’چوکنڈی کا قبرستان‘

April 25, 2019

نعمان خان لودھی

کراچی کے جنوب میں لانڈھی، رزاق آباد پولیس ٹریننگ سینٹر کے عقب میں واقع سندھ کے قدیم ورثے ’چوکنڈی قبرستان‘ سے خود کراچی کے شہر ی بہت کم واقف ہیں ۔ حد تو یہ ہے کہ سندھ کے تاریخی شہر ٹھٹھہ کے سب سے مشہور آثار قدیمہ میں شمار کیے جانے والے ’مکلی قبرستان‘ سے ہر پاکستانی واقف ہے ،مگر کراچی شہر میں بھی اس سے مشابہت رکھنے والا ایک قدیمی قبرستان ہے، اس کا علم کم لوگوں کو ہی ہے۔

رزاق آباد سے پہلے مرکزی راستے سے شمال کی طرف ایک ٹوٹا پھوٹا سا لِنک روڈ نکلتا ہے، یہاں صدیوں پرانی مزاریں ہیں۔ شُمال کی طرف مُڑتے ہی زرد پتھروں کا ایک قبرستان نظر آتا ہے۔ اصل نام تو نہ جانے کیا ہوگا، مگر یہ’ 'چوکنڈی‘ کے نام سے مشہور ہے۔ عرصہ دراز سے محققین اِس تحقیق میں مصروف ہیں کہ یہ نام آخرکیسےپڑا؟تحقیق کے مطابق،’عام لوگ لفظ چوکنڈی کو لے کر کچھ خاص پریشان نہیں، وہ قبر اور اُس قبر کے اوپر بنی ہوئی چھتری (Canopy) کو ہی چوکنڈی پکارتے ہیں، بلکہ لوگ تو اِن قبرستانوں کے لیے بھی اسی نام کو استعمال کرتے ہیں، جیسے وہ اِس چوکنڈی کے مقام کو جام مُرید جوکھیو کے مقام (قبرستان) کے نام سے جانتے ہیں۔یعنی کراچی کے نواح میں واقع چوکنڈی قبرستان کی قبریں جوکھیو قبائل سے منسوب کی جاتی ہیں لیکن اس کے علاوہ یہاں دیگر بلوچ قبائل سے تعلق رکھنے والوں کی بھی قبریں ہیں۔ چوکنڈی میں موجود تاریخی قبروں کی تعمیر 15 ویں صدی عیسوی تک ہوتی رہی۔گزرے ہوئے وقت کی یہ ہی ایک خاصیت ہے کہ وہ اسراروں سے بھرپور ہوتا ہے۔ یہ ہی خاصیت شاید اِس کے سحر کو لاکھوں کروڑوں برسوں سے سنبھالے ہوئے ہے۔ یہاں بھی اِسراروں کی ایک دُنیا آباد ہے، داستانوں کی گٹھڑی ہے جو سُنانے کے لیے بے تاب ہے کہ، اُن قبروں پر سے ساڑھے 6 سو برس کے جاڑوں، بہاروں، بارشوں اور تپتی دوپہروں کے موسم کیسے گزرے ہیں اور اُن زرد پتھروں پر تراشے ہوئے پھولوں کی آنکھوں نے نہ جانے اپنے آس پاس کیا کیا مناظر دیکھے ہوں گے۔

چوکنڈی کا مطلب ہے چار کونوں والی اور یہ نام قبروں کی صورت کی وجہ سے ہی استعمال کیا جاتا ہے۔ قبروں کی تعمیر میں پیلے رنگ کے پتھر استعمال کیے گئےہیں جو ٹھٹہ کے قریب جنگ شاہی میں پایا جاتا ہے۔ خوبصورت ترین مقابر تین سے چار منزلہ ہیں۔ مستطیل قبریں تقریباً اڑھائی فٹ چوڑی، پانچ فٹ لمبی اور چار سے 14 فٹ تک بلند ہیں۔

ان قبروں پر استعمال کیے گئے، پتھروں پر انتہائی خوبصورت نقش نگاری کی گئی ہے۔ مردوں کی قبروں پر خوبصورت کلاہ نما ڈیزائن ہیں، اس کے علاوہ تلوار بازی، گھڑسواری اور تلوار، خنجر و غیرہ کے نقش پائے جاتے ہیں ،جبکہ خواتین کی قبروں پر خوبصورت زیورات کنندہ کیے گئے ہیں۔ ان نقوش سے مرد و زن کی قبروں کی با آسانی شناخت کی جاسکتی ہے۔ چوکنڈی کے قبرستان کے کتبوں کو اگر غور سے مطالعہ کیا جائے تو یہاں متعدد قبائل کے لوگوں کی قبریں ملتی ہیں۔کچھ قبروں پر بُدھ اور جین مت کی نشانیاں بھی کندہ ہیں، اصل میں یہ نشانیاں وادئ سندھ کی تہذیب کی باقیات ہیں، کیونکہ وادئ سندھ کی تہذیب مختلف مذاہب کی آماجگاہ رہی ہے، ان کو دیکھ کر حیرانی ہوتی ہے کہ جب سائنٹیفک آلات بھی موجود نہیں تھے، اس وقت اتنے دبیز پتھروں پر یہ ڈیزائن کیسے بنائے گئے ہوں گے؟ جو اس مہارت سے کندہ کیے گئے ہیں کہ قبروں کی دیگرتہوںکو بھی کوئی نقصان نہیں ہوا۔ ایک اندازے کے مطابق جس نفاست سے ان قبروں پر کندہ کاری کی گئی ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک قبر پر کئی ماہر کاریگروں نے کئی مہینے صرف کیے ہوں گے۔ اس قسم کی قبریں چو کنڈی کے علاوہ ملیر، میر پور ساکرو، مکلی، ٹھٹہ، سہون شریف وغیرہ میں بھی پائی جاتی ہیں۔

ان تمام تر حقائق کے باوجود انتہائی افسوس ناک امر یہ ہے کہ کسی بھی حکومت کی طرف سے اس خوبصورت ورثے کی حفاظت کا کوئی خاطر خواہ انتظام نہیں کیا گیا۔ کچھ عرصہ قبل اس قبرستان اور اس سے ملحقہ اراضی کو کارخانوں و دیگر مقاصد کے لیے دیا جاتا رہا ہے۔ یہاں کارخانوں کی تعمیر ہو چکی ہے۔ قبرستان کی دیوار کے ساتھ ہی بہت سے کارخانے، گاڑیوں کے گیراج، مکینک کی دوکانوں کی ایک لمبی قطار نظر آئے گی اور ایک بات، قبرستان سے متصل جگہ پر ٹینکر مافیا بھی براجمان ہے۔

قومی شاہراہ سے گزرتے ہوئے شاید ہی کسی فرد کو یہ احساس ہو کہ ایک قدیم اور نایاب ورثہ یہاں موجود ہے۔ مین روڈ پر ایک چھوٹا سابورڈ قبرستان کی سمت کااشارہ کرتا ہے اور اس کی موجودگی کا احساس دلاتا ہے لیکن اس بورڈ پر بھی تشہیری پوسٹر کی بھرمار ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ بورڈ قبرستان کی نشاندہی کے بجائے جلسے جلوسوں اور کاروبار کی پبلسٹی کے لیے آویزاں کیا گیا ہے۔یہ یقیناً ہمارا ایک اہم ثقافتی ورثہ ہے جو اِس ’چوکنڈی‘ (جام مُرید جوکھیو قبرستان) کے سوا اور ایسے 50 سے زائد قبرستانوں کی صورت میں بکھرا ہوا ہے اور جس میں توسیع کا عمل رُک گیا ہے۔یہاںایک ضعیف العمر شخص اتنے بڑے رقبے پر محیط قدیم ورثے کی حفاظت کرنے پر ماموہے، سوچیں، صرف ایک فرد، اور وہ بھی ضعیف العمر۔ حالانکہ یہ قبرستان دور حاضر کی ضرورتیں بھی پوری کر رہا ہے یعنی یہاں اب بھی تدفین کا عمل جاری ہے۔ حکام بالا کو اس قدیم ورثے کو محفوظ رکھنے کے لیے فوری خاطر خواہ اقدام کرنے ہوں گے، تاکہ اس نایاب جگہ کے بارے میں ہماری نوجوان نسل کو بھی معلومات حاصل ہو سکیں۔ ورنہ یہ بھی سندھ کے دیگر آثار قدیمہ کی طرح تباہ ہو جائے گا۔