صنفِ نازک کو تحفظ دیں

April 24, 2019

مسرت راشدی

گھریلو حالات، غربت، تنگ دستی، محرومیوں اور مہنگائی کے ہاتھوں مجبور عورت، جب روزگار کی تلاش میں باہر نکلتی ہے تو وہاں بھی اسے کئی پیچیدہ مسائل کا سامنا رہتا ہے۔اول تو ملازمت کے حصول کے لیے سو طرح کے پاپڑبیلنے پڑتے ہیں اوراگر ملازمت مل بھی جائےتب بھی تفریق کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اول تو نوکری کرنے کی مخالفت کی جاتی ہے، جبکہ روز مرہ کے گھریلو کام کاج میں مصروف رہیں تو خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے۔ جو عورت گھر کے کام خوش اسلوبی سے کر رہی ہو اور بیک وقت خانہ داری سے لےکر بچوں کی تعلیم تک میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھا رہی ہو، وہ بھلا ملازمت کر کے مثبت تبدیلی کیوں نہیں لا سکتی؟

پاکستان میں زیادہ تر غریب اور متوسط گھرانوں کے لیے حالات زندگی ہر گزرتے دن کے ساتھ مشکل ہوتے جا رہے ہیں، جس کی ایک بڑی وجہ گھریلو ماحول کا مجموعی طور پر تناؤ ہے ،جبکہ سماجی رشتے بھی تیزی سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ طلاق اور خودکشی کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ اکثر خواتین صرف ظلم سہتی ہیں یا پھر خودکشی کر لیتی ہیں، کیونکہ وہ جانتی ہیں کہ، ان کی کہیں سنوائی نہیں ہو گی۔ آج بھی ایک مظلوم عورت انصاف کے حصول کے لیے تھانے میں اکیلی داخل ہونے کا تصور بھی نہیں کر سکتی، لہٰذا عورتوں پر ہونے والے ظلم و جبر کے اکثر واقعات رپورٹ ہی نہیں ہوتے، اگر پرچہ درج ہو بھی جائے تو جس انداز میں تحقیقات ہوتی ہے، وہ جسمانی تشدد سے کہیں زیادہ اذیت ناک ہوتی ہے۔عورت صنف نازک، کمزور اور ناتواں ہے تو پھر اس پر طاقت اور زورآوری کیوں؟اگر عورت نا قص العقل ہے تو اس وقت مرد کی عقل کہاں غائب ہو جاتی ہے جب وہ بیوی ،بہن یا بیٹی پر بے دردی سے تشدد کرتا ہے۔کیوں اس کو اس کے رونے اور درد سے چلانے کی آواز نہیں آتی؟حالاں کہ ایک عورت ہی ایک معاشرہ کی طاقت ہے۔ یہ عورت ہی ہے، جس کی تربیت مرد کو اعلٰی منصب پر فائز کرتی ہے۔

عورت کے لیے گھر سے باہرکا دشوار سفر بہت سہل ہوجائے، اگر کوئی نگاہ اس کے دامن اعتماد کو تیر کی مانند چھیدتی نہ گزرے کوئی ذومعنی جملہ، کوئی نا زیبا آواز اس کےپرعزم قدموں کا آبلہ نہ بنے۔ وہ اس یقین دہانی کی حقدار ہے کہ وہ ہر پل ہر جگہ محفوظ اور محترم ہے۔خواتین کی برابری کا مقصد قطعاً یہ نہیں کہ ان کو سخت حالات میں جھونک دیا جائے اور ان کا احترام نہ کیا جائے اور سوال کرنے پہ کہا جائے کہ جب برابری کی بات کی ہے تو بھگتیں۔ آج مختلف شعبوں میں عورتیں پہلے کی نسبت زیادہ دکھائی دیتی ہیں لیکن آج بھی ہمارا معاشرہ مردانہ بالادستی کے اصول پر قائم ہے ۔’’ حوا زادی‘‘ کو’’ ابن آدم‘‘ سے تعاون درکار ہے، تصادم تو اس کی فطرت ہی نہیں۔ وہ تو بس چلنے کو اپنے حصے کی صاف سیدھی ر ہ گذر مانگتی ہے۔ اس کی جھلملاتی آنکھیں، وقار اور برابری کے سپنوں کی تعبیر کی متلاشی ہیں ، حسرتوں اور مجبوریوں کی کوکھ سے نکلےآنسو اب ان کا مقدر نہیں۔ اس لیے کہ آج کی عورت پورے قد سے کھڑی اپنا رستہ، اپنی منزل پہچانتی ہے۔ وہ مواقع میسر آتے ہی اپنی تعلیم اور صلاحیتوں کی بنیاد پر خود کو ہر میدان، ہرافق پر منوا رہی ہے، اسے یہ بھی بہ خوبی علم ہے کہ ،اسے تعمیری کردار ادا کرتے ہوئے تصویر کائنات میں کس حیثیت سے کیسا رنگ بھرنا ہے۔وہ معاشرے کی معمار و محسن ہے، وہ امن و خوش حالی کی سفیر ہے، وہی تو دہلیز کے اندر اوراس پار، روشنی اور خوشبو کی پیامبر ہے۔خواتین کم عقل ہیں اور نہ کم فہم۔ان کے فعال کردار کے بغیر معاشرے کی ترقی ناممکن ہے۔

معاشرے میں خواتین کے مقام کی اہمیت کو کھلے دل اور کھلے ذہن سے تسلیم کرنا ہو گا۔ ان ہاتھوں کو روکنا ہوگا، جو خواتین پر تشدد کرتے ہیں، ان جاہلانہ رسم و رواج کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا ہو گا، جن سے ناصرف نظام عدل پر انگلی اٹھتی ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی ملک کی ساکھ خراب ہوتی ہے۔ حکومت کو سنجیدگی سے خواتین کے تحفظ کو ہر حال میں یقینی بنانا ہو گا۔