کراچی کے روشن ہونے کی تاریخ

May 02, 2019

آسیہ اعوان

روشنیوں کا شہر کراچی ہمیشہ سے روشنیوں کا شہر نہیں تھا بلکہ یہ تاریکی میں ڈوبا ہو اتھا ، جہاں شام ہوتے ہی گھپ اندھیرا ہو جاتا اور لوگ تاریکی کے چادر اوڑھنے سے قبل ہی اپنے کام بند کر کے سر شام سو جایا کرتے تھے۔ اس زمانے میں زیادہ تر لوگ سورج کے طلوع ہوتے ہی جاگتے تھے اور سورج کے غروب ہوتے ہی اپنے گھروں میں دبک جاتے تھے۔ رات کو گھروں کو روشن رکھنے کے لئے چراغوں اور لالٹین سے روشنی کی جاتی تھی۔ لوگوں کے لئے یہ مد ہم روشنی ہی کافی ہوتی تھی کیونکہ اس وقت مختلف ناموں سے موسوم اس شہر کے لوگ بجلی نام سے بھی نہ آشنا تھے۔

ماضی میں چند سڑکیں ہوا کرتی تھیں، ان پر بیل گاڑیاں، اونٹ گاڑیاں، گدھا گاڑیاں، گھوڑا گاڑیاںچلتی تھیں ۔ سڑکوں پر روشنی کا انتظام نہ ہونے کے سبب گھوڑا گاڑیوں پر لگے دو مٹی کے تیل سے جلنے والے چراغوں ،جبکہ گدھا گاڑیوں میں لالٹین باندھ کر رات کا سفر کیا جاتا تھا ۔غالبا یہ1847 سے پہلے کا دور تھا۔ 1839 میں جب انگریز آئے تو اس وقت تک یہ شہر رات کا اندھا شہر تھا ،جس کے باعث شہر کے اندر چوریوں، ڈکیتیوں اور نقب زنی کے واقعات اکثر و بیشتر پیش آیا کر تے تھے ۔سرچارلس نیپئر نے اس شہر میں روشنی کے انتظامات کر نے کے لئے خصوصی انتظامات کیے ،اس نے شہر کی سڑکوں کو روشن کر نے کے لئے با قاعدہ طور پر ایک بورڈ بنا یا، جس نے کافی غور اورخوص کے بعد شہر کی سڑکوں کو روشن رکھنے کے لئے 1847 میں سڑکوں کے کنارے ناریل کے تیل سے جلنے والے لیمپ نصب کر وائے ان لیمپوں کو روشن رکھنے کے لئے زمین کے اندر تیل کی ایک چھوٹی سی ٹینکی بنائی گئی ،جبکہ لیمپ 5 سے 6 فٹ کی اونچائی پر نصب کیے گئے، جن میں میونسپلٹی کے اہلکار صبح کے اوقات میں اس کی چمنیاں صاف کر کے ان میں تیل بھرا کرتے تھے اوررات کو انہیں دوسرے اہلکار روشن کر نے کے لئے آ تے تھے، مگر پھر ان اہلکاروں نے کھوپرے کے تیل کی چوری شروع کر دی ،جس کے سبب لیمپ مٹی کے تیل سے جلائے جانے لگے یہ اقدام 1883 میں اٹھایا گیا تھا۔کراچی میونسپل کمیشن جسے 1878 میں میونسپلٹی کا درجہ ملا، اس کے چیف انجینئر مسٹر جیمس اسٹریچن نے پہلی بار سڑ کوں کو روشن رکھنے کے لئے بجلی کی کمپنی قائم کر نے کی تجویز دی، مگر کیونکہ بجلی کی تنصیب میں بہت سرمائے کی ضرورت تھی، اس لئے اسی دور میں سڑکوں پر گیس لیمپ لگا دیے گئے، جس کی زمین کی ٹینکیوں میں تیل بھرا جاتا اوروہ تیل پائپ کے ذریعے بر نر میں پہنچتے اور گیس کے ہنڈے کو روشن کر دیتے تھے، جس سے سڑکیں، چوراہے پہلے سے زیادہ روشن رہنے لگے اور اندھیرے کی وجہ سے رات کو پیش آنے والے حادثات میں بھی کمی واقع ہوئی۔

گیس سے سڑکوں کو چند فرلانگ تک روشن رکھنے کا سلسلہ کافی عرصے تک جاری رہا ۔صاحب ثروت لوگوں نے گھروں کو روشن رکھنے کے لئے بھی گیس لیمپوں کا استعمال شروع کر دیا ایسے میں دور سے دیکھنے پر شہر کےمکانوں میں مدھم مدھم سی روشنی نظر آتی تھی۔ اسی دوران 1913 میں میسرز فار بس کیمپ بیل کمپنی شہر میں بجلی کی فراہمی کے لئے با قاعدہ طور پر ایک کمپنی قائم کی اور اس کے حصص فروخت کیے۔ لوگوں کی بڑی تعداد نے حصص خریدے۔ بعد میں اس کمپنی سے یونائیٹڈ ایسٹرن ایجنسی نے سارا کاروبار خرید لیا اور شہر بھر میں بجلی کی فراہمی شروع کر دی گئی لیکن لوگ کرنٹ لگنے سے خوف زدہ تھے، اس لئے اکثر لوگ چراغ لالٹین اور گیس استعمال کر تے رہے۔ یوں پہلی جنگ عظیم سے قبل ہی کراچی میں بجلی آگئی تھی ۔

بجلی پیدا کر نے کے لئے پہلا پاور ہاؤس کچہری روڈ جوکہ آج ڈاکٹر ضیا الدین روڈ کہلاتا ہے کے ساتھ واقع خالی اراضی پر قائم کیا گیا اور یہاں مٹی کے تیل سے بجلی کی پیداوار شروع کی گئی ۔مٹی کے تیل سے پاور ہاؤس کو چلانے کے لئے باقاعدہ طور پر ایک ڈپو بھی قائم کیا گیا۔ یہ تیل ڈپو آج بھی اپنی پرانی اور خستہ حالت میں موجود ہے۔ قدیم ترین پاور ہاؤس جوکہ پتھروں سےبنا ہوا تھا، اس کی صرف بیرونی دیواریں باقی ہیں، جبکہ اندر سے اسے عہد حاضر کے تقاضوں کے مطابق ڈھال دیا گیا ہے۔

کراچی میں جہاں تک سب سے پہلے لائٹیں روشن ہونے کا تعلق ہے تو اس کا کریڈٹ سندھ کلب کو جاتا ہے، جہاں صرف انگریزوں کو ہی ممبر بنایا جاتا تھا اس نے 1902 میں کلب کے لئے ایک جنریٹر نصب کر کے سب سے پہلے کلب کو بجلی کی سہولت سے آراستہ کیا جوکہ لوگوں کے لئے ایک انوکھی چیز تھی ل،ہذا لوگ دور دراز کا سفر کر کے جلتی ہوئی لائیٹیں دیکھنے کے لئے آیا کرتے تھے۔ پھر جب 1913 میں بجلی آگئی تو اس کا پہلا کنکشن جہانگیر کوٹھاری بلڈنگ جو آج بھی ایم اے جناح روڈ پر موجود ہے اسے فراہم کیا گیا اور آج بھی اس قدیم عمارت کے اندر قدیم طرز کا میٹرلگا ہوا ہے۔ اس سلسلے میں ماہرین کا کہنا یہ ہے کہ غالبا جہانگیر کوٹھاری جوکہ کراچی کا بہت بڑا صنعت کار تھا، اس نے بجلی کے حصص خریدے تھے لہذا اسے بجلی کا پہلا کنکشن دیا گیا تھا لیکن اس بارے میں دوسری رائے یہ ہے کہ کیونکہ یہ عمارت نیپئر روڈ کے سنگم پر واقع ہے اور نیپئر روڈ اس وقت سے لے کر آج تک ایک معاشی حب کے طور پر جانا اور مانا جاتا ہے لہذا سب سے پہلے بجلی کے کنکشن اس معاشی حب کو دیاگیا۔ اس کے بعد بجلی کا دوسرا کنکشن پریس والی بلڈنگ جوکہ لی مار کیٹ کے علاقے میں واقع تھی ،آج اس کی جگہ ایک جدید عمارت نے لے لی ہے کو دیا گیا ۔اس کے بعد لوگوں نے گھروں میں بھی بجلی کے کنکشن لینا شروع کر دیے ،مگر ان کی تعداد انتہائی مختصر تھی گوکہ اس وقت گھریلو صارفین کے لئے دو پیسے فی یونٹ، جبکہ تجارتی مقصد کے لئے ایک آنہ فی یونٹ کے حساب سے وصول کی جاتی تھی۔ اس زمانے میں شہر کراچی میں بجلی کے استعمال کے لئے بلدیہ الیکٹرک سپلائی کر نے والی پرائیویٹ کمپنیوں کو 35000 روپے ماہوار ادا کیا کرتی تھی۔

بجلی کے آجا نے کے باوجود 1925 تک کراچی کی سڑکوں پر بجلی کے بلبوں کے ساتھ تیل اور پیٹرول سے جلنے والے لیمپ استعما ل ہوتے رہے ،اس وقت تیل سے جلنے والے لیمپوں کی تعداد 1196 پیٹرول سے جلنے والے لیمپ 325 کٹسن لیمپ 261 بجلی کے بلب 338 تھے اور مجموعی طور پر شہر کی سڑکوں اور چوراہوں کو روشن رکھنے کے لئے 2195 بلب گیس بتیاں اور لالٹین روشن کیے جاتے تھے۔ 1945 تک شہر میں کل 240 سے 245 یونٹ تک بجلی استعمال ہوتی تھی۔

ماضی میں بجلی کمپنی جوکہ آج کے ضیا الدین روڈ پر بنے اپنے دفتر اور پاؤرہاؤس سے اپنا نظام چلا تی تھی، جبکہ گارڈن کے علاقے میں مکی مسجد کے ساتھ واقع قدیم ترین دفتر بجلی کے بلوں کی وصولی کنکشن کی فراہمی اور شکایت دور کرنے کا کام کیا کرتا تھا۔ یہ عمارت آج بھی موجود ہے اور اپنے شاندار ماضی کا احوال سنا رہی ہے۔ اسی زمانے میں بعض لوگوں نے بجلی خرید کر گھروں اور صنعتوں کو کنکشن کی فراہمی کا کام بھی کیا ،جس میں سے پونا بائی نامی ایک خاتون جن کے نام سے رنچھوڑ لائن میں ایک واچ ٹاور بھی بنایا گیا ہے پرانی این ای ڈی بلڈنگ میں پونا بائی پاور ہاؤس کے نام سے ایک ایسی ہی کمپنی قائم کی تھی، جس کی قدیم عمارت اور بلند چمنی اور اس کی دیوار پر لگی پونا بائی پاور ہاؤس کی تختی کو آج بھی دیکھا جا سکتا ہے۔

اس کے بعد بجلی کا نظام کراچی الیکٹرک کارپوریشن نے سنبھالا اور اس نظام کو وسعت دیتے ہوئے پورے شہر میں بجلی کے تاروں کا جال بچھاتے ہوئے شہر کراچی کو روشن اور منور کر دیا بعد ازاں جنرل پر ویز مشرف کے دور میں کے ای ایس سی کی نجکاری کر دی گئی اوراس کے بعد کراچی الیکٹرک کے نام سے پرائیویٹ کمپنیوں نے کام شروع کیا ۔