صحت و استطاعت کے باوجود ’’روزہ‘‘ نہ رکھنا

May 05, 2019

ڈاکٹر سعید احمد صدیقی

ہادیِ برحق، نور ِمجسّم، رحمۃ للعالمین ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے کسی شرعی عذر یا کسی مرض کے بغیر رمضان المبارک کا روزہ چھوڑ دیا، تو اگرچہ وہ بعد میں اسے رکھ لے، تب بھی ساری عمر کے روزوں سے اس کی تلافی نہیں ہو سکتی‘‘۔

حدیثِ قدسی حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’ابنِ آدم کے ہر عمل کا ثواب بڑھتا رہتا ہے،اُسے ایک نیکی کا ثواب دس گُنا سے سات سو تک ملتا ہے، اور اس سے زائد اللہ جتنا چاہے، اُتنا ملتا ہے، مگر روزے کے متعلق اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ ’’وہ تو میرے لیے ہے، اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔ روزے دار اپنی خواہشات اورکھانے پینے کو میری وجہ سے چھوڑتا ہے۔‘‘

صحابیِ رسولؐ حضرت سہل بن سعد ساعدیؓ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جنت کے دروازوں میں ایک خاص دروازہ ہے، جسے’’باب الرّیّان‘‘ کہا جاتا ہے، اس دروازے سے قیامت کے روز صرف روزے داروں کا داخلہ ہوگا، اُن کے سِوا اس دروازے سے کوئی اور داخل نہیں ہوسکے گا، اُس دن پُکارا جائے گا کہ کہاں ہیں وہ بندے جو اللہ کے لیے روزے رکھا کرتے تھے (اور بُھوک پیاس کی تکلیف اُٹھایا کرتے تھے) وہ اُس دن پکار پر چل پڑیں گے، اُن کے سِوا اس دروازے سے کسی اور کا داخلہ نہیں ہوسکے گا۔ جب وہ روزے دار اس دروازے سے جنت میں پہنچ جائیں گے تو یہ دروازہ بند کردیا جائے گا، پھر کسی کا اس سے داخلہ نہیں ہوسکے گا۔‘‘ (بخاری / الجامع الصحیح)

’’روزہ ‘‘اسلام کا بنیادی رکن اور ایک اہم دینی فریضہ ہے،اسلام کے نظام عبادت میں اسے بنیادی اہمیت حاصل ہے۔آج دیکھنے میں یہ آ رہا ہے کہ بدقسمتی سے ہمارا نوجوان طبقہ بلا کسی شرعی عذر کے رمضان المبارک کے روزے چھوڑ دیتا ہے اور اسے اس بات کا ادراک ہی نہیں ہوتا کہ وہ کس قدر محرومی اور گناہ کا کام کر رہا ہے؟ وہ کتنے اجر و ثواب اور فضیلت سے محروم ہو رہا ہے جس کی بشارت صادق و امین ﷺ نے دی ہے۔

آج دین کی محنت نہ ہونے،معاشرتی بگاڑ اور منفی پروپیگنڈے کی بہ دولت مسلم معاشرے میں ایک ایسے طبقے نے جنم لیا ہے ،جو شعائر اسلام کا کھلم کھلا مذاق اڑا رہا ہے اور اپنے لئے جہنم کی آگ کو بھڑکا رہا ہے۔ رمضان المبارک میں آپ کو ایسے ناپسندیدہ جملے عموماً سننے کو ملتے ہوں گے ’’میاں روزہ وہ رکھے، جس کے پاس کھانے پینے کو نہ ہو‘‘ (العیاذباللہ) یا ’’میاں روزہ، ووزہ کچھ نہیں ہوتا، یہ سب مولویوں کا کھیل ہے‘‘ اور اب تو یہ بھی سننے کو مل رہا ہے کہ رمضان کے احترام میں کھلے عام کھانے، پینے پر پابندی سے لوگ بھوکے، پیاسے مر جائیں گے وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب نادانی، لاعلمی، قرآن و حدیث سے دوری، اللہ تعالیٰ کا استحضار نہ ہونا اور نبی پاک ﷺ کی تعلیمات سے دوری کا نتیجہ ہے۔

دوسری طرف آج بھی ایسے نیک بخت لوگ موجود ہیں جو رمضان المبارک کے ایک ایک لمحے کے قدردان ہیں اور اپنے آپ کو رمضان المبارک کے اکرام کےلیے وقف کر دیتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت و مغفرت حاصل کرنے کےلیے خود کو تھکا دیتے ہیں۔ یہی وہ خوش نصیب ہیں جنہیں عیدالفطر کی حقیقی خوشی نصیب ہوتی ہے اور عید کی نماز کے بعد جب وہ اپنے گھروں کو لوٹتے ہیں تو فرشتوں کی طرف سے یہ بشارت سنتے ہیں کہ اپنے گھروں کی طرف بخشے بخشائے لوٹ جائو۔ حضرت امام غزالیؒ نے لکھا ہے کہ رمضان المبارک کے گزر جانے کے بعد پانچ مہینے اس حسرت اور افسوس میں گزر جاتے ہیں کہ ایسے عظیم الشان مہینے کی قدردانی نہ ہو سکی اور آئندہ آنے والے چھ مہینے آنے والے رمضان کے استقبال اور تیاری میں صرف ہوتے ہیں۔ یہ ان نیک لوگوں کا حال ہے جو اہل بصیرت تھے اور آج ہم نہ صرف عمل نہ کرنے کی وجہ سے ان فیوض و برکات سے محروم ہو رہے ہیں، بلکہ اس ماہ مقدس کے بارے میں نازیبا کلمات کہہ کر عذاب الٰہی کو دعوت دے رہے ہیں۔

جو لوگ مادی منفعت اور نفسانی لذتوں ہی کو اپنا سب کچھ سمجھتے ہیں، ذرا ان کی اندرونی زندگی میں جھانک کر دیکھئے۔ وہ راحت و آرام کے سارے اسباب و وسائل اپنے پاس رکھنے کے باوجود سکون قلب کی دولت سے محروم ہیں، اس لئے کہ انہوں نے اپنے گرد و پیش جو دنیا بنائی ہے، وہ چاہے دنیا کے سارے خزانے لا کر ان کے قدموں پر ڈھیر کر سکتی ہو لیکن قلب کو سکون اور روح کو قرار بخشنا ان کے بس کی بات نہیں۔انسان اس کائنات کا خالق و مالک نہیں ،بلکہ وہ مخلوق ہے۔ اس کا مقصد زندگی یہ ہے کہ وہ اللہ کی بندگی کرے، اس لئے اس کی فطرت یہ چاہتی ہے کہ وہ کسی لافانی ہستی کے آگے سرنگوں ہو، اس کی عظمتوں پر اپنے عجز و نیاز کی پونجی نچھاور کرے، مصائب میں اس کے نام کا سہارا لے، اسے مدد کے لئے پکارے اور زندگی کے مشکل ترین لمحات میں اس کی توفیق سے رہنمائی حاصل کرے۔

انسانی زندگی میں تبدیلی قبول کرنے کی صلاحیت یعنی اپنی عادات و اطوار کو ضرورت کے مطابق تبدیل کرنا اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ایک مسلمان کے لئے تبدیل ہونے کی صلاحیت اس لئے ضروری ہے کہ جیسے جیسے اس کے علم میں اللہ تعالیٰ کے احکامات اور رسول اکرم ﷺ کی ہدایات آتی ہیں اسے اپنے آپ کو ان کے مطابق تبدیل کرنا ہوتا ہے ،لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ خواہش اور ارادے کے باوجود ہم اپنے آپ کو بدلنے میں کامیاب نہیں ہو پاتے، لیکن رمضان کا مہینہ آتا ہے اور ہماری زندگی میں تبدیلی لے آتا ہے۔ رمضان المبارک میں کھانے،پینے، سونے، جاگنے کے اوقات بدل جاتے ہیں، گفتگو کے موضوعات بدل جاتے ہیں، باہمی تعلقات میں نصیحت و خیرخواہی اور محبت و غم گساری بڑھ جاتی ہے، آپ خود اپنے نگراں و محتسب بن جاتے ہیں، تنہائی میسّر ہو اور سہولیات میسّر ہوں ،تب بھی اپنے آپ کو گناہوں سےروکے رہتے ہیں، کیوں؟ اس لئے کہ آپ نے تبدیلی کو قبول کر لیا ہے۔ خود لڑائی، جھگڑا، گالی گلوچ کرنا تو دور کی بات کوئی دوسرا بھی کر رہا ہو تو اسے سمجھاتے ہیں، بھائی روزہ ہے، ایسا نہ کرو۔ اپنے فرائض منصبی کو اور زیادہ دیانت داری سے انجام دیتے ہیں، غیر ذمہ داری اور لاپروائی سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔جب ہم قرآن مجید پڑھتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ اس کی پوری تعلیم تبدیلی کی دعوت سے عبارت ہے۔ وہ ہر درس نصیحت اور واقعۂ عبرت کے بعد یہ کہتا ہے کہ ’’اب بھی تبدیل ہو جائو، پچھلی غلطیاں، کوتاہیاں سب بھول جائو، میں معاف کر دوں گا، نیا آغاز کرو اور میری جانب دوڑ کر آئو‘‘ پس دوڑو اللہ کی طرف اور دوڑ کر چلو اپنے رب کی مغفرت اور جنت کی طرف۔ قرآن کہتا ہے کہ کیا ایمان والوں کےلیے وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کے ذکر سے پگھل جائیں یعنی اب بھی وقت نہیں آیا کہ تم بدل جائو۔ یہ ایک محکم اصول قرار پایا کہ…

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی

نہ ہو جسے خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ ہم رمضان المبارک کی مقدس ساعتوں میں نہ صرف اپنے آپ کو تبدیل کریں،بلکہ ہم اپنے آپ کو دین کے قریب محسوس کریں۔ امت مسلمہ، وطن عزیز اور دنیا میں امن و سلامتی کےلیے خصوصی دعائیں کریں۔