انسانی اسمگلنگ

April 28, 2019

محمد انور شیخ ،نواب شاہ

انسانی اسمگلنگ ایک بدترین فعل ہے لیکن دولت کی ہوس انسان کو اندھا کردیتی ہے لوگوں کو بہترین روزگار کا جھانسہ دے کر بیرون ملک بھجوانے والے انسانی اسمگلر ہوں یابھولی بھالی خواتین کو سنہرے مستقبل کا جھانسہ دے کر اغواء کرکے ان سے جسم فروشی کرانے یا بڑے گھروں میں شادی کرانے کا خواب دکھا کر اغواء کرنے کا سلسلہ جاری رہتا ہے بعد ازاں اہنیں دوسرے صوبوں یا بیرون ملک اسگل کردیا جاتا ہے۔ اسی طرح کا ایک گروہ نواب شاہ پولیس نے گزشتہ روز پکڑا ہے جو کہ پنجاب سے خواتین کو سنہرے مستقبل کےسپنے دکھا کر اغواء کرکے انہیں فروخت کرنے کی تیاری کررہے تھے ۔اس سلسلے میں ایس ایس پی تنویر تنیو کے مطابق خفیہ اطلاع ملنے پر بی سیکشن پولیس نے جام صاحب روڈ پر واقع گتہ فیکٹری پر چھاپہ مار کر گوجرانوالہ کی رہائشی کنزہ، سیالکوٹ کی عروج اور ملتان کی خالدہ بی بی اور ان کے دو بچوں کو بازیاب کرالیا۔مذکورہ خواتین کی عمریں پچیس سے تیس سال کے درمیان تھیں جبکہ ایک خاتون کے دو بچے بھی اس کے ساتھ تھے ۔پولیس نے خواتین کے مبینہ اغواء کے چار اغوا کاروں کو بھی گرفتار کرلیا ۔

اس سلسلے میں ایس ایس پی تنویر حسین تنیو نے میڈیا کو بتایا کہ پولیس نے پنجاب سے خواتین کو سنہرے مستقبل کے خواب دکھا کر اغواء کرنے والے گروہ کو پکڑا ہے جو غریب اور بے سہارا لڑکیوں کو اغواء کے بعد سندھ میں لاکر فروخت کردیتے ہیں اس سلسلے میںایس ایس پی کے مطابق ایس ایچ او بی سیکشن ریاض احمد کو خفیہ اطلاع ملی تھی کہ خواتین کو اغواء کرنے والا چار رکنی گروہ تین لڑکیوں کو پنجاب سے لاکر فروخت کرنے کی کوشش کررہا ہے جس پر پولیس کو اس گروہ کی گرفتاری کے لئے ہدایت دیں اور کئی روز کی نگرانی کے بعد کامیاب کارروائی کے ذریعے خواتین کو اغواء کرنے والے چار ملزمان جن میں عمران ولد علی محمد، وسیم علی ولد حاجی روشن، خان محمد اور عبدالروف کو گرفتار کرکے ان کے قبضے سے تین خواتین اور دو بچوں کو بازیاب کرالیا گیا ۔ایس ایس پی کے مطابق گروہ کے ارکان خواتین کو سنہرے مستقبل کا لالچ دے کر سندھ میں ادھیڑ عمر کے لوگوں کو فروخت کرتے تھے اور مذکورہ خواتین کو بھی ایک سے ڈیڑھ لاکھ روپے کے عیوض فروخت کرنے کی تیاریاں کی گئی تھیں ۔انہوں نے کہا کہ بازیاب ہونے والی خواتین نے الزام لگایا ہے کہ ملزمان انہیں فحاشی پر بھی مجبور کرتے تھے۔واضح رہے کہ اس سے قبل سکرنڈ میں بھی پولیس کی جانب سے اسی طرح کے گروہ کو گرفتار کرنے کا دعوی کیا گیا تھا جن کی سرغنہ شہداد کوٹ کی حاجیانی نامی خاتون کو بتایا گیا تھا اور اس گروہ کے ارکان کو پولیس نے سکرنڈ کے پیر ذاکری محلے سے گرفتار کیا تھا جن میں پنجاب کے مختلف علاقوں سے اغواء کرکے لائی گئی خواتین اور ان کے خریداروں کو بھی تحویل میں لیا گیا تھاجو کہ بااثر لوگوں پر مشتمل تھے ۔اس سلسلے میں ایس ایچ او سکرنڈعلی حسین نے بتایا تھا کہ اس گروہ کے ارکان نے پنجاب کے مختلف علاقوں سے ایک ہزار سے زائد خواتین کو سندھ میں فروخت کیا تھا اور اس سلسلے میں پولیس نے گروہ کے اہم رکن کو بھی گرفتار کرنے کا دعوی ٰکیا تھا جبکہ پولیس کی جانب سے یہ بھی کہا گیا تھا کہ انہیں درجنوں کی تعداد میں ایسی خواتین کے شناختی کارڈ ملے ہیں جو سندھ میں اس گروہ نے فروخت کیا ہے تاہم ان چونکا دینے والے انکشافات کے بعد معاملے کو سرد خانے کی نذر کردیا گیا اور میڈیا کے بے حد اصرار کے باوجود بھی آج تک اس سلسلے میں پولیس کی جانب سے کسی مزید کارروائی کے بارے میں نہیں بتایا گیا جبکہ بعض ذرائع کا دعوی ہے کہ اس گروہ کے سرخیل کا تعلق ایک بااثر سیاسی خاندان سے ہونے کے باعث مزید کارروائی روک دی گئی جبکہ اس سلسلے میں سول سوسائٹی کا کہنا ہے کہ ایسے گروہ جو کہ معصوم اور بھولی بھالی غریب گھرانوں کی خواتین کو سنہرے مستقبل کے خواب دکھا کر اغواء کرتے ہیںکسی بھی رعایت کے مستحق نہیں ہوسکتے اور پولیس اور حکمرانوں پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ اس گناہ کے کاروبار کرنے والوں کو منطقی انجام تک پہنچائیں تاکہ پھر کسی کو کسی کی بہن و بیٹی کی کی عزت پامال کرنےاور انہیں زمانے میں تماشا بنانے کی جرآت نہ ہوسکے۔