۔

جب دنیاوی کام سےفارغ ہوں تو علماء اور صلحا ء کے ساتھ صحبت کا وقت مقرر کریں اور ہمیشہ عوام کے ساتھ بیٹھنا بازار ہونے کا طریقہ ہے ،اور ہمیشہ خلوت میں رہنا درویشوں کا طریقہ ہے،

رضامندی شرفاء:۔

نیکوں اور شرفا کی رضا مندی کو اپنے لئے لازم جانیں۔

کسر نفسی:

خدا کی تمام مخلوق کو بہتر جانو ۔۔۔ اور اپنے اپ کو خاک سے کمتر سمجھو۔۔۔ جب کسی طرف سے کوئی ہبیت ناک حالات ظاہر ہوں تو استقلال کو ہاتھ سے نہ جانے دیں۔

حقوق :۔

اول غربا، مسکینوں، یتیموں، مظلوموں کا حق (بادشاہ) کی گردن پر عائد ہوتا ہے اور شب و روز ملک کی حفاظت اور دوست و دشمن کی فکر اسے ہوتی ہے۔

یاد مرگ:۔

اور نیز انسان کو چاہئے کہ حشر تک کےدن اور اپنی موت کو ہمیشہ یاد رکھے۔

اپنی حالت:۔

اور خود اس گناہ گار کا یہ حال ہے کہ اگر میں حلال خور کو دیکھتا ہوں ،قسم ہے اس ذات پاک بےنیاز کی کہ اس حلال خور کو اپنے سے ہزار درجہ بہتر سمجھتا ہوں اور جانتا ہوں کہ اس نے میری طرح گناہ نہیں کئے ہوں گے۔

عیاشی کی خرابیاں:۔

اور عیش وعشرت کو اپنا شعار نہ بنائیں کہ آرام سراسر غفلت ہے اور عیش آدمی کو یاد حق سے دور کر دیتا ہے، اور ملک کی فلاح و بہبود پر غور فکر ہر ملک والے کے لئے لازم ہے۔

روزہ،نماز، کی تاکید:۔

اور روزہ و نماز اور زکوۃ میں ہمیشہ شب و روز مشغول رہیں:۔

روز محشر کی جان گداز بود

اولین پرسش نماز بود

کہ ہم مسلمانوں اور کافروں میں ہی روزہ، نماز اور زکوہ کا فرق ہے۔

چہار مذہب:۔

اور چاروں مذاہب (حنفی،شافعی، مالکی، حنبلی)کو حق جانو،لیکن چونکہ ہمارے بزرگ مذہب امام ابو حنیفہ کے مقلد تھے،اس لئے تم بھی وہ مذہب اختیار کرو۔

سلسلۂ طریقت:۔

چودہ (تصوف)کے خانوادوں میں سے ہمارے بزرگ سلسلۂ سہروردیہ کے مرید ہیں،سید میران محمد جونپوری کہ ہمارے پیرومرشد ہیں،وہ بھی اسی طریقی میں تھے۔

نظام مملکت:۔

نظام مملکت کے سلسلے میں میاں نور محمد کلہوڑو نے اپنے فرزندوں کو حسب ذیل وصیتیں کیں۔

زمینداران سندھ کے متعلق وصیت:۔

زمینداران سندھ کے متعلق وصیت کرتے ہوئے لکھا کہ،جوسندھ کے زمیندار ہیں،ان کے ملک کو خدائے تعالیٰ نے بتصدق رسول مقبول علیہ الصلوٰۃ و السلام ہم گنہگاروں پر رحم فرما کر (اس کی حکومت)ہمارے حوالے کی ہے،ان کے جو معمول ہم نے مقرر کئے ہیں،اس میں تفاوت کی بددعا بہت اثر رکھتی ہے،اور جلد قبول ہوتی ہے۔

جاگیرات کا انتظام:۔

میاں نور محمد خان کلہوڑو نے میاں محمد مرادیاب کی ولی عہدی کے ساتھ اپنے دوسرے صاحبزادوں کے گزارے کیلئے بھی مختلف پرگنے مقرر کئے تاکہ بعد میں ان میں اختلاف و افتراق نہ ہو۔چنانچہ اپنے وصیت نامے میں لکھا ہے کہ:میں نے زمین کے اس ٹکڑے کو کہ خدائے تعالیٰ نے بطفیل رسول مقبول علیہ افضل الصلوٰۃ و اکمل التحیات اس گنہگار کو عطا کی تھی ہر ایک کو علیحدہ علیحدہ تقسیم کر دی ہے،تاکہ تم میں سے ہر ایک اپنے حصّے پر قابض و متصرف ہو۔

(1)پرگندٔ لاکھاوٹ جو سرکار سیوستان میں ہے،اور پرگند لدہ گا گن مع روہڑی کے جو سرزمین لدہ گاگن میں ہے نور چشم راحت خان خداداد خان کو دی۔

(2)پرگنۂ گاگری اور پرگنۂ الور جو سرکار بکھر میں ہے نوردیدہ لخت جگر عطر خان کو دی۔

(3)ضلع شہدادپور جو سرکار نصرپور میں ہے اور پرگنۂ ماتھیلہ جو سرکار بکھر میں واقع ہے، نوردیدہ احمد یار خان کو دی۔

(4)سوائے پرگنات مذکور کے جو اس گنہگار کے قبضے میں ہیں،ان کا مالک میری زندگی میں اور میرے بعد نور چشم محمد مرادیاب ہو گا۔

(5)منصف پرگنۂ کنڈیارو اور نصف تپۂ رانی پور اور منصف پرگنۂ باغبان،اور دسواں حصّہ کا 6اور چوتھا حصّہ موضع فتح پور جو میرے برادر مرحوم و مغفور محمد خان کے پاس تھے،اس کے بعد وہ نور چشمی فضل علی فرزند محمد خان کو دیئے گئے۔

(6)برخوردار غلام نبی و عبدالبنی خرد سال ہیں،اور تمہارے بھائی اور تمہارے فرزندوں کی جگہ ہیں ۔پرگنۂ جنیجہ مع و چولہ میں نے ان دونوں برخورداروں کودیا۔

(7)برخوردار غلام شاہ کو مختلف پرگنوں سے مختلف حصّے دیئے گئے۔

(8)جو فصلانہ اور یومیہ تمہارے مائون کیلئے مقرر ہے،اس میں فرق نہ آئے۔

(9)جو فصلانہ مرحوم مغفور غلام حسین کی عین حیات میں اس کے فرزندوں کو دیا جائے،اس میں فرق نہ آنا چاہئے۔

ہندو میر منشیوں کے متعلق وصیت:۔

پیشی کے میر منشیوں کے متعلق وصیت کی ہے کہ:پیشی میں ہندو محرّر ہرگز نہ رکھیں کہ بعض جگہ لکھنے پڑھنے کے موقع پر احادیث اور قرآن مجید کی آیتیں لکھنی پڑتی ہیں،اور یہ احادیث اور قرآن مجید کی لکھنے میں عاجز ہوتے ہیں،اس لئے ان کو اس عہدے کے علاوہ لکھنے پڑھنے اور حساب کتاب کے دوسرے عہدوں پر لگانا چاہئے۔

خاتمہ:

میاں نور محمد نے اس وصیت نامے کو،اس وصیت پر ختم کیا ہے کہ:اور اہل اللہ کی ملاقات سے نہ غافل نہ ہوں کہ اہل اللہ کی ؟ ملاقات کیمیا ہے۔

یہ وصیت نامہ کلہوڑا حکمرانوں کی تاریخ میں اس اعتبار سے بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ اس سے ان کے نظام حکمرانی پر روشنی پڑتی ہے اور اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کس طرح لوگوں پر حکومت کرتے تھے،اور عوام میں ان کو کیوں مقبولیت حاصل ہوئی تھی۔یہ وصیت نامہ بلاشبہ ایک ایسا سیاسی منشور ہے،جس کو سندھ میں اسلامی نظام کے نفاذ کی ابتدائی کوشش کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا کیونکہ میاں نور محمد خان کلہوڑو نے اپنی پوری زندگی اسلامی سانچے میں ڈھال لی تھی اور اپنی رعایا کو بھی اسی سانچے میں ڈھلا دیکھنا چاہتے تھے۔کہ ہم مسلمانوں اور کافروں میں ہی روزہ، نماز اور زکوہ کا فرق ہے۔