مزدور کو اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے مزدوری ادا کی جائے

May 01, 2019

شمس الرحمٰن سواتی

آج مزدور ڈے ہے، لیکن مزدور آج بھی بے روزگار ہے، سڑک کنارے بیٹھے بہت سے مزدور دیکھے جاسکتے ہیں،ہاتھ میں اوزار تو ہیں، مگر روزگار نہیں، یہ کیسا نظام ہے جو مزدورڈے تو مناتا ہے لیکن اجرت نہیں دیتا اور روزگار بھی چھین رہا ہے، یہ ایک سوالیہ نشان پوری قوم کے لیے اور اجیر کے لیے بھی ہے، یہاں اجیر تو اس نظام میں پسا ہوا ہے اور قوم بے خبر ہے، مگر یہ نظام ایک ایسا المیہ ہے کہ صنعتی مزدور ہوں یا زرعی، رجسٹرڈ ہوں یا غیر رجسٹرڈ، مزدور، انہیں روزگار مل جائے تواجرت نہیں ملتی، ایک اندازے کے مطابق ملک میں چھ کروڑ پچپن لاکھ کے قریب لیبر فورس ہے اس میں پانچ کروڑ پچپن لاکھ تو غیر رسمی اور غیر رجسٹرڈ شعبہ سے وابستہ ہیں یہی مزدور ہر روز منڈی، اور لوگوں کے گھروں میں کام کرتے ہیں کھیتوں میں کام کرنے والے مرد اور خواتین مزدور بھی اس میں شامل ہیں یہ وہ مزدور ہیں کہ جنہیں بنیادی حقوق اور سوشل سیکورٹی کی سہولت میسر نہیں، ان کی اجرت بھی طے نہیں ہوتی، انہیں آئین کے مطابق یونین سازی کا حق بھی نہیں ملتا، نیشنل لیبر فیڈریشن چاہتی ہے کہ ملک کا ہر مزدور بنیادی حقوق سے محروم نہ رہے ہم ملک بھر میں ہر سطح پر اس کے لیے عملی کوشش اور جدوجہد میں مصروف عمل ہیں۔

آج کے مزدور کی تصویر کشی کی جائے تو چند تلخ حقائق سامنے آتے ہیں کراچی میں، جسے ہم ملک کا صنعتی حب کہتے ہیں، دو کروڑ کی آبادی میں مزدوروں کی تعداد پچیس لاکھ کے قریب ہے اس تعداد میں غیر رسمی شعبے میں کام کرنے والے مزدور شامل نہیں ہیں ان مزدوروں میں ترانوے ہزار ایسے ہیں جن کی سوشل سیکورٹی میں رجسٹریشن ہے، ایک لاکھ بتیس ہزار سے زائد مزدور ای او بی آئی میں رجسٹرڈ ہیں، صرف کراچی میں ہی رسمی شعبے میں چوبیس لاکھ مزدور ایسے ہیں جنہیں بنیادی حقوق حاصل نہیں۔ یہ تو کراچی کا نقشہ ہے ملک کے دیگر شہروں میں صورت حال اس سے بھی بدتر ہے۔

ملک میں ہر ضلع میں لیبر ڈیپارٹمنٹ ہے مزدوروں کی رجسٹریشن، ان کی تنخواہوں، اجرت، ان کے لیے حفاظتی آلات کی فراہمی یقینی بنانا اس کی ذمہ داری ہے لیکن یہ شعبہ آجروں کے ساتھ مل کر مزدوروں کے ساتھ ہونے والے ظلم میں شریک ہے اور آجروں سے بھتہ لے کر مزدوروں کے لیے جائز قانونی مراعات کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے کوئی کام نہیں کر رہا۔ مزدوروں کے قانونی تحفظ کے لیے لیبر کورٹس، این آئی آر سی اور اپیلٹ ٹربیونلز موجود ہیں ان عدالتوں میں مزدوروں کے لاکھوں کیسز زیر التواءہیں۔ صرف کراچی میں ایسے کیسز کی تعداد چھیالیس ہزار ہے۔ یہی صورت حال این آئی آر سی اور اپیلٹ ٹربیونلز کی ہے سانحہ بلدیہ ٹاؤن آج تک ہمارے ذہنوں میں زندہ ہے اس سانحے میں دو سو انسٹھ مزدور زندہ جلادیے گئے تھے، ان شہید مزدوروں کے مظلوم اور بے بس لواحقین کو آج تک انصاف نہیں مل سکا۔

مزدور کے لیے ریاست مدینہ کا اصل پیغام یہی تھا اور ہے کہ اسے پسینہ خشک ہونے سے قبل مزدوری ملے گی بلکہ یہ آقائے دوجہاں ﷺ کا حکم ہے لیکن آج کی حکومت دعویٰ تو کرتی ہے ،عمل کے میدان میں صفر ہے۔ مزدور کے لیے اس کے اوقات کار کے لیے بھی جنگ لڑی گئی، جدوجہد ہوئی اور شکاگو کے مزدور بھی اسی لیے جان سے ماردیے گئے کہ وہ یہ مطالبہ کیوں کر رہے ہیں۔

ہمارے ملک میں کسی بھی ادارے میں مزدور کے لیے طے شدہ اوقات کار کی پابندی نہیں کی جاتی، خواتین مزدور بھی نہیں بخشی جاتیں، نجی اداروں اور غیر رسمی شعبے میں ان سے بارہ بارہ اور سولہ سولہ گھنٹے تک ڈیوٹی لی جاتی ہے۔ بلدیاتی اداروں میں اس وقت ملک بھر میں کم و بیش ساڑھے چھ لاکھ مزدور کام کررہے ہیں، اصول یہ ہے کہ ہر پانچ سو نفوس کے لیے ایک سینیٹری ورکر ہونا چاہیے لیکن اس وقت پانچ ہزار افراد کے لیے ایک سینیٹری ورکر تعینات کیا جاتا ہے۔

آج کی حکومت عاریتاً لئے گئے ماہرین معیشت سے کام چلا رہی ہے یہ ماہرین مزدور کی بھوک ننگ اور غربت ختم کرنے کے لیے کوئی منصوبہ اور لائحہ عمل نہیں رکھتے ریاست مدینہ کے والی محمدﷺ نے جو لیبر پالیسی دی تھی اس کا خطبہ حجۃ الوداع میں ذکر موجود ہے کہ جو تمہارے ہاتھ کے نیچے کام کرتے ہیں وہ تمہارے بھائی ہیں جو خود کھاتے ہو انہیں بھی کھلاؤ، جو خود پہنتے ہو انہیں بھی پہناؤ اور ان پر کام کا وہ بوجھ نہ لادو جس کی وہ طاقت نہ رکھتے ہوں ۔ اب آخر میں یہ بات کہ ملک کی لیبر لیڈر شپ کو چاہئے کہ وہ خوابوں کی بجائے عمل کی دنیا میں قدم رکھے تاکہ مزدور کو درپیش وہ مسائل جو اس کی زندگیاں کھا رہے ہیں،یہ مسائل مدینہ کی ریاست کے پیغام کی روح کے مطابق حل ہوسکیں۔