روشنیوں کے شہر کراچی میں سڑکوں کے نیچے قائم بازار

May 09, 2019

اقدس گل

کراچی وہ شہر ہے جو بار بار حیرت میں مبتلا کردیتا ہے۔ اس شہر کو جان لینے کا جتنا بھی دعویٰ کیا جائےکم ہے۔

شہر میں سڑک کنارے ٹھیلوں پر مشتمل بازاروں سے لے کر چھوٹی دکانوں اور وسیع و عریض رقبے پر پھیلے تنگ گلیوں والے بازار، کچھ اشیاء کے مخصوص بازار اور پھر آنکھیں چکا چوند کر دینے والے جدت لیے بڑے بڑے شاپنگ مالز، سب موجود ہیں۔لوگ ضرورت کے تحت شاپنگ کرنے یا شوقیہ اور وقت گزارنے کے لیے بھی ان بازاروں کا رخ کرتے ہیں۔

لیکن کراچی کی سڑکوں کے بچھے ہوئے جال کے نیچے ایسے بازار بھی موجود ہیں، جن کا استعمال شاپنگ کے ساتھ ساتھ سڑک پار کرنے کے لیے بھی کیا جاتاہے۔ یہ ہیں سب وے مارکیٹ ، نام سے تو جدید ترین مارکیٹس (بازار) لگتے ہیں لیکن یہ کراچی کی مصروف ترین سڑکوں کے نیچے کئی برسوں سے موجود ہیں۔

سب وے مارکیٹ ، لیاقت آباد

لیاقت آباد کے مرکزی بازار کا رخ لوگ کم نرخوں پر اشیاء کی خریداری کے لیے کرتے ہیں، یہاں سونے کے زیورات، تیل،مسالہ جات، برتن وغیرہ کے بازار ہیں۔

لیاقت آباد دس نمبر سے ڈاکخانے کی طرف جاتے ہوئے سڑک کے نیچے بڑے بازار کے درمیان ایک چھوٹی سی دنیا، سب وے مارکیٹ آباد ہے۔اوپر سے گزرتے ہوئے شاید اس کا اندازہ بھی نہ ہوسکے۔لیاقت آباد میں مینار پاکستان کے نشان کے پاس ہی چھتری نما عمارت نظر آئے گی۔ اسی چھتری سے نیچے اترنے والی سیڑھیاں سب وے مارکیٹ یا بازار میں لے جاتی ہیں۔اوپر سڑک کے شور، اور بھاگتی گاڑیوں سے ہٹ کر اس بازار میں دکان داروں اور خریداروں کے شور میں کان پڑی آواز بھی سننا مشکل ہو جاتی ہے۔اس کے باوجود یہاں کاروبار خوب گہما گہمی کے ساتھ چلتا ہے۔ پہلی نظر میں لوگ ان سیڑھیوں کا مقصد نہیں سمجھ پائے تھے۔پہلے یہ زیر زمین گزرگاہ کے طور پر زیادہ استعمال ہوتی تھی۔

اس بازار میں لوڈ شیڈنگ اور ہوا کا گزر کا نہ ہونا یہاں کا بڑا مسئلہ ہے جب کہ برسات کے موسم میں یہاں پانی بھی بھر جاتا ہے۔ زیادہ تر خواتین اس مارکیٹ کا استعمال سڑک پار کرنے کی پریشانی سے بچنے کے لیے کرتی ہیں۔ اکثر کی سڑک بھی پار ہو جاتی ہے اور اسی بہانے ان کی 'ونڈو شاپنگ 'بھی ہو جاتی ہے۔ تہواروں پر یہاں گہما گہمی بڑھ جاتی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی مسائل بھی بڑھ جاتے ہیں۔موسم سرما میں حالات اس قدر خراب نہیں ہوتے لیکن ہوا کا گزر نہ ہونے کی وجہ سے گرمیوں میں یہاں سانس لینا بھی محال ہوجاتا ہے۔یہاں شاپنگ کرنے والی خواتین اس مارکیٹ کو سستا ترین بازار سمجھتی ہیںانھیں یہ اطمینان یہاں لے آتا ہے کہ اوپر مرکزی بازار کے مقابلے میں یہاں وہی مصنوعات سستی دستیاب ہو تی ہیں۔

7 مئی 1976 کو غلام مصطفیٰ جتوئی کے ہاتھوں اس مارکیٹ کا افتتاح ہواتھا۔ جو اس وقت سندھ کے وزیر اعلیٰ تھے۔

سب وے مارکیٹ ، رضویہ گولیمار

سب وے مارکیٹ رضویہ گولیمار، لیاقت آباد سب وے مارکیٹ ہی کی طرز پر زیر زمین بازار ہے، یہاں بھی پہلے کیسٹوں کی دکانیں ہوا کرتی تھیں جو متروک ہونے کے بعد یہاں مختلف نوعیت کی دکانیں کھل گئیں۔گولیمار کے مرکزی بازار کے ساتھ ہی گرین لائن کی جدید تعمیرات کے نیچے یہ مارکیٹ موجود ہے ، جس کے وجود سے وہاں سے گزرنے والوںاور بعض مقامی لوگ بھی ناآشنا ہیں۔ اس بازار کا حال لیاقت آباد کے بازار کے بالکل بر عکس ہے۔ یہاںکل 20 دکانوں میں سے چند دکانیں کھلی ہوئی ہیں اور ان میں درزی ، پلاسٹک کے برتن اور پتھروں کا کاروبار ہو رہا ہے۔سیڑھیاں اترتے ہی ویرانی کا تاثر گہرا ہوتا چلا جاتا ہے۔ کھلی ہوئی دکانوں میں دکاندار خاموشی سے بیٹھے ہوئے گاہکوں کا انتظار کر رہے ہیں۔ کاروبار نہ ہونے کے برابر ہے۔

سب وے مارکیٹ ، صدر

کراچی میں بننے والی زیر زمین یہ پہلی مارکیٹ تھی،جسے کے ایم سی نے لوگوں کو سڑک پار کرنے کی آسانی کے لیے بنایا تھا لیکن لوگ ویرانی کو دیکھتے ہوئے یہاںسے گزرنے کےبجائے سڑک اوپر سے ہی پار کر لیتے تھے۔ قدرے تنگ سیڑھیاں تاریکی، بے رونقی اور گندگی کی وجہ سے پہلی نظر میں ناقابل استعمال لگتی ہیں۔چند سیڑھیاں اترنے کے بعد روشن اور صاف ستھری دکانوں پر نظر پڑتی ہے۔ تعداد میں یہ دکانیں صرف دس ہیں۔ یہاں بھی ابتدائی میں کیسٹوں کی دکانیں ہوا کرتی تھیں۔بعد میں کیسٹوں کی مانگ آہستہ آہستہ کم ہونے کے بعد ختم ہونے کہ وجہ سے یہاں تحفے اور انعامات میں دیے جانے والی اشیاء کی دکانیں کھل گئیں ہیں، جہاں پر آرڈر پر انعامات تیارکیے جاتے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ اس بازار کو بنے 40 سال کے قریب ہو چکے ہیں۔ لوگ اب اس کا استعمال سڑک پار کرنے کے لیے نہیں کرتے کیونکہ اوپر سے سڑک اتنی چوڑی نہیں ہے کہ اسے پار کرنے میں دشواری ہو۔

دکانداروں نے اپنی مدد آپ کے تحت اس مارکیٹ کی تزئین و آرائش کروائی ہے، تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو متوجہ کیا جاسکے۔