’’دیوان گدومل‘‘ کلہوڑا خاندان کا زیرک سفارت کار

May 07, 2019

دیوان گدومل تاریخِ سندھ کی اہم شخصیت ہیں۔ اس کے خاندان نے کلہوڑوں کی سرپرستی میں نمایاں ترقی کی اور اپنی خدمات کی وجہ سے بڑا نام پیدا کیا ہے۔ دیوان گدو مل کے آبائواجداد ہندوستان کے رہنے والے تھے۔ تحفتہ الکرام کے حواشی میں سید حسام الدین شاہ راشدی نے اس کا جو شجرئہ ِ نسب درج کیا ہے وہ یہ ہے۔

’’دیوان گدومل بن دیوان پینی مل بن کٹومل بن چوئتھرام بن اڑومل شاہو ری‘‘

دیوان گدومل کے واقعات اور حالات تاریخوں میں تفصیل سے نہیں ملتے ہیں لیکن ان کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے آبائواجداد میں جس شخص نے پہلی مرتبہ کلہوڑوں کی ملازمت کی تھی اس کا نام اڈیومل تھا۔ وہ حاجی پور سے سکھر پہنچا اور وہاں میاں آدم شاہ کلہوڑہ کی ملازمت حاصل کی جو کلہوڑوں کے جدِ اعلیٰ تھے بعد میں اس نے سکھر سے شکار پور پہنچ کر تجارت شروع کی اور چند ہی دنوں میں اس کا شمار مشہور ساہوکاروں میں ہونے لگا۔ پروفیسر عبدالحئی حبیبی نے تازہ نوائے معارک میں لکھا ہے کہ ’’اڈیومل کا نواسہ کلہوڑوں کے دربار میں مشیر مقرر ہوا اور بارہا کلہوڑوں کی طرف سے دہلی اور قندھار میں ان کا سفیر رہا۔ احمد شاہ ابدالی کے سندھ میں آنے کے وقت اس نے نمایاں خدمات انجام دیں‘‘ پروفیسر عبدالحئی حبیب کے اس بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ گدومل اڈیومل کا نواسہ تھا۔ لیکن اس کے نسب نامہ سے اس کی تصدیق نہیں ہوتی بلکہ پتہ چلتا ہے کہ وہ اڈیومل کا پوتا تھا۔

دیوان گدومل نے میاں نور محمد کلہوڑہ کے دربار سے وابستگی اختیار کی تھی اور اپنی صلاحیتوں سے کام لیتے ہوئے دیوان کے اعلیٰ مرتبے تک پہنچا تھا میاں نور محمد اس کی کارگزاری اور خدمات کی بڑی قدر کرتے تھے۔ جب احمد شاہ ابدالی نے سندھ پر یورش کی اور میاں نور محمد نے اس سے معاہدہ کیا تھا کہ وہ سالانہ خراج باقاعدگی سے قندھار بھجواتے رہیں گے۔ یک مرتبہ اس میں کسی وجہ سے تاخیر ہوگئی تو احمد شاہ ابدالی نے سردار جہاں کو حکم دیا کہ وہ اپنی سرکردگی میں سندھ لشکر لے کر جائے۔ سردار جہاں کے لشکر کی آمد کی خبر سندھ میں رہنے والوں کے لئے سراسیمگی کا سبب بن گئی۔ خود میاں نور محمد کو یہ سوچنا پڑا کہ یہ مصیبت کیوں کر ٹلے گی۔ لیکن اس کے چند دنوں بعد میاں نور محمد کو معلوم ہوا کہ خود احمد شاہ ابدالی سندھ پر چڑھائی کرنے آرہا ہے۔ مغلوں کے بعد درانیوں اور ابدالیوں نے سندھ میں جو لوٹ کھسوٹ مچائی تھی اس کی یاد دلوں سے محو نہیں ہوئی تھی۔ بربادیوں اور تباہیوں کے زخم تازہ تھے۔ دوبارہ کہیں پھر وہی صورت حال لوٹ کر نہ آ جائے۔ میاں نور محمد نے ضروری اقدامات پر توجہ دی۔ ابھی وہ اس سلسلے میں مصروف ہی تھے کہ 3محرم الحرام سنہ 1167ھ کو خبر پہنچی کہ احمد شاہ ابدالی محمد آباد کے قریب پہنچ چکا ہے اور اب اس سے جنوبی سندھ کا علاقہ زیادہ مسافت پر نہیں رہا ہے۔ میاں نور محمد کے لئے یہ صورت حال پریشان کن تھی۔ انہوں نے اسی وقت دیوان گدومل کو بلایا۔ احمدشاہ ابدالی کی لشکر کشی اور سیاسی صورت حال کی تفصیل بنائی اور حکم دیا کہ وہ سفیر کی حیثیت سے احمد شاہ ابدالی کے پاس جائے اور اسے یقین دلائیں کہ وہ اس سے منحرف نہیں بلکہ اس کے خراج گزار ہیں۔ دیوان گدومل نے واقعات کی نزاکت کو فوری بھانپ لیا اور ایک لمحہ ضائع کئے بغیر احمد شاہ ابدالی کے پاس جانے کے لئے نکل کھڑا ہوا احمد شاہ ابدالی سکھر میں قیام پذیر تھا۔ دیوان گدومل نےسکھر کے پل کے قریب واقع لشکر گاہ کے چکر لگائے لیکن اس کو احمد شاہ ابدالی نے ملاقات کی اجازت نہ دی گئی جب ملاقات کی اجازت کی کوشش میں تین چار روز گزر گئے تو کہیں جا کرشرف باریابی حاصل ہوا۔ جس وقت دیوان گدومل، احمد شاہ ابدالی کے حضور میں پہنچا۔ احمد شاہ ابدالی غضب ناک حالت میں تھا اور یوں محسوس ہوتا تھا کہ وہ سندھ کے رہنے والوں کو کسی قیمت پر معاف کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ دیوان گدومل انتہائی مردم شناس، تجربہ کار اور مدبر قسم کا شخص تھا۔ اس نے احمد شاہ ابدالی کے چہرے ہی سے اس کے عزائم تاڑ لئے اسی اثناء میں اسے یہ بھی معلوم ہوا کہ احمد شاہ ابدالی صوفیا اور علماء سے بڑی عقیدت رکھتا ہے۔ اس نے انتہائی بردباری، خوش اخلاقی سے اس سے گفتگو کی جب یہ دیکھا کہ احمد شاہ ابدالی کے غصہ کا اثر کم سے کم ہو گیا ہے تو چند بوریاں جن میں مٹی بھری ہوئی تھی اس کی نذر کیں۔

احمد شاہ ابدالی نے انتہائی اطمینان سے پوچھا کہ ان میں کیا ہے دیوان گدومل نے عاجزی سے کہا سندھ انتہائی غریب خطہ ہے۔ اس کے دامن میں اولیاء اور صوفیا کی قبروں کی مٹی کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے اور یہی اس علاقہ کا سب سے اہم اور قیمتی اثاثہ ہے۔ جو میں حضور کی نذر کر رہا ہوں۔ دیوان گدومل کے یہ جملے ا،حمد شاہ ابدالی پر انتہائی مؤثر ثابت ہوئے۔ اس نے اسی وقت اپنے درباریوں اور سپہ سالاروں کو بلا کر ہدایت کی کہ خراج کی وصولی کے سلسلے میں سندھ کے رہنے والوں پر سختی نہ کی جائے۔

اس زمانہ میں میاں نور محمد کا قیام تلہار میں تھا۔ وہاں سے وہ جیسل میر روانہ ہوئے۔ راستہ میں ان پر خناق کا حملہ ہوا۔ معالجوں نے ان کی جان بچانے کی کوشش کی۔ لیکن کامیابی نہیں ہوئی بالآخر اسی مرض میں وہ 12صفر سنہ 1167ھ کو وفات پا گئے۔ اس کے دوسرے روز تمام امرائے سندھ نے اتفاق رائے سے میاں محمد مرادیاب خان کو عمر کوٹ میں سندھ کا حکمراں تسلیم کر لیا گیا۔ لیکن اس کے لئے بھی دربار افغانی کی توثیق اور تصدیق ضروری تھی۔ دیوان گدومل احمد شاہ ابدالی کے ساتھ تھا اور سندھ کے سفارتی فرائض انجام دے رہا تھا۔ اس نے میاں مرادیاب خان کے استحقاق حکومت پر غور کرتے ہوئے دربار افغانی میں مدبرانہ طریقہ پر بات چیت کی اور یقین دلایا کہ میاں نور محمد کے خلف اکبر یعنی میاں مرادیاب خان ہی حکومت کے اصل مستحق ہیں۔ چنانچہ دیوان گدومل کی کوششوں سے میاں مرادیاب کو حکومت کا فرمانروا اور سربلند خان کا خطاب ملا۔ دیوان گدومل نے عمر کوٹ پہنچ کر میاں مرادیاب خان کو سندھ کا نظم و نسق سنبھالنے پر مبارک باد دی اور احمد شاہ ابدالی کا فرمان حوالے کیا۔ جس میں ان کو سربلند خان کا خطاب دیا گیا تھا۔ جب میاں غلام شاہ کی وفات کے بعد اس کے بیٹے میاں محمد سرفراز خان نے مسندِ خلافت سنبھالی۔ سندھ کے حالات کسی قدر اعتدال پذیر تھے اور سندھ احمد شاہ ابدالی کے حملوں سے دیوان گدومل کی سفارت کی کامیابی کی وجہ سے بڑی حد تک محفوظ ہو گیا۔ میاں محمد سرفراز خان کی تخت نشینی کے بعد احمد شاہ ابدالی نے وفات پائی۔ میاں سرفراز خان نے میر بہرام تالپر کو تیمور شاہ والی ٔ افغانستان کے پاس بھیجا اس نے میاں محمد سرفراز خان کی حکمرانی کی سند دی۔

میاں محمد سرفراز خان کا طرز سلوک دیوان گدومل سے بہتر

نہیں تھا۔ وہ اس کو سفارت سے الگ نہیں کر سکتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ اگر دیوان گدومل کو سفارت سے الگ کر دیا گیا تو سندھ کو افغانوں کی شورش کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس کے باوجود اس کی کوشش یہی رہتی تھی کہ وہ دیوان گدومل کو طنز و تشنیع کا نشانہ بناتے رہے۔ دیوان گدومل بہت پستہ قد شخص تھا۔ قد کی وجہ سے اس کو ہزاروں آدمیوں میں آسانی سے شناخت کر لیا جاتا تھا۔ میاں محمد سرفراز خان کے دربار میں اس کی یہی پستہ قامتی انگشت نمائی کا موجب بنی رہتی تھی۔ ایک روز جبکہ دیوان گدومل دربار میں بیٹھا ہوا تھا میاں محمد سرفراز نے پستہ قامت لوگوں کا تذکرہ چھیڑ دیا اور ان کی برائیاں کرنے لگے۔ دیوان گدومل کو یہ بات بری لگی اس نے فوراً جان لیا کہ اس طرز گفتگو کا اصل نشانہ اس کی اپنی ذات ہے تو وہ فوراً بول اٹھا، مرد کی بہادری میدانِ جنگ میں دیکھی جاتی ہے۔ قد کا چھوٹا ہونا عیب کی بات نہیں ہے۔ انگوٹھے کو دیکھو سب انگلیوں میں چھوٹا ہوتا ہے۔ اس کے باوجود اس کی مضبوطی اور کارکردگی سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ دیوان گدومل کا یہ جواب میاں سرفراز کو برا محسوس ہوا لیکن اس نے انتہائی تحمل سے اسے برداشت کیا۔

اگرچہ میاں سرفراز خان میر بہرام خان تالپر کو قندھار میں دربار افغان میں بطور سفیر بھیجا تھا تاکہ وہ تیمور شاہ سے سندِ حکمرانی لے آئے۔ اس کی کوششوں سے میاں محمد سرفراز خان کو سندِ حکمرانی ملی تھی لیکن بعد میں میاں سرفراز خان اس سے اس قدر بدگماں ہو گیا کہ اس کے درپے رہنے لگا۔دیوان گدومل کے لئے یہ بات بڑی افسوس ناک تھی کہ میاں سرفراز خان اپنے وفاداروں اور جاںنثاروں کے ساتھ دور رہنے لگا۔ اس نے ایک روز موقع پر میاں سرفراز کو سمجھانے کی کوشش کی اور کہا کہ اگرچہ میں ایک کمزور آدمی ہوں۔ آپ کی نگاہ میں کوئی حقیقت نہیں رکھتا ہوں۔ لیکن میں نے آپ کا اور آپ کے آبائواجداد کا نمک کھایا ہے۔ حق ِ نمک کا ثقاضا ہے کہ آپ پر نیک و بد ظاہر کر دوں۔ آپ خدا کے لئے دشمنوں کی جھوٹی شکایتوں سے دور رہئے ورنہ آگ بھڑک اٹھی تو پھر اس کو بجھانا مشکل ہو جائے گا۔ میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ میر بہرام تالپر کو اپنا دشمن نہ بنائیے اگر وہ قتل کر دیا گیا تو آپ کی حکومت متزلزل ہو جائے گی۔ اگر آپ کو میر بہرام تالپر سے کسی قسم کا خوف ہے تو پھر اس پر اس قدر احسان اور اس قدر نوازشیں کیجئے کہ وہ ان کے بوجھ سے سر نہ اٹھا سکے۔ دیوان گدومل نے اپنے جذبہ ٔ ِ وفاداری کے پیش نظر میاں سرفراز خان کو سمجھانے کی بہت کوشش کی لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میاں سرفراز خان پر دیوان گدومل کی باتوں کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ اس نے کسی قسم کے عمل یا ردعمل کا اظہار نہیں کیا۔ غالباً قضا کے حکم سے منصوبہ تیار ہو چکا تھا چنانچہ میر بہرام خان تالپر قتل کر دیا گیا۔

دیوان گدومل نے میاں محمد سرفراز خان کے بعد بھی متعدد حکمرانوں کی سفارت کے فرائض انجام دیئے اور قندھار میں دربار افغانی میں سندھ کے سفیر کی حیثیت سےکام کرتا رہا۔یہ اس کی تدبر اور فکر کا نتیجہ تھا کہ سندھ پر افغانیوں کی یورش میں کسی قدر کمی آ گئی اور سندھ کے رہنے والے لوٹ کھسوٹ سے محفوظ رہے۔

دیوان گدومل ایک نیک اور خدا ترس انسان تھا۔ اس کو سندھ کے رہنے والوں کی فلاح و بہبود سے بے حد دلچسپی تھی وہ فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا تھا اگرچہ اس نے ایک ساہوکار خاندان میں تعلیم و تربیت پائی تھی اور ہوش سنبھالا تھا لیکن اس میں ساہوکاروں کی سی مروجہ خصوصیات نہیں آتی تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ سندھ کے رہنے والے اس کی مساعی کی قدر کرتے تھے اور اس کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ دیوان گدو مل نے دریائی راستے سے حیدرآباد کا سفر کیا، اتر کر اس نے جس جگہ خشکی پر قدم رکھا، وہ گدو بندر کے نام سے جانی جاتی تھی، اب اس کا نام حسن آباد رکھ دیا گیا ہے۔دیوان دیارام گدومل کا شمار سندھ کی ان ہستیوں میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی زندگی کو خدمت اور اصولوں کا عملی نمونہ ثابت کیا۔ برطانوی راج کے دور میں گدومل کا شمار سندھی ہندوؤں کے 'گاڈ فادرکے طور پر ہوتا تھا۔جس وقت دیارام کراچی میں رہائش پذیر تھے، ان کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ سندھیوں کو اعلیٰ تعلیم دینے کے لیے کالج بنایا جائے۔ اس کے لیے انہوں نے اپنے بھائی میٹھا رام کو جو ایک معروف وکیل تھے اور دوسرے ایک اور وکیل دیوان رام جیٹمل کو راضی کیا جس کے بعد کراچی کے ایک مشہور کالج کی سنگ بنیاد ڈالی گئی۔ دیوان گدومل نے اپنی زندگی کا بہت بڑا حصہ کلہوڑوں کی خدمت میں گزارا اور ان کی نمایاں خدمات انجام دیں۔ اس نے اپنی ملازمت کا آغاز میاں نور محمد کلہوڑہ کے دربار سے کیا تھا۔ اس کے بعد وہ متعدد حکمرانوں کی جانب سے سفارت کے فرائض انجام دیتا رہا۔ جب میر فتح علی خان تالپر نے 1199ء کو سندھ فتح کیا تو وہ اس وقت بھی دربار افغانی میں بطور سفیر خدمات انجام دے رہا تھا۔ دیوان گدومل نے وفات کب پائی۔ اس کی تاریخ ولادت اور تاریخ وفات کیا ہے۔ اس کا مجھے علم نہیں ہے میں نے فی الحال ایسی کوئی تاریخ نہیں دیکھی ہے۔ جس میں اس امر کی صراحت موجود ہو۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اس کی عمر بڑی طویل تھی اور وہ سنہ 1199ھ کے بعد بھی زندہ رہا۔ اس کا خاندان سندھ میں گدوانی یا شاہوانی کے نام سے مشہور ہے۔ ٹنڈو گدومل، خیابان ِ گدو مل، کوچۂ گدوانی اور گدو بندر اس کی یادگاریں ہیں۔ یہ جب تک باقی ہیں اپنے بنانے والے کی یاد دلاتی رہیں گی۔