ایسا تھا میرا کراچی کچھ یادیں کچھ باتیں

May 02, 2019

زینت حسام

مجھے میٹھا در کے اُس گھر کا صرف لکڑی کا وہ زینہ یاد ہے، جس پر چلنے سے دھمک پیدا ہوتی تھی۔ ہم بچے اس پر کود کود کر چڑھتے اترتے وہ دھمک ایک گونج میں بدل جاتی۔گھر کا فرش پرانی وضع کے خوبصورت نمونے والے ٹائلوں سے بناتھا۔ میٹھا در کے بازار میں واقع اس چھوٹے سے چار منزلہ دکان کے نچلے حصے میں جوتوں کی دکان تھی اور ہر منزل پر دو کمروں پر مشتمل ایک فلیٹ۔جب میں پانچ برس کی ہوئی توہمارا مشترکہ خاندان میٹھا در سے اٹھ کر پیر الہیٰ بخش کالونی کے ایک دو منزلہ مکان میں منتقل ہوگیا، جس میں لگے امرود کے پیڑوں کی پھل دار شاخیں دوسری منزل کے کمرے کی کھڑکی اور چھجے تک آتی تھیں۔ ہم بچے چلچلاتی دوپہر کی خاموشی میں کچے امرود توڑتوڑ کر کھاتے اور پیر کالونی کی خاک آلود گلیوں میں کھیلا کرتے۔ایک سال بعد پھر نقل مکانی ہوئی ۔اب ہم سب لوگ شہید ملت روڈ سے متصل پنجابی سودا گران ہاوسنگ سوسائٹی میں واقع کرائے کے دو منزلہ مکان چلےگئے ، جس میں چار فلیٹ تھے۔ایک فلیٹ میں دہلی کا ایک مختصر سا خاندان تھا۔ والدین اور دو لڑکے، باقی تین فلیٹوں میں بڑے ابا، چچا اور ابا اپنے اپنے ڈھیر سارے بچوں کے ساتھ رہائش پذیر ہوئے۔ یہ1959ء کی بات ہے۔تب کراچی کی زمین ہم بچوں کےلئے وسیع کائنات تھی۔ سوسائٹی میں اکا دکا مکانات تھے۔ ہماری گلی میں صرف تین مکان تھےدوسری گلیوں میں بھی یہی صورتحال تھی۔ ہر گھر کے احاطے اور احاطے سے باہر مختلف قسم کے پیڑ پودےلگے تھے، امرود، آم، شریفے، گلاب، چنبیلی، موتیلا احاطے کے اندر اور باہر بادام، جامن، املی، نیم، گل مہر، بوگن ویلیا۔ہم بچوں کا غول زیادہ وقت باہر ہی منڈلاتا رہتا۔ ہم گلیوں اور سڑکوں سے سگریٹوں کے خالی پیکٹ اکٹھا کرکے ان کے قلعے اور مینار بناتے، جن کو بنانے سے زیادہ ڈھانے میں لطف آتا۔ کانچ کی چوڑیوں کے ٹکڑے چن کر انہیں آگ دکھاکر زنجیریں تیار کی جاتیں۔ تب کراچی میں کوڑے کرکٹ کے ڈھیرنہیںہوتے تھے،جیسے آج کل ہیں۔ پلاسٹک کی تھیلیوں کا رواج نہ تھا۔ کاغذکے یا پھر سلے ہوئے کپڑے کے تھیلوں میں سودا آتا تھا۔کراچی میں تتلیاں بھی بے تحاشہ ہوتی تھیں، خاص طورپر برسات کے بعد تتلیاں امنڈ آتیں۔بارش کے بعد میدان میں بیر بہوٹیاں بہت ہوتیں اور سب بچے ماچس کی خالی ڈبیا لیے ہوئے بیر بہوٹیوں کو پکڑنے میں شام کردیتے۔آج یہ بات یاد کرتے ہوئے بھی عجیب سا محسوس ہوتا ہے کہ کراچی میں کبھی بچے تتلیاں اور بیر بہوٹیاں پکڑا کرتے تھے، یا یہ کہ کبھی یہاں قدم قدم پر بڑے بڑے سبز پتوں والے بادام کے پیڑ ہوتے تھے اور زمین پکے ہوئے سرخ باداموں سے بھری رہتی تھی۔ رفتہ رفتہ کراچی سے بادام، امرود، جامن، شریفے اور املی کے پیڑ غائب ہوتے گئے اور شہر سفید ے کے لپیٹ میں آگیا۔

ابا کو گاڑی چلانے کا بڑا شوق تھا وہ سیکنڈ ہینڈ گاڑی خریدتے اور ہرسال گاڑی تبدیل کرتے۔ کبھی آسٹن، کبھی ہلیمین فورڈ کی سفید اسٹیشن ویگن کی یاد بے حد واضح ہے۔ وہ ہم بچوں کو بہت پسند تھی۔ پچھلے حصے میں بیٹھ کر ڈگی کا دروازہ کھلا رکھا جاتا۔ خاندان کے تمام بچوں کو گاڑی میں بھر کر ابا سیر کرانے لے جاتے۔ کلفٹن کوٹھاری پریڈ ہم بچوں کی پسندیدہ جگہ تھی، ہم سب گنبد نما کھلی عمارت کے اطراف جودھ پوری پتھر کی بنی چکنی ڈھلان پر چڑھ کر پھسلا کرتے۔ اتوار کے اتوار ہاکس بے، سینڈزپٹ اور پیراڈائز پوائنٹ کا چکر لگتا۔ اکثر شام کو صدر میں واقع کیفے جارج میں ہم بچوں کو آئس کریم کھلانے لے جاتے۔ منگھو پیر بھی ایک دو دفعہ گئے۔ سٹی ریلوے اسٹیشن اور ائیرپورٹ بھی ۔ سال میں ایک دفعہ ایک تفریح کا موقع بند رروڈ پر بھی آتا تھا۔و ہ دس محرم کو نکلنے والے تعزیے اور علم کے بڑے جلوسوں اور ماتم کے دیدار کا موقع ہوتاتھا۔اُس زمانے میں لوگ گھروں کے دروازے کھلے ہی رکھتے تھے اور بندر روڈ پر رہنے والے اتنے مہمان نواز تھے کہ سب کو چھتوں اور منڈیرں پر ٹک کر جلوس دیکھنے کی اجازت خوشی سے دے دیتے، خاص طورپر بچوں کو۔اُسی زمانے میں ابا نے سراج الدولہ روڈ کے اُس پار دارالامان ہاوسنگ سوسائٹی میں زمین خریدی۔ مکان کی تعمیر شروع ہوئی۔پلاٹ پر جانے کے بہانے ہم آس پاس کی گلیوں اور تھوڑے فاصلے پر واقع پہاڑی تک جانے لگے۔ یہ پہاڑی جو اب ہل پارک کہلاتی ہے، بڑے بڑے پتھروں، جنگلی جھاڑیوں، خودرو پودوں اور گھاس پھوس سے ڈھکی تھی۔ پہاڑی پر دو تین پگڈنڈیاں تھیں، جنہیں لوگ سوسائٹی کے دوسرے حصے کو عبور کرکے ڈرگ روڈ( شارع فیصل) تک پہنچنے کےلئے استعمال کرتےتھے۔ شہید ملت روڈ اس زمانے میں ایک تنگ اور ٹوٹی پھوٹی ہوا کرتی تھی جو ڈرگ روڈ کو جیل روڈ سے ملاتی تھی۔یہ سڑک ستر کی دہائی کے وسط میں چوڑی ہوئی۔

وہ پرسکون دور تھا کراچی کا۔ساٹھ کے عشرے میں طارق روڈ پر کیفے لبرٹی کے آس پاس چند دکانیں کھل چکی تھیں، یہ اسٹیشنری، کتابوں اور کپڑوں کی دُکانیں تھیں۔ لندن بک ہاؤس، گلستان بک اسٹال اور پچھلی گلی میں(جواب دوپٹہ گلی ہے) ایک دو اسٹیشنری کی دکانیں اور ایک چھوٹی سی لائبریری بھی ہوتی تھی۔ طارق روڈ ہمارے گھر سے پندرہ منٹ کے فاصلے پر تھا۔

کتابوں کا شوق ہم اُس زمانے میں ایک چلتی پھرتی لائبریری سے بھی پورا کرتے تھے، اس لائبریری کا مالک ایک نرم گو، شفیق چہرے والا ادھیڑ عمر کا آدمی تھا، جو ایک سائیکل کی پشت پر بندھے بڑے تھیلے میں ہم بچوںکے لیے کتابیںلیے سوسائٹی میں گلی گلی آواز لگاتا گھومتا تھا۔ یہ لائبریری والا ہفتے میں دو تین دفعہ ہماری گلی میں بھی آتا تھا۔ ہم بچے اس کا بے چینی سے انتظار کرتے تھے۔

نیا گھر بننے میں چار پانچ سال لگے، وجہ مالی مشکلات تھیں۔ آخر جب کرائے کے مکان میں رہنا مشکل ہوگیا تو ابا نئے مکان میں اٹھ آئے، گوکہ ابھی چھوٹے موٹے کافی کام باقی تھے۔ گھر میں گیٹ بھی نہیں لگا تھا۔ لیکن ہم سب اپنے کمروں کے دروازے کھلے رکھ کر اس زمانے میں چین کی نیند سوتے تھے۔ اب تو کراچی کے وہ دن مٹھی میں ریت کے مانند ہاتھ سے نکل چکے ہیں۔

گھر کے آنگن اور اس چھوٹے سے باغیچے کے ساتھ ایک بے حد خوش کن اور منفرد یاد وابستہ ہے۔ وہ یاد ہے چارلی چپلن کی فلموںکی۔ ابا کے پاس دو پروجیکٹر تھے۔ رات کے کھانے کے بعد باغیچے کی دیوار سے لگی کپڑے سکھانے کی ڈوری پر ایک سفید دھلی ہوئی چادر لٹکائی جاتی، ابا پروجیکٹر سیٹ کرتے، چھوٹے پایوں والے نواڑ کے دو پلنگ اور گھر کی تمام کرسیاں نکال کر آنگن میں بچھا دی جاتیں،آنگن اور کمروں کی بتیاں گل کر دی جاتیں اور ہم بچے اپنی اپنی سیٹیں سنبھال لیتے۔ کیاری میں لگی رات کی رانی اور چنبیلی کی مہک سے لبریزکراچی کی خوش گوار ہوا آنگن میں تیرتی، ہم سب چارلی چپلن کی مزیدار حرکتوں پر ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوجا تے۔ ابا کے دوست عالم صاحب انوسٹمنٹ پروموشن بیورو میں ڈائریکٹر تھے اور جمشید کوارٹرز میں ان کی رہائش تھی۔ دوسرے دوست وحید صاحب فریئر روڈ کے ایک فلیٹ میں رہا کرتے تھے، پھر انہوں نے بی ای سی ایچ ایس سوسائٹی میں مکان بنوایا اور وہاں منتقل ہوگئے۔ اکثر دوپہر میں امی چھوٹے بچوں کو چچی کی نگرانی میں اور ایک سواتی آیا کے حوالے کرکے میرے ساتھ چپکے سے نکل جاتیں۔ ہم دونوں رکشا میں عالم صاحب کے گھر پہنچتے۔ مسز عالم اور ان کی بیٹی شائستہ جو میری ہم عمر تھی، فلم دیکھنے کےلئے بالکل تیار ہوتیں۔ وہ بھی اپنے چھوٹے بچوں کو پڑوس کے حوالے کرتیں اور ہم چاروں پیدل فلمستان یا ناولٹی سینما پہنچتے اور سکون سے میٹنی شو دیکھتے تھے۔

1960ء کی دہائی کے بعد کتنی تبدیلیاں آگئی ہیں۔ اتنی سنگین تبدیلیوں کےہم متحمل نہیں ہوسکتے ہیں۔ ویسا کراچی تو لا نہیں سکتے،بس یہ یادیں ہی باقی رہ گئی ہیں۔