جہیز کی فرسودہ رسم

May 10, 2019

عام طور پر بیٹی کے پیا دیس سدھارنے کا خواب والدین اسی دن دیکھنا شروع کردیتے ہیں، جس دن وہ پیدا ہوتی ہے۔ شادی والے دن والدین کے لیے بیٹی کی جدائی سے زیادہ اس کا گھر بس جانے کی خوشی اہم ہوتی ہے لیکن اس خوشی کے حصول کے لیے انھیںجہیز جیسی فرسودہ رسم کو پورا کرنا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ شادی کے انتظار میں کتنی ہی لڑکیوں کی عمر بڑھتی جارہی ہے، وہ بھی صرف اس وجہ سے کہ ان کے والدین جہیز کے نام پر مہنگے تحائف دینے یا لڑکے کے گھروالوں کی شرائط پوری کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ کتنی ہی لڑکیاں ایسی ہیں،جنھیں جہیز کے مطالبات پورے نہ کئے جانے پر شادی کے بعد تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ہم بچپن سے ہی درسی کتابوں میں جہیز کی رسم کو ایک لعنت پڑھتے آئے ہیں لیکن اس کے باوجود معاشرے میں یہ رسم دن بدن کسی ناسور کی طرح پنپ رہی ہے۔ برصغیر میں بیٹی کی شادی میں والدین کی طرف سے دیا جانے والا سامان (مثلاً فرنیچر ،کپڑے ،تحائف کراکری کا سامان ،نقد رقم اور سونے چاندی کے زیورات)جہیز کہلاتا ہے۔ اس کا تعلق لڑکی کوسسرال میں دیے جانےوالے مقام سے جوڑا جاتا ہے کیونکہ عام تاثر یہی ہے کہ جس لڑکی کو جتنا زیادہ جہیز دیا جاتا ہے، سسرال میں اس کی اتنی ہی زیادہ عزت ہوتی ہے۔ مطالبات سے بھری اس رسم کی تاریخ صدیوں پرانی ہے۔ ہندو رسم ورواج کے تحت یہ رسم مشرقی معاشرے میں داخل ہوئی اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ یہ معاشرے میں سرائیت کرگئی۔

اس رسم کے خلاف ا قوام متحدہ کے ادارہ برائے تحفظ نسواں (پاکستان چیپٹر) کا اقدام سراہے جانے کے قابل ہے۔ ادارے کے تحت جہیز کی رسم کے خلاف سوشل میڈیا پر ایک مہم کا آغاز کیا گیا تھا، جس کا عنوا ن ’’جہیز خوری بند کرو‘‘ ہے۔ اس مہم کا آغاز 19دسمبر 2018ء میں اس وقت ہوا، جب پاکستان میں خواتین کے حقوق کیلئے کام کرنے والےاقوام متحدہ کے ذیلی ادارے (UN Women Pakistan)کی طرف سے فیس بُک اور انسٹاگرام پر ایک تصویر پوسٹ کی گئی، اس تصویر میں مہندی کے خوبصورت ڈیزائن کے اندر ’’جہیز خوری بند کرو‘‘ کا پیغام بہت واضح لفظوں میں درج تھا۔ اس پیغام کو سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم سے دینے کا پس پردہ مقصد، مطالبوں سے بھری اس جاہلانہ رسم سے نجات ہے۔ اس مہم کو عوامی سطح پر مقبول کرنے کا سہرا پاکستانی فنکاروں کے سررہا، جنھوں نے اقوام متحدہ ویمن کی پوسٹ کے بعد اس اہم مسئلے پر بات چیت کو آگے بڑھایا۔ اس پوسٹ کے اگلے روز شوبز انڈسٹری کے معروف اداکار علی رحمان کی جانب سے ایک دھماکے دار خبر دی گئی، جس کے مطابق انھیں جیو نیوز کے مارننگ شو ’جیو پاکستان‘ میں شادی کرنا تھی لیکن اس پروگرام میں علی رحمان کی شادی کسی لڑکی کے بجائے ڈولی میں رکھے گئے تحائف سے ہونی تھی۔ اس کے بعد یہ سلسلہ چل پڑا اور شوبز انڈسٹری سے تعلق رکھنے والے کئی فنکاروں جن میںایمن خان، عثمان خالد بٹ، جگن کاظم، عائشہ عمر، سنیا شمشاد، ولید خالد شامل ہیں، نے ہاتھ میں یو این ویمن کےڈیزائن جیسی مہر بنواکر تصویر سوشل میڈیا پر شیئر کرتے ہوئے اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا۔ جبکہ اکثررشتے کے وقت لڑکوں سے ان کی تنخواہ، گھر کا سائز، گاڑی کا ماڈل جیسے سوالات نہ پوچھے جانے کے حق میں اظہارِ رائے کررہے تھے۔ لڑکوں کی جانب سے اس مہم کا جواب کچھ یوں دیا گیا کہ جس طرح جہیز مانگنا غلط ہے، اسی طرح رشتہ طے کرتے وقت اسٹیٹس سے متعلق سوالات وجوابات کیسے صحیح ہوسکتے ہیں ۔

اگر دیکھا جائے تو شادی میں مطالبات کی صورت مانگا جانے والا جہیز اور رشتہ طے کرتے وقت لڑکے سے پوچھے جانے والے سوالات دو مختلف نظریے رکھتے ہیں۔ یہ سوالات لڑکی یا اس کے گھر والوں کے ذاتی مفاد سے تعلق نہیں رکھتے بلکہ ایک نئی زندگی اور ایک نئی نسل کی کامیابی سے منسلک ہوتے ہیں۔ جس طرح بہو کا انتخاب کرتے وقت لڑکے کے والدین کیلئے لڑکی کے طورطریقےیا اس کی تعلیم اہمیت رکھتی ہے (کیونکہ ایک ماں نسل کو پروان چڑھانے کی ذمہ دار ہوتی ہے)، بالکل ویسے ہی لڑکی کے ماں باپ کیلئے بھی یہ جاننا اہم ہے کہ آیا لڑکا شادی کے بعد ان کی بیٹی کی ذمہ داری اٹھانے کی استطاعت رکھتا بھی ہے یا نہیں۔

ان سوالوں کو جہیز خوری سے منسوب کرنا درست نہیں کیونکہ گھر کی کفالت کا ذمہ دار مرد ہے، نہ کہ بہو کے گھر سے آنے والا جہیز اور نقد رقم۔ مرد اس معاشرے میں عزت دار مقام کا خواہشمند ہوتاہے تو کیا شادی کے وقت مطالبوں کے ذریعے لیا جانے والا جہیز اس کی عزت میں کمی کا باعث نہیں بنتا؟ ان سب باتوں پر سوچ بچار کی ضرورت ہے، ساتھ یہ بھی ضروری ہےکہ ہر شخص جہیز جیسی قابل مذمت رسم کو ایک لعنت سمجھتے ہوئے اپنا اپنا کردار دا کرے۔ وقت آگیا ہےکہ اس رسم کو ماں باپ پر بوجھ یا گالی نہ بننے دیا جائے۔ ایسا کرنے سے گھر بیٹھی بہت سے لڑکیاں ازدواجی رشتے میںبندھ کر ایک اچھی زندگی گزارسکیں گی۔