اردو میں اشاریہ سازی کی اہمیت

May 08, 2019

غلام نبی کمار

اشاریہ سازی ایک مستقل فن ہے ۔کتابیات کی طرح اشاریہ کی بھی بڑی اہمیت ہے۔ اشاریہ سازی کا فن عمو ماً رسائل و جرائد کے ساتھ منسلک کیا جاتا ہے۔ لیکن اشاریہ سازی صرف رسائل و جرائد کے ساتھ خاص نہیں ہے ۔ اس سے علمی و تحقیقی میدان میں نبرد آ زمائی کرنے والوں اور مصنّفین کو بڑا فائدہ اورآسانی ہوتی ہے۔ زبان و ادب کے ماہرین،جنہوں نے اپنی لیاقت اور صلاحیت کے بل بوتے پر اردو ادب کے ذخیرے کو وسعت عطا کی ہے، ان سے متعلق مقالات و مضامین یا خود ان کی بیش تر تصانیف و مضامین ادھر ادھر بکھرے پڑے ہوتے ہیں اور وہاںتک ایک عام قاری کی رسائی نہیںہوپاتی کہ فلاں مصنّف کی کتاب یا ان کا مضمون کس جگہ اور کہاں مل سکتاہے۔ اس پریشان کن صورتِ حال سےبچنے میں صرف اور صرف اشاریہ ہی ہماری راہ نمائی کر سکتاہے۔

تحقیق میں مواد کی فراہمی کا ایک بڑا اور اہم ذریعہ کتابیں اور رسائل ہیں۔ جو کتابیں شایع ہوتی ہیںوہ تو بازار میں دست یاب ہوتی ہے یا کہیں سے منگوائی بھی جا سکتی ہیں، لیکن رسائل کے ساتھ معاملہ اس کے برعکس ہے ۔ کتابیںکسی مخصوص موضوع، صنفِ ادب اور مخصوص نقطہ نظر سے متعلق ہوتی ہیں،لیکن رسائل میں مختلف اور متنوّع موضوعات پر مضامین اور مختلف اصنافِ سخن شامل ہوتی ہیں۔ رسائل وجرائد کے اشاریے محقّق کے لیے اہمیت کے حامل ہوتے ہیں،کیوں کہ ان میں مختلف اور متنوّع موضوعات پائے جاتے ہیں۔ بسا اوقات ایک مضمون سے جتنی معلومات حاصل ہوتی ہے وہ کبھی کبھی پوری کتاب سے بھی فراہم نہیں ہوتی۔اُس وقت تحقیق کے طالب علم کے لیے ایک مضمون کی اہمیت ایک کتا ب کے مقابلے میں زیادہ ہو جا تی ہے۔ رسائل میں موضوعات کا بھی تنوّع ہوتاہے اور تقریباً تمام اہم موضوعات پر مضامین مل جاتے ہیں جو کسی ایک کتاب میں نہیں ملتے۔ پھر یہ کہ رسائل میں قاری اور وقت کے تقاضے کو سامنے رکھتے ہوئے مضامین لکھوائے جاتے ہیں ۔ اس موضوع پر کبھی کوئی کتاب زیورِ طبع سے آراستہ ہو کر منظرعام پر آجاتی ہے اور کبھی نہیں۔ آج بھی اَن گنت موضوعات ایسے ہیں جن پر مواد صرف رسائل میں موجود ہے اور کتابیں اس سمت میں کوئی راہ نمائی نہیں کرتیں ۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی،بلکہ بہت سے مصنّفین ایسے ہیںجنہوں نے رسالوںمیں اپنے قلم سے موتی اور جواہر بکھیرے ہیںاور اپنے مضامین کے بل بوتے پر ان کو جابہ جا خوبیوں سے مزیّن کیا ہے۔ مگر ان باوقار مصنّفین کی شخصیت رسائل کے اوراق تک ہی محدود ہو کر رہ گئی ہے۔آج کے کئی معروف ادیبوں کی ابتدائی تحریروںاور علمی و فکری تحریکوں کے بھی یہ جرائد امین ہیں۔ اشاریہ نہ ہونے سے ان کی شخصیت پر پردہ پڑا ہوا ہے۔ ایسی صورت میں اگررسائل کے اشاریے تیار ہو جائیںتو محقّق کو بڑی سہولت حاصل ہو جائے گی اور تحقیقی دشواریوں پر بہت حد تک قابو پایا جا سکتا ہے۔ اس طرح تحقیق کی راہ میں حائل ایک بڑی رکاوٹ دورکی جا سکتی ہے۔

پنڈت برج موہن دتا تریہ کیفی دہلوی نے اپنے ایک مضمون ”اردو کا اولین رسالہ: محب ہند” دہلی کو اردو کا اولین ادبی جریدہ قرار دیا ہے۔اس کا اجرا جون 1847 میں ہوا تھا۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اردو رسائل و جرائد کی عمر ڈیڑھ سو سال سے زاید عرصے پر محیط ہے۔ اس عرصے میں سیکڑوں رسائل کی اشاعت مختلف مقامات سے مختلف اوقات میںعمل میں آئی۔اس لیے ان رسائل تک ہماری رسائی بھی آسانی سے نہیں ہو پاتی ،کیوں کہ ہم اس بات سے نا آشنا ہوتے ہیں کہ کون سا رسالہ کہاں سے نکلتاہے، کہاں دست یاب ہے اور اب تک اس رسالے کے تمام شمارے کہاں سے فراہم ہو سکتے ہیں۔ جب ہمیں اس بات سے واقفیت حاصل ہوتی ہے کہ فلاں لائبریری اورفلاں ادارے میں تلاش کیے جانے والے رسالے کی فائلز موجود ہیں تو تلاش اور چھان بین کرنے پر چند گنی چنی فائلز ہی ملتی ہیں اور جس رسالے یا شمارے میں ہمارے مطلب کی چیز ملتی اسے ہم غائب پاتے ہیں۔

اشاریہ کی مدد سے کسی بھی ادیب یا شاعر کے بارے میںبہت قلیل وقت میں بہت زیادہ اور بہترین معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔ اشاریہ کے توسط سے ادباء و شعرا ء کی تخلیقات اور سوانح کے علاوہ نادر و نایاب تصاویر ،عکس ہائے تحریر، ادبی کارنامے، کتابوں کے نام، معلومات کی فہرست ، غرض، ہر طرح کی ضروری معلومات سے استفادہ کیا جا سکتا ہے ۔جیسا کہ مذکور ہوا ہے کہ مختلف رسائل اور کتب تک ہر کس و ناکس اور خصوصاً تحقیقی کام کرنے والوں کی رسائی نہیں ہو پاتی اور مطلوبہ مواد کا رسائل میں جا بہ جا بکھرا ہونا اور پھر رسائل کا مہیا نہ ہو نا عام طور سے ان کے کام میں رکاوٹ کا سبب بنتا ہے۔ لیکن جب تحقیق کرنے والے کے سامنے کتب و رسائل کے اشاریے موجو د ہوتے ہیںتو وہ اپنا تحقیقی کام موثر طریقے سے انجام تک پہنچا نے میں کام یاب ہوجاتے ہیں۔ ابوسلمان شاہ جہان پوری اپنے اشاریہ کے پیشِ لفظ میں لکھتے ہیں :

’’کسی موضوع پر تحقیق کے لیے اس موضوع کی کتابیات، چراغِ ہدایت کی حیثیت رکھتی ہے‘‘۔

اشاریہ اور اشاریہ سازی کی اہمیت و افادیت واضح کرتے ہوئے پروفیسر عبد ا لقوی دسنوی اپنے ترتیب دیے گئے اشاریہ ”انیس نما” کی تمہید میں یوںرقم طراز ہیں:

’’اردو میں اشاریہ سازی کا کام ابھی بہت کم ہوا ہے ۔البتہ غالب اور اقبال سے متعلق اشاریے کتابی صورت میں مرتب کیے گئے ہیں، لیکن دوسرے شعراء اور ادبا کی طرف سوائے حالی ، شبلی ،عبد ا لحق اور ابو الکلام آزاد کے اس قسم کے کام کے لیے توجہ نہیں کی گئی ہے ۔ کچھ لوگوں نے بعض رسائل کے اشاریے تیار کیے ہیں جو ان رسائل کا معیار اور مزاج سمجھنے میں مدد کر دیتے ہیں ۔ اس قسم کا کام اگر چہ بہ ظاہر زیادہ اہم نہیں معلوم ہوتا،لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اشاریہ سازی کا کام نہ تو آسان ہے اور نہ اہمیت ہی میں کم۔اس سے نہ صرف تحقیقی کام کرنے والوں کے لیے آسانیاں پیدا ہوتی ہیںبلکہ ان میں ترتیب و تہذیب کا سلیقہ بھی پیدا ہوتا ہے ۔اس کام سے اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کسی موضوع سے متعلق کس حد تک کام ہو چکا ہے اور کن پہلوؤں پر مزید کام کرنے کی گنجایش ہے۔ اس لیے اشاریہ سازی کے کام کی طرف توجہ کی ضرورت ہے‘‘۔

اشاریہ سازی کی اہمیت و افادیت کے سلسلےمیں پروفیسر عبد ا لقوی دسنوی مقدمہ ’’نیرنگِ خیال کا موضوعاتی اشاریہ‘‘، مُرتّبہ ڈاکٹر دیوان حنان،میں یوں تحریر کرتے ہیں :”اکثر حضرات مواد کی فراہمی کی مشکلات کی وجہ سے ادھورے کام چھوڑ دیتے ہیں۔ وہ اپنے کام سے نہ تو خود مطمئن نظر آتے ہیںنہ دوسروں کو مطمئن کر سکتے ہیں، البتہ دوسروں کی تنقید کا نشانہ بنتے رہتے ہیں‘‘۔

اشاریہ اور اشاریہ سازی کے ضمن میں ڈاکٹر سید محمد عبد ا للہ،اشاریہ ماہنا مہ ’’صحیفہ‘‘ لاہور، میںاپنے خیالات کا اظہار یوں کرتے ہیں:

’’اشاریہ سازی کا کام آٹے میں نمک کے برابر ہے اور جو کچھ کام اس سلسلے میں ہوا ہے وہ صرف کتابوں کا ہوا ہے، رسائل کی اشاریہ سازی ہنوز تشنہ ہے‘‘۔

محقق کو ہم مزید آسانیاں اس وقت فراہم کر سکتے ہیں جب ہم تمام اردو رسائل کے مندرجات اکٹھا کر کے اس کا موضوعاتی اشاریہ تیار کریں ۔ اس لیے کہ ریسرچ زیادہ تر موضوعات پر ہی ہوتی ہے اور تلاش کرنے والا اپنا مواد موضوع کی مناسبت سے ہی ڈھونڈتاہے۔انگر یزی اور دنیا کی دوسری زبانوں میں یہ کام بہت پہلے شروع ہوا اورہندوستان میں بھی موضوعاتی اشاریے انگریزی میں ہر سال شایع ہو رہے ہیں ۔

اشاریہ کسی بھی ماخذ میں موجود اہم موضوعات، اشخاص اور دیگر اہم چیزوں کی نشان دہی کرتا ہے جس کی بنا پرمحقق یا قاری کو متن یا ماخذ کی مکمل ورق گردانی نہیں کرنا پڑتی بلکہ وہ کم سے کم وقت میںا شاریہ کی مدد سے اپنے مطلوبہ موضوع تک رسائی حاصل کرلیتا ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اشاریہ ایک گلوب کی حیثیت رکھتا ہے جس پر ایک نظر ڈالنے سے پوری ادبی کائنات نظر کے سامنے آجاتی ہے اور اس کی مدد سےکوئی شخص بنیادی تصور قائم کرکے اس کی روشنی میں اصل کا مطالعہ کرتا ہے۔اشاریہ دراصل کسی مصنف، مضمون، موضوع یا کتاب کا آئینہ ہوتا ہے۔ اشاریہ سازی یا اشاریہ مرتب کرنا ایک ایسا فن ہے جس میںر سائل و جرائد، کتابی مواد کے اندراجات کی تفصیل، اس کے درج کرنے کے طریقے اور اندراجات کی ترتیب کے لیے مختلف طریقہ ہائے کا ر واضح کیے جائیں ۔اشاریہ سازی کے بغیر کسی بھی قسم کی تحقیق کو موثرطورپر انجام تک پہنچانے کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ تحقیقی امور میں اشاریوں کی اہمیت اظہر من ا لشمس ہے۔

فن ِاشاریہ سازی کی زبر دست اہمیت کے باوجود ہندوستان میں اس ادبی و تحقیقی میدان میں بہت کم کام ہوا ہے اور جن رسائل کے اشاریے تیار کیے جا چکے ہیںان میں سے اب تک صرف چند ہی زیورِ طبع سے آراستہ ہو سکے ہیں ۔ ہندوستان کی نسبت پاکستان میں اشاریہ سازی کی طرف بہت زیادہ توجہ دی گئی ہے اور کثیر تعداد میں رسائل کے اشاریے مرتب کیے جا چکے ہیں جو زیورِ طباعت سے آراستہ ہو کرکتب بازار کی رونق بنے ہوئے ہیں۔اس کےعلاوہ اقبال اکادمی پاکستان،اکادمی ادبیات، مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباداورادارہ تحقیقات اسلامی (اسلام آباد) نے اشاریہ سازی کے ضمن میں جو خدمات انجام دی ہیںانہیںفراموش نہیں کیا جا سکتا۔

انگریزی اور دنیا کی دوسری زبانوں میں یہ کام بہت پہلے شروع ہو چکاہے۔ اردو کو دنیا کی دوسری ترقی یا فتہ زبانوں کی صف میں لانا ہے تویہ کام کیا جا نا چاہیےاور اردو کے تمام رسائل کے مندرجات کو سامنے رکھ کر ایک جامع موضوعاتی اشاریہ تیار کیا جانا چاہیے جیسا کہ دوسری زبانوں میں ہے، تب ہی اردو تحقیق کا معیار بلند ہو سکے گا ۔ دنیا کا کوئی ترقی یافتہ ادب اس وقت تک صحت مند اور مستند تحقیقی و تنقیدی کارنامہ پیش نہیں کر سکتا جب تک اس میں حوالے اور اشاریے کی کتابیں موجود نہ ہوں۔