اردو کے محاورے اور ہماری تہذیب

May 08, 2019

سید ضمیر حسن دہلوی

ہماری زبان میں محاوروں کے علاوہ ضرب الامثال کا بھی بیش بہا خزانہ پایا جاتاہے،ان ہی کے چلن نے اُردو زبان کو مقبولیتِ عام اور شہرتِ دوام بخشی تھی

محاورے محض کسی زبان کا حصہ ہی نہیں ہوتے بلکہ وہ اپنے مختصر وجود میں نہ صرف کسی بھی معاشرے کی نمائندگی کا کردار ادا کرتے ہیں بلکہ ایک بھر پور تہذیبی عکس بندی کا بار بھی اٹھاتے ہیں۔

اردو محا ورات اور زبان وبیان میں اُن کی اہمیت

آبِ حیات میں مولانا محمد حسین آزاد نے میر سوز کا ذکر کرتے ہوئے یہ واقعہ بیان کیا ہے کہ ایک دن سودا کے ہاں میر سوز تشریف لائے۔ اُن دنوں شیخ حزیں کی غزل کا چرچا تھا، جس کا مطلع ہے:

می گرفتیم بجا تا سرِ را ہے گا ہے

اُد ہم از لطفِ نہاں داشت نگا ہے گا ہے

میر سوز مرحوم نے اپنا مطلع پڑھا:

نہیں نکلے ہے مرے دل کی اَپا ہے گا ہے

اے مُلک بہرِ خُدا رخصتِ آہے گا ہے

مرزا سُن کر بو لے کہ میر صاحب بچپن میں ہمارے ہاں پشور کی ڈومنیاں آیا کرتی تھیں یا جب یہ لفظ سنا تھا یا آج سنا۔ میر سوز بچا رے ہنس کر چپ ہو رہے۔

پشا ور کی ڈومنیاں جو نکسے اور اَیا ہے بو لتی تھیں، فا رسی غزلوں کے بجائے ہندی چیزیں سنا تی ہوں گی،جو اُن دنوں قریب الفہم اور مقبولِ عام تھیں۔

خلاصہ اس گفتگو کا یہ ہے کہ اردو جو کھڑی بو لی کا ایک مخصوص رُوپ ہے، عوام کی بول چال کی زبان بنی اور ا س نے پہلی بار ان کے جذبہ اظہار کو زبان دی، ادبی زبان اور بول چال کا فرق مٹا یا۔ چناںچہ اٹھارہویں صدی میں دہلوی شعراء کا کلام با لعموم اسی لسانی اصول کا پا بند اور آئینہ دار ہے۔

آ گے چل کر جب مرزا مظہر جانِ جاناں، حا تم، سودا، نا سخ، شا ہ نصیر اور ذوق نے اپنے نقطہ ہائے نظر کے مطابق اصلا حِ زبان کا کام کیا تو دہلی میں گاہ گا ہ متروک الفا ظ و محاورات کے ساتھ ،جو قدیم لب و لہجے کی گونج سنا ئی دیتی رہی،اس کا سہرا مردوں سے زیادہ عورتوں کے سرہے۔ عورتیں زبان کے معاملے میں قدامت پسند ہو تی ہیں۔ مردوں کے مقابلے میں ان کا ملنا جُلنا باہر والوں سے کم ہوتاہے۔ نیز، مختلف النوع اقوام اور بھانت بھانت کی زبان بولنے والوں سے بُعد کی وجہ سے ان کی زبان بگڑ نےسے محفوظ رہتی ہے۔ عورتوں کی نما یاں خصوصیت انتخابِ الفاظ کے سلسلے میں یہ ہے کہ وہ کریہہ الفا ظ کی جگہ لطیف الفا ظ استعمال کرتی ہیں۔

عورتیں اپنے گرد و پیش کے الفاظ چنتی ہیں، ان کے ہاں کسی شئے کی جزئیات کو پیش کر نے کےلیے الفاظ کی کمی نہیں ہو تی۔ اسی لیے مردوں کے بجائے عورتوں کی لکھی ہو ئی کتابیں زیادہ عام فہم،صاف اور شستہ ہو تی ہیں۔ عورتیں لسانی اعتبار سے مردوں سے زیادہ تیزو طرار ہوتی ہیں۔ وہ سیکھنے کا شوق رکھتی ہیں۔ سننے میں تیز ہیں اور جواب دینے پر زیادہ قدرت رکھتی ہیں۔ دنیا بھر میں عورتیں باتونی مشہور ہیں۔ مردوں کے برعکس انہیں الفاظ ٹٹولنے اور تولنے میں دیر نہیں لگتی۔ عورتیں نئی نئی اصطلاحیں، محاورے وضع کر لیتی ہیں، جن میں اکثر خوش آواز مترنّم اور پُرلطف ہو تے ہیں۔ ہر زبان کی لغت میں ایک ایسی فرہنگ موجود ہوتی ہے جو عورتوں کی بول چال کے لیے مخصوص ہے۔ مردوں کی گفتگو میں یہ الفا ظ شاذ ہی نظر آتے ہیں۔ اُردو نثر میں عورتوں کی بول چال کم و بیش طلسمِ باغ و بہار اور دیگر نثری داستانوں میں سمٹ آئی ہے ۔ ایک اور مثال واجد علی شاہ کی بیگمات کے وہ خطوط ہیں جو انہوں نے واجد علی شاہ کو مٹیا برج جانے کے بعد لکھے ہیں۔

(جاری ہے)