پارسی کمیونٹی

April 25, 2019

شاہ ولی اللہ

پارسی کمیونٹی کا شمار کراچی کے قدیم باشندوں میں ہوتا ہے۔ پارسی خود کو زر تشت کا پیروکار کہتے ہیں۔انھوں نے اپنی قابلیت، محنت مشقت اور روشن خیالی کی بدولت مقامی افراد سےگہرے مراسم قائم کرلئے تھے ۔پارسی مغربی تہذیب کے دلدادہ ہونے کے باوجود اپنے قدیم طرز تمدن سے جڑے ہوئے ہیں۔ ہزاروں سال بعد بھی اپنی قدیم رسومات کو اپنا ئے ہوئے ہیں۔ کراچی کےزیادہ تر پارسی افراد کی مادری زبان گجراتی ہے اور عام گجراتی زبان کے لب و لہجہ سے قدرے مختلف ہے، تاہم ایران سے کراچی منتقل ہونے والے پارسی فارسی زبان سے بھی آشنا ہیں۔ کراچی میں برطانوی عہد میں پارسیوں نے سستے داموں زمین حاصل کرکے صدر، سول لائین میں وسیع علاقے آباد کئے،جبکہ چند نے نجی اداروں، بنکوں اور ریلوے میں ملازمتیں اختیار کیں۔ 1920 میں سہراب کٹرک نے کراچی میں سولجر بازار کے قریب 96,000 مربع گز زمین خریدی ،تاکہ پارسی برادری ایک جگہ مل جل کر رہ سکیں۔ یہ کالونی ایم اے جناح روڈ سے متصل ہے، تاہم اب ان پرانے مکانات کی جگہ کثیر المنزلہ عمارتیں تعمیر ہو چکی ہیں، جو باقی ہیں وہ عرصہ سے ویران ہیں۔ اس وقت شہر بھر میں’ نو‘ پارسی کالونیز قائم ہیں۔ 1890 سے قبل کراچی میں پارسیوں کی تعداد 1000 تھی، ان کی اکثریت صاحب ثروت اور شہر کے معززین پر مشتمل تھی ۔اس برادری کی شرح خواندگی 100فی صد ہے۔ کراچی میں پارسیوں کے دو ممتازرہنما گز رے ہیں، جن میں ڈاکٹر دستور دھالا ان کی انجمن کے سربراہ تھے۔ خان بہادر شہریار کنڑکٹر سندھ کے مایہ ناز ماہر تعلیم تھے،دیگر نامور شخصیات میں نادر شاہ ایڈلجی، ڈنشا بانی انجینئرنگ کالج ، کاکا دھنجی شاہ کوتوال،وائس پرنسپل سندھ مدرستہ الااسلام ،خان بہادر ارد شیر ماما سماجی شخصیت،سر جہانگیر کوٹھاری ،جہانگیر راجکوٹ والا،بہرام جہانگیر جن کے نام سے جہانگیر پارک موسوم ہے، سرفقیر جی کاوس جی ، آر کے سدھواسیاست دان، سر خورشید ہومی کاترک ،ڈاکڑ کانگا،ڈاکٹر انکل سریا، سہراب کاترک تاجر قلمکار،ڈاکٹر منوچہر اسپنسر بانی اسپنسر آئی اسپتال لیاری، ڈاکٹر مانک جی پتھا والا پروفیسر ادیب، بہرام جی رستم جی،ماہر تعلیم، جے بی سدھوا پروفیسر، بہرام ڈی آواری،جمی انجینئر، ممتاز کمنٹیٹر و سفارت کارجمشیدمارکر ،ارد شیر کاوس جی جسٹس دراب پٹیل پارسی خاندان ٹی۔کوسر اینڈ کمپنی جن کا انجینئرنگ اور گوداموں کا بڑا کاروبار تھا۔قیام پاکستان کے بعد 1970 تک پارسیوں کی آبادی 5000 ہزار سے زائد تھی، اب کراچی میں تقریبا ڈیڑھ ہزار پارسی باقی رہ گئے ہیں۔ گزشتہ پانچ سے آٹھ سالوں کے درمیان بہت سے پارسی اپنےتمام اہل خانہ کے ہمرا ہ کراچی کو خیرباد کہہ گئے ۔ کراچی میں ان کے دو آتش کدے، ہیں،جنھیں ’اگیاریاں ‘بھی کہا جاتا ہے، ان میں صندل جلایا جاتا ہے ایک آتش کدہ جس کا پورا نام ’ایچ جے بہرانہ پارسی دار مہر ہے یہ کراچی میں پارسیوں کی پہلی عبادت گاہ تھی جوصدرایمپریس مارکیٹ کے سامنے ڈاکٹرداود پوتا روڈ پرواقع تھی، اس عبادت گاہ کا قیام 1845میں عمل میں آیا، اس آتش کدے کے دروازے پر لکھا ہے کہ ’اندر آنا منع ہ‘‘صرف ممبران کو آنے کی اجازت ہے۔ اس عمارت میں آگ کبھی نہیں بجھتی ، یہاں پروہ اپنی عبادت کرتے تھے۔ دوسرا آتش کدہ پاکستان چوک پر 1875میں مہرو وانجی واڈیا نے تعمیر کروایا یہ آتش کدہ آج بھی ڈی جے کالج سے متصل ہے۔ 1923سے قبل پاکستان چوک کے اطراف پارسیوں کی کافی آبادی تھی۔ پارسی مذہب کے مطابق زمین، پانی، ہوا، سورج اور آگ اتنی پاک اشیاءاور مقدس عناصر ہیں کہ ان کے تقدس کو بحال رکھنے کے لیے وہ جو بن پڑے کرتے ہیں۔

کراچی کی ترقی میں پارسی برادری کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل رہاہے ۔اس شہر میں سینما کے کاروبار کی پہل بھی پارسیوں نے کی تھی ۔سب سے پہلے کلب روڈ پر پیلس تھیٹر قائم کیا تھا ،جہاںپہلے انگریزی میں خاموش اور پھر بولتی فلمیں دکھائی جاتی تھیں۔ 1924میں ایم ائے جناح روڈ سابقہ بندر روڈ پر لائٹ ہاوس سینما کی جگہ پر امریکن سینما تھا جو پارسیوں کی مشہور الفریڈتھیٹریکل کمپنی کی ملکیت تھا۔ کراچی میں کرکٹ کے فروغ میں پارسی برادری نے اہم کردار ادا کیا، انہوں نے سب سے پہلا کرکٹ کلب 1847 میں قائم کیا تھا، جس کا نام اورینٹل کرکٹ کلب تھا ،یہ برصفیر کا پہلا کرکٹ کلب تھا ۔ 1886 میں انگلستان کا دورہ کیا تھا اس ٹیم کے کھلاڑیوں میں دادا ڈنشا بی ڈی دستور ،برجری بالا جیسے نامور کھلاڑی شامل تھے۔

1825 میں پارسیوں نے کراچی آمد کے بعدوقت ضائع کیے بغیر بڑی سنجیدگی کے ساتھ اپنے کام میں لگ گئے۔ پارسیوں نے اپنی دکانیں کھولنی شروع کیں۔ 1830 سے لے کر اب تک کے پارسی ٹھیکیداروں، ڈاکٹروں، واچ میکرز، تاجروں، موم بتی بنانے والوں، گھڑسواروں، ٹیکس وصول کرنے والوں اور حتیٰ کہ نیلامیاں کرنے والوں کے ریکارڈز انگنت ہیں۔

ڈنشا آواری نے کراچی کے پہلے لگژری ہوٹل کی بنیاد ڈالی۔ اِسی طرح دیگر پارسیوں نے ، جن میں کواسجی گروپ بھی شامل ہے۔ انہوں نے شپنگ اور بندرگاہ پر سامان لادنے اور اتارنے کا کاروبار شروع کیا ۔ صدرسے لے کر کلفٹن تک ہر موڑ پر کوئی نہ کوئی حسین تعمیری شاہکار آپ کے قدم روکے گا۔ چاہے وہ جہانگیر کوٹھاری پریڈ ہو یا کائوس جی بلڈنگ ۔ نادار طبقے کے لئے مکانات کی تعمیر،شفاخانے ،اسکول ، ثقافتی مرکز، سمیت انگنت فلاحی منصوبے قابل قدر ہیں۔ کلفٹن کی بارہ دری ،اور زینہ دارپل ان کا بہترین عطیہ ہے۔ جمشید نسروانجی آر مہتہ نے بطور میئر کراچی اس شہر کی خوبصورتی اور صفائی ستھرائی پر خصوصی توجہ دی، ان کی کوششوںسے کراچی پورے برصغیر میں صفائی اور خوبصورتی کی علامت بن گیا تھا۔انہوں نے کراچی کے ماسٹر پلاننگ میں اہم ترین کردار ادا کیا ایم اے جناح روڈ پر سابقہ کے ایم سی کے دفاتر قائم کئے ، اس وقت اس سے پیشتر یہ دفاتر میکلوڈ روڈ پر قائم تھے۔ یہ ان کا اہم ترین کارنامہ ہے ۔جمشید کوارٹرز جمشید نسروانجی کے نام سے موسوم یہ بستی کراچی کے شہریوں کی سہولت کے لئے آباد کی گئی تھی، اس کے پڑوس میں پارسی کالونی کاسموپولیٹن سوسائٹی اور دیگر سوسائٹیاں آباد کی گئیں تھیں ۔

کراچی کی تعمیر وترقی میں دوسرا اہم نام ایڈلجی ڈنشاکاآتاہے ۔ایڈلجی ڈنشا کراچی کے ایک مخیر تاجرتھے، انہوں نے کراچی کے شہریوں کے لئے بہت سے رفاحی اور فلاحی کام انجام دیئے، ان میں سے ایک ایڈل جی ڈنشا ڈسپنسری ہے۔ یہ انہوں نے 1882 میں آج سے تقریباً سوا صدی قبل تعمیر کی تھی، اس ڈسپینسری کا نقشہ ایک انگریز جیمز اسٹریجنز نے اٹلی کے طرز تعمیر کے مطابق بنایا تھا ایمپریس مارکیٹ کے قریب واقع آج بھی یہ عمارت کراچی کی اہم تاریخی عمارتوں میں شمار کی جاتی ہے۔ اسی طرح نادر شاہ ایڈلجی کے ورثانے کراچی کے پہلے اینجینرنگ کالج کے لئے کثیر رقم کی فراہمی کا اعلان کیا تھا، اس وجہ سے اس کالج کا نام نادر شاہ ایڈلجی ڈنشا کے نام پر این ای ڈی کالج رکھا گیا۔آج بھی اہل کراچی ان کے قائم کئے گئے سماجی خدمت کے اداروں سے فیض پا رہے ہیں ۔

کراچی کے اہم ترین اور ساحلی مقام کلفٹن پر ایک اورمخیر پارسی تاجر جہانگیر ایچ کوٹھاری نے ایک بڑا قطعہ آراضی اور اس کے ساتھ تین لاکھ روپے کراچی کی میونسپلٹی کو بطور عطیہ دیئے تھے۔ اس وقت یہ تین لاکھ روپے بہت بڑی رقم تصور کی جاتی تھی ( صدر کا جہانگیر پارک ان ہی کے نام پر موسوم ہے )کراچی کے میونسپل ادارے نے اس رقم سے اس مقام پر ایک خوبصورت ترین عمارت تعمیر کی، جسے جہانگیر کوٹھاری پریڈ کہا جاتا ہے۔ اس عمارت کا سنگ بنیاد اس وقت کے سندھ اور بمبئی کے گورنر جارج لائیڈ نے رکھا تھا یہ عمارت آج بھی کراچی کی خوبصورت ترین عمارتوں میں شمار کی جاتی ہے ۔ کراچی کی پارسی برادری کی اہم ترین شخصیت رستم سدھوا تھے جو کے کراچی کے آٹھ سال تک بلا مقابلہ مئیر رہے ان کی خدمات کراچی کے حوالے سے بہت سی ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد بھی پارسی برادری کی جانب سے عوام کی خدمت کاسلسلہ جاری رہا ۔

سولجر بازار میں ان کے بنگلےجو یقیناً کبھی شاندار رہے ہوں گے، اب چند کو چھوڑ کرباقی دھول مٹی میں اٹے ہوئے ہیں برسوں سے ان کی نہ مرمت ہوئی ہے نہ رنگ و روغن کیا گیا ہے۔ ہر سو خاموشی ہے۔ یہاں ایک آنکھوں کا ہسپتال بھی ہے۔ بورڈ پر ڈاکٹر ایس ڈی انکل سریا آئی ہسپتال لکھاہے، مگر بورڈ کی حالت خاصی بری اور زنگ آلود ہے۔ صدر میں واقع انکل سریا اسپتال بھی ایک تاریخی عمارت ہے، جسے ڈاکٹر برجر انکل سریا اورگلبانو نے بنوایا تھا۔ پارسی پاکستان میں دیگر غیر مسلم برادریوں کے مقابلے میں زیادہ پُرسکون زندگی گزار رہے ہیں۔