نگاہ بلند، جاں پُر سوز

May 04, 2019

قوتو ں، صلاحیتوں، حوصلوں، اُمنگوں ، جفا کشی ،بلند پروازی اور عزائم کا دوسرا نام نوجوانی ہے ۔ جوانی کے دور میں انسان کے ارادے، جذبے اور توانائی اپنے عروج پر ہوتے ہیں، جو ملک و قوم اپنے نوجوانوں کے جذبوں اور توانائی سے استعفادہ حاصل نہ کر سکیں تو وہ خسارے میں ہے۔ اگر ہم اعداد و شمار کا جائزہ لیں تو ملک کی کُل آبادی کا تقریباً 60 فیصد حصّہ نوجوانوں پر مشتمل ہے، جو باصلاحیت ہیں، جن کے عزائم بلند ہیں، جو ملکی حالات سے مایوس نہیں ہیں اور جنہیں اپنے ملک و قوم سے محبّت ہے۔ ضرورت صرف بہترین منصوبہ بندی کی ہے کہ کس طرح نسل نو اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ملک و قوم کی تعمیر و ترقی میں اپنا بھرپور کردار ادا کرسکے، جس کے لیے حکومت، والدین، اساتذہ اور خود نوجوانوں یعنی سب کو مل کر کام کرنا ہے۔ لیکن نوجوانوں کا کردار سب سے اہم ہے، کیوں کہ ان کے عملی اقدامات پر ہی ملک و قوم کی ترقی کا انحصار ہے۔

آج کے نوجوانوں کو اپنی اہمیت و طاقت کو پہچانا ہوگا، کسی بھی ملک و قوم کی کامیابی و ناکامی، فتح و شکست، ترقی و تنزل اور عروج و زوال میں نوجوانوں کا اہم کردار ہوتا ہے۔ ہر انقلاب چاہے وہ سیاسی ہو یا اقتصادی و معاشرتی ، سائنسی میدان میں ہو یا اطلاعاتی ونشریاتی میدان میں، غرض سبھی میدانوں میں نوجوانوں کا کردار نہایت ہی اہم اور کلیدی ہوتا ہے۔ روس کا انقلاب ہو یا فرانس کا،عرب بہار ہو یا مارٹن لوتھرکنگ کا برپا کردہ انقلاب، ہر انقلاب کو برپا کرنے کے پیچھے نوجوانوں کا اہم حصہ کار فر ما رہا ہے۔ ماضی میں بھی جیسا کہ تاریخ سے ثابت ہے ہر چھوٹی بڑی تبدیلی نوجوانوں ہی کے ذریعے آئی۔ آج بھی ہر چھوٹی بڑی تنظیم یا تحریک چاہے سیاسی ہو یا مذہبی، سماجی ہو یا عسکری، ان میں نوجوان ہی پیش پیش ہیں۔ یہاں تک کہ مستقبل کے حوالے سے بھی مختلف تنظیمیں انھی پر اپنی نگاہیں اور توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ کیوں کہ یہ ہی تو ہیں جو کسی بھی ملک و قوم کا حقیقی سرمایہ اور اثاثہ ہیں۔ قوموں کی تاریخ میں نوجوان نسل کا کردار مثالی رہا ۔ یہ ترقی کی راہ میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اگر نوجوانوں کی ملکی تعمیرو ترقی میں کردار کے حوالے سے نگاہ دوڑائی جائے تو اس ضمن میں حکم الامت علامہ محمد اقبال کے افکار اس کی بھر پور حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ علامہ محمد اقبال جنہیں بجا طور پر اُمتِ مسلمہ کا معمار کہا جاسکتا ہے، آپ نے اُس وقت قوم کے نوجوانوں کو ایک فکر سے آشنا کیا۔ جب قوم اپنے بدترین اور ہمہ جہت دوِر زوال و انحطاط سے گزرہی تھی۔ جب قوم نے اپنی سو چ اور فکر کا مرکز و محور عیش و عشرت اور جاہ و منصب کو تصور کر لیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ قوم تساہل پسندی، غربت و افلاس، یاس و قنوطیت، جہالت اور پسماندگی کی دلدل میں دھنسی جارہی تھی۔

جس طرح قیامِ پاکستان کی تحریک میں نوجوانوں نے ہر اول دستے کا کردار ادا کیا تھا، جس طرح اس مشکل وقت میں نوجوانوں نے بانیِ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کا دست و بازو بن کر قوم کے ہر فرد کے شانہ بشانہ چل کر وطن عزیز کے خواب کو شرمندہ تعبیر کیا۔ آج ایک بار پھر نوجوانوں میں ملک و قوم کی ترقی و خوشحالی کی خاطر وہی جذبے، جوش اور لگن کی ضرورت ہے۔ بانی پاکستان نوجوانوں کو ملک کی حقیقی قیادت کے روپ میں دیکھتے تھے جس کا تصور آپ کے، ’’کام، کام اور صرف کام‘‘ کے نعرے سے بخوبی ملتا ہے۔ یعنی مسلسل محنت و لگن سے ہی اپنے مقاصد کا حصول کیا جاسکتا ہے۔ یہ محنت صرف عملی میدان میں ہی نہیں بلکہ اس سے قبل دورِ طالب علمی میں بھی کرنا ہے۔

اس حوالے سے بنیادی چیز تعلیم کا حصول ہے، اس کا مطلب مہنگے اور مشہور تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنا نہیں ہے، بلکہ اپنے وسائل اور استعداد کے مطابق جہاں بھی تعلیم حاصل کریں، ایک ایک لمحہ سیکھنے کے عمل میں گزاریں، اس وقت کو ضایع کریں اور زیادہ سے زیادہ علم حاصل کرنے کی کوشش کریں، ایسا علم جو آپ کو بہترین شہری اور اچھا انسان بنا سکے، آپ کی صلاحیتوں کو ابھارنے میں معاون ثابت ہو۔ جب آپ میں لکھنے، پڑھنے،بولنے اور سمجھنے کی صلاحیت ہوگی تب ہی آپ ملکی معاملات میں اپنا کردار بہتر طور پہ ادا کر سکیں گے۔ تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ کوئی نا کوئی ہنر سیکھنے کی کوشش بھی ضرور کریں، یہ ہنر آپ کے لئے بھی کارآمد ہوگا۔ عملی زندگی میں ایک سے زیادہ راستے کھل جائیں گے۔ اکثر اوقات ہم معاشرے کے چند افراد کو ان کے شعبوں کے باعث اپنے جیسا انسان سمجھنے کے لئے تیار نہیں ہوتے، کوئی لوہار ہے، تو کوئی کمہار، کوئی مستری، تو کوئی پلمبر، جب ہم خود ان میں سے کوئی ہنر سیکھیں گے تو ہمیں احساس ہوگا کہ یہ کوئی ذاتیں نہیں ہیں بلکہ یہ تو بس کچھ ہنر ہیں جنھیں سیکھ کر لوگ اپنی روزی کما رہے ہیں۔

اس وقت نوجوانوں کو باخبر رہنے کی سخت ضرورت ہے۔ انہیں اپنی تاریخ سے بھی اور مستقبل میں کیا ہوتا نظر آرہا ہے اس سے بھی باخبر رہنا چاہیے۔ یاد رکھیں یہ نسل نو ہی ہیں جنہیں آگے جا کر ملک کی باگ ڈورسنبھالنی ہے، اس لئے انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ماضی کی غلطیاں کیا تھیں جنہیں اب نہیں دھرانا اور بہترمستقبل کے لیے موجودہ وسائل اور ایجادات کا کیسے صحیح استعمال کرنا ہے۔ کتب بینی کی عادت ڈالیے، اچھی اور علمی صحبت تلاش کیجئے، انٹر نیٹ کی سہولت سے مثبت طور پر استفادہ حاصل کیجئے، فیس بک اور واٹس اپ وغیرہ وقت ضائع کرنے کا باعث بھی بن سکتی ہیں اور ان سے فائدہ بھی اٹھایا جا سکتا ہے۔ آپ ان سے فائدہ اٹھانے والے بنیے۔ آپ کو اپنے اردگرد رہنے والے انسانوں اوران کے مسائل سے بھی باخبر رہنا ہو گا تاکہ ایک دن جب آپ ڈاکٹر، جج، وکیل، صحافی، استاد یا کسی بھی پیشے میں عملی طور پر مصروف عمل ہوں تو معاشرے میں موجود نسلی، لسانی اور طبقاتی اونچ نیچ سے بالا تر ہو کر ناانصافیوں کو دور کرنے کا باعث بنیں۔ جس معاشرے میں انصاف ہوتا ہے وہی معاشرہ ترقی کرتا ہے اور پھر اجتمای طور پر پوری قوم ہی ترقی کی رہ پہ گامزن ہو جاتی ہے۔

نوجوان ساتھیو !آپ کو اپنی زندگی میں نظم و ضبط اور اپنے کام میں حسن و ترتیب بھی ضرور پیدا کرنی ہوگی۔ آپ کتنی ہی محنت سے کوئی کام کریں لیکن اگر اس میں بےترتیبی ہوگی تو نتیجہ وہ نہیں حاصل ہوگا جو حاصل ہونا چاہیے، اگر آپ اپنے اردگرد نظر ڈالیں تو نہ صرف محنت کرتا ہوا تو تقریباً ہر شخص نظر آئے گا بلکہ محنت کرکرکے ہلکان ہوتا بھی نظر آئےگا ۔ لیکن اس محنت کا کوئی قابل ذکر نتیجہ دکھائی نہیں دیتا، اس کی وجہ یہی ہے کہ محنت اور توانائی کا زیادہ حصّہ بے ترتیبی اور ناقص منصوبہ بندی کی نذر ہو جاتا ہے نیز اپنے آپ کو بھی ایک اچھے نمونے میں ڈھالنے کی کوشش کرنی ہو گی۔ گھر کے اندر بھی اور گھر کے باہر بھی آپ کااخلاق ایسا ہو کہ لوگ آپ سے خوش ہوں اور آپ کی صحبت میں رہنا پسند کریں، قوم کی تعمیر ، آپ کے خوش اخلاق اور خاص طور پہ گھر کے ماحول پر منحصر ہے۔ اس کو اس طرح سمجھیے کہ ایک گھر میں رہنے والے افراد ہی سے تو معاشرہ بنتا ہے اور معاشرے کے افراد مل کرہی ایک قوم تشکیل دیتے ہیں، آج گھروں کے اندر رشتوں میں چپقلش اور نااتفاقی بڑھتی جا رہی ہے، جب اس ماحول سے نکل کر ایک فرد باہر کے افراد سے معاملہ کرتا ہے تو مزاج کی برہمی ان معاملات پر بھی اثر انداز ہونا شروع ہوجاتی ہے۔

جب بیزار اور الجھی کیفیت میں ذاتی اور ملکی مسائل حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو اس کاکوئی کارآمد نتیجہ برآمد نہیں ہوتا، لہٰذا ماحول کو بدلنے کی کوشش کرنی ہے، ایک بیٹا ،بیٹی یا بہن ،بھائی کی حیثیت سے اپنے گھر میں، طالب علم ، دوست اپنے تعلیمی ادارے اور اپنے محلّے کے افراد کے ساتھ معاملات میں آپکی ذات لوگوں کے لئے سکون اور خوشی کا باعث ہو، آپ تلخیوں اور غلط فہمیوں کو دور کرنے والے ہوں نہ ہی ان کو بڑھاوا دینے والے، نوجوان اگر اپنی ذات سے اس چیز کی ابتدا کریں تو کچھ وقت تو ضرور لگے گا، لیکن یہ بےسکونی اور جھنجھلاہٹ کی فضا ضرور بدلے گی ۔ اس مملکت خدادا کے حصول کی جدجہد میں آپ ہی جیسے نوجوان تھے جو بانی پاکستان قائد اعظم اور ان کے ساتھیوں کے دست و بازو بنے تھے۔آج اس ملک کی تعمیر و ترقی میں بھی آپ ہی کو سب سے اہم کردار ادا کرنا ہے، آپ ہی دنیا کے سامنے اپنے ملک و قوم کی شناخت ہیں اور آپ ہی کو اپنی قوم میں دوبارہ اس کی عظمت اور حیثیت کے احساس کو اجاگر کرنا ہے۔ آپ اپنے بزرگوں کی امید ہیں اور اپنے بعد آنے والی نسل کے لئے ایک مثالی نمونہ۔ اپنی زندگی کے ہر لمحے کو اس احساس کے ساتھ گزاریں گے تو۔ کوئی وجہ نہیں ہم ترقی نہ کرسکیں۔