ہمارے گریجویٹس ملک کے اندر اور بیرونِ ملک پاکستان کا نام روشن کررہے ہیں

May 12, 2019

جنگ: سب سے پہلے عثمان انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی اور سسکو کے درمیان حالیہ دنوں میں طے پانے والی پارٹنرشپ کے بارے میں کچھ بتائیں؟

ڈاکٹر ظہیر علی سید: جی، شکریہ آپ کا۔ جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ ’سسکو‘ ایک بین الاقوامی ٹیکنالوجی کمپنی ہے جو نیٹ ورکنگ ہارڈویئر، ٹیلی کمیونیکیشنز آلات اور دیگر ہائی ٹیکنالوجی خدمات اور مصنوعات فراہم اور فروخت کرتی ہے۔ سسکو کی ان خدمات اور مصنوعات کا ہماری انڈسٹری میں بڑے پیمانے پر استعمال ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہماری انڈسٹری میں سسکو کے پروفیشنلز کی کافی مانگ ہے۔ اسی مانگ کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ہم نے سسکو کے ساتھ ایک معاہدہ کیا، جس کے تحت یو آئی ٹی کو ’سسکو اکیڈمی‘ کا درجہ حاصل ہوگیا ہے۔ ہم پہلے بھی کمپیوٹر انجینئرز تیار کررہے تھے، تاہم سسکو اکیڈمی کا درجہ حاصل ہونے کے بعد ہم سمجھتے ہیں کہ انڈسٹری کی ضروریات بہتر طور پر پوری کرپائیںگے۔

جنگ: کیا اس کے لیے خصوصی فیکلٹی ہائر کی گئی ہے یا کمپیوٹر کی موجودہ فیکلٹی ہی سسکو کی تعلیم دے گی؟

ڈاکٹر ظہیر علی سید: ہم کمپیوٹر سائنس اورسوفٹ ویئر انجینئرنگ میں بی ایس پروگرام آفر کرتے ہیں، جس کے لیے ہم ہائر ایجوکیشن کے طے کردہ اعلیٰ اورکڑے معیار کے مطابق ہی فیکلٹی کی خدمات حاصل کرتے ہیں۔ اب ہماری باصلاحیت فیکلٹی کو سسکو کے پروفیشنلز کی بھی سپورٹ حاصل ہوگی، جس سے انڈسٹری میں ہماری ساکھ میں اور بہتری آئے گی۔

جنگ: یو آئی ٹی اس وقت کون کون سے اکیڈمک پروگرام پیش کرتی ہے؟

ڈاکٹر ظہیر علی سید: یو آئی ٹی اس وقت بیچلر آف انجینئرنگ کے تحت الیکٹریکل انجینئرنگ-پاور، الیکٹریکل انجینئرنگ- الیکٹرانک، الیکٹریکل انجینئرنگ - کمپیوٹر سسٹمز اور الیکٹریکل انجینئرنگ - ٹیلی کمیونیکیشن کا چار سالہ ڈگری پروگرام پیش کرتی ہے۔ اس کے علاوہ ہم بیچلر آف سائنس کے تحت کمپیوٹر سائنس اور سوفٹ ویئر انجینئرنگ کی ڈگری آفر کرتے ہیں، یہ بھی چار سالہ ڈگری پروگرام ہے۔

جنگ: کیا یو آئی ٹی کے انجینئرنگ اور کمپیوٹرسائنس کے سارے پروگرامز Accreditedہیں؟

ڈاکٹر ظہیر علی سید: جی، عثمان انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی، این ای ڈی یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے ساتھ الحاق شدہ انسٹیٹیوٹ ہے۔ ہم اپنے پروگرامز کی آؤٹ لائن، ہائر ایجوکیشن کمیشن اسلام آباد اور صوبائی ایجوکیشن کمیشن کی گائیڈ لائنز کے مطابق تیار کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ، ہمارے بیچلر آف انجینئرنگ کے پروگرام، پاکستان انجینئرنگ کونسل جبکہ بیچلر آف سائنس کے پروگرام، ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ایکریڈیٹیشن ادارے ’نیشنل کمپیوٹنگ ایجوکیشن ایکریڈیٹیشن کونسل‘ سے منظور شدہ ہیں۔ ہمارے کمپیوٹر سائنس کے پروگرامز کو Wکیٹیگری میں رکھا گیا ہے، جوکہ یو آئی ٹی کے لیے ایک اعزاز کی بات ہے، کیونکہ کراچی میں صرف 6اور پاکستان بھر میں 18یونیورسٹیز/انسٹیٹیوٹس ایسے ہیں، جنھیں یہ اعزاز حاصل ہے۔

جنگ: جب آپ یہ کہتے ہیں کہ انجینئرنگ پروگرامز پاکستان انجینئرنگ کونسل سے منظور شدہ ہیں، تو اس کا کیا مطلب ہوتا ہے؟

ڈاکٹر ظہیر علی سید: پاکستان انجینئرنگ کونسل، انجینئرنگ کی تعلیم کی ایکریڈیٹیشن اور انجینئرنگ کے پروفیشن کی ریگولیشن کی ایک اسٹیچوٹری باڈی ہے۔ پی ای سی، انجینئرنگ کی تعلیم کے لیے آؤٹ کم بیسڈ ایجوکیشن (OBE)کو فروغدیتی ہے، تاکہ تعلیمی ادارے، انڈسٹری کی ضروریات اور نئے رجحانات کے مطابق، انجینئرنگ گریجویٹس تیار کرسکیں۔ پی ای سی کے یہ معیارات انجینئرنگ گریجویٹس کے ساتھ ساتھ فیکلٹی ممبرز اور ریسرچرز پر بھی لاگو ہوتے ہیں۔ آؤٹ کم بیسڈ ایجوکیشن سے مراد یہ ہے کہ طلباء میں صنعتی، حکومتی، معاشرتی، تعلیمی اور تحقیقی اداروں کے انتہائی اہم نوعیت کے پیچیدہ، تکنیکی، سماجی یا ماحولیاتی مسائل حل کرنے کی صلاحیت ہونی چاہیے۔ علاوہ ازیں، ان میں انجینئرنگ کے موجودہ علم میں مزید اضافے اور ترقی دینے کی صلاحیت بھی ہونی چاہیے۔

ساتھ ہی کورس لَرننگ آؤٹ کم (CLOs) بھی دیے جاتے ہیں، جن کے تحت انجینئرنگ کے طلباء میں ریاضی، سائنس اور انجینئرنگ کے بنیادی تصورات کا استعمال کرتے ہوئے انجینئرنگ کے پیچیدہ پرابلمز حل کرنے کی صلاحیت پیدا کی جاتی ہے۔ ان CLOsکے تحت طلباء کو انجینئرنگ کے شعبہ میں تحقیق، جدید آلات کے استعمال، ماحولیات اور پائیداری، اخلاقیات، انفرادی اور ٹیم ورک، ابلاغ (کمیونیکیشن)، پروجیکٹمینجمنٹ اور لائف لانگ لرننگ کے معیارات پر بھی جانچا جاتا ہے۔

جنگ: سُننے میں یہ سارے معیارات بہت اچھے معلوم ہوتے ہیں۔ ان پر عمل درآمد کس حد تک یقینی بنایا جاتا ہے؟

ڈاکٹر ظہیر علی سید: آپ کو یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ یو آئی ٹی میں آؤٹ کم بیسڈ ایجوکیشن (OBE)اور کورس لرننگ آؤٹ کم (CLOs)کے معیارات کو نہ صرف انجینئرنگ کے پروگرامز بلکہ کمپیوٹر سائنس کے پروگرامز پر بھی سختی سے لاگو کیا جاتا ہے۔ اس وقت تو یہ سارے معیارات رضاکارانہ طور پر لاگو ہیں لیکن ہائر ایجوکیشن کمیشن ان کا سنجیدگی سے جائزہ لے رہا ہے اور جلد ہی انھیں تمام پروگرامز پر لازمی طور پر لاگو کیا جائے گا۔

جنگ: آپ اکیڈمک پروگرامز کے علاوہ شارٹکورسز بھی آفر کرتے ہیں۔ کچھ اس حوالے سے تفصیلات بتائیں؟

ڈاکٹر ظہیر علی سید: یو آئی ٹی میں انڈرگریجویٹ پروگرامز کے علاوہ تین ماہ کے مختصر مدت کے مختلف شارٹ کورسز بھی آفر کیے جاتے ہیں، جو انڈسٹری میں پہلے سے موجود پروفیشنلز کو ان کے شعبے کے جدید رجحانات اور جدید ضروریات کے لیے تیار کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ شارٹ کورسز ان نوجوانوں کے لیےبھی مفید ثابت ہوتے ہیں، جو چار سالہ ڈگری پروگرام کے یا تو اخراجات برداشت نہیں کرسکتےیا پھر اپنی زندگی کے مزید چار سال تعلیم میں صرف کرنانہیں چاہتے۔ ایسے نوجوانوں اور پروفیشنلز کے لیے ہمارے شارٹ کورسز بہترین آپشن اور اچھا تجربہ ثابت ہوتے ہیں۔ مزید برآں، ان کورسز کے ذریعے یو آئی ٹی کو آمدنی کا ایک متبادلہ ذریعہ بھی حاصل ہوگیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم شارٹ کورسز کو مزید بڑھانا چاہتے ہیں۔

جنگ: آپ نے آمدنی کا ذکر کیا۔ عثمان انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی ایک ’ناٹ فار پرافٹ‘ تعلیمی ادارہ ہے۔ ایسے میں آپ اضافی آمدنی کی ضرورت کیوںمحسوس کرتے ہیں؟

ڈاکٹر ظہیر علی سید:آپ نے بہت اچھا سوال کیا ہے۔ عثمان انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی ’غیرمنافع بخش‘ ہونے کا صرف دعویٰ ہی نہیں کرتا، بلکہ ہم واقعتاً غیرمنافع بخش ادارے کے طور پر کام کرتے ہیں۔ یہ ادارہ حشم فیملی کی جانب سے، ان کے سب سے بڑے بیٹے کی یاد میں عثمان میموریل فاؤنڈیشن کے تحت قائم کیا گیا تھا، جو ایک اندوہناک حادثے میں کم عمری میں خالقِ حقیقی سے جاملے تھے۔ اپنے بیٹےکو خراج پیش کرنے کے لیے حشم فیملی کی جانب سے قوم کو عثمان انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کی صورت میں ایک غیرمعمولی تحفہ دیا گیا ہے۔ ہم یہاں عثمان انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں ذاتی مفاد سے بالاتر رہ کر اعلیٰ تعلیم کے شعبے میںقوم کی خدمت کررہے ہیں۔

جنگ: تو کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ چونکہ یو آئی ٹی ایک غیرمنافع بخش ادارہ ہے، اس لیے یہاں طلباء سے فیس بھی کم لی جاتی ہے؟

ڈاکٹر ظہیر علی سید: اعلیٰ معیاری تعلیم دینا نہ صرف ایک بڑی ذمہ داری والا کام ہے، بلکہ یہ سستی بھی نہیں ہے۔ اس لیے یہ سمجھنا درست نہیں کہ غیرمنافع بخش ہونے کے باعث یو آئی ٹی میں کم فیس لی جاتی ہے۔ہاں، ہم نہ تو بہت سستے ہیں اور نہ ہی بہت مہنگے۔ اگر ہمیں کوئی منافع حاصل ہوتا ہے تو وہ ادارے کے Reservesمیں چلا جاتا ہے، جسے ادارے کے توسیعی منصوبوں، اَپ گریڈیشن اور دیگر تعلیمی سہولیات پر خرچ کیا جاتا ہے۔

جنگ: یو آئی ٹی کے معیارِ تعلیم اور اب تک کی کارکردگی پر کچھ روشنی ڈالیں؟

ڈاکٹر ظہیر علی سید: عثمان انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی گزشتہ 24سال سے قوم کی خدمت میں پیش پیش ہے، جس نے اپنے لیے نیک نامی اور ٹھوس بنیاد بنائی ہے۔ ادارہ اب تک 3,800سے زائد گریجویٹس تیار کرچکا ہے، جو پاکستان کے علاوہ بیرونِ ملک بھی خدمات انجام دے رہے ہیں اور ملک کا نام روشن کررہے ہیں۔ ہمارا این ای ڈی یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے ساتھ الحاق ہے اور ہمارے گریجویٹس کو پروگرام کی تکمیل پر این ای ڈی کی ڈگری دی جاتی ہے، ہم اپنے طلباء کو عالمی طور پر تسلیم شدہ ڈگری ایوارڈ کرتے ہیں۔ مستقبل میں ہم سائنس اور ٹیکنالوجی کے علاوہ ہیومینٹیز، مینجمنٹ اور سوشل سائنسز کے ڈگری پروگرامز بھی آفر کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

جنگ: انسٹیٹیوٹ کے انفرااسٹرکچر کے حوالے سے بھی کچھ بتائیں؟

ڈاکٹر ظہیر علی سید: عثمان انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کا کیمپس اور کلاس رومز، دونوں Purpose-builtہیں، جن کے ڈیزائن اور تعمیر میں ماحول دوست ہونے کا خاص خیال رکھا گیا ہے۔ انسٹیٹیوٹ کی اپنی لائبریری ہے، جہاں انٹرنیٹ کی سہولت بھی دستیاب ہے۔ کیمپس کو وائی فائی نیٹ ورک کے ذریعے انٹرنیٹ سے جوڑا گیا ہے۔ انسٹیٹیوٹ میںاسٹیٹ آف دی آرٹ لیبارٹریز، کیفے ٹیریا، آڈیٹوریم اور سیمینار روم بھی موجود ہیں۔ انسٹیٹیوٹ کی ڈیجیٹل اور آن لائن لائبریری بھی ہے۔

جنگ: کیا انسٹیٹیوٹ کے ہونہار طلباء کو اسکالرشپس بھی دی جاتی ہیں؟

ڈاکٹر ظہیر علی سید: ہم ذہین طلباء کے علاوہ ضرورت مند طلباء کو بھی اسکالرشپس دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ، موجودہ طلباء کے بہن بھائیوں اور اسٹاف ممبران کے بچوں کو بھی فیس میں رعایت دی جاتی ہے۔ اگر ایک ہی والدین کے دو بچے یو آئی ٹی میں زیرِ تعلیم ہیں تو ایک بچے کو معیاری ٹیوشن فیس ادا کرنی ہوتی ہے، جبکہ دوسرے بچے کو ٹیوشن فیس میں 50فیصد رعایت دی جاتی ہے۔ تاہم یہ رعایت صرف وہ طلباء حاصل کرسکتے ہیں، جنھوں نے گزشتہ سیمسٹر میں کم از کم 2.0جی پی اے برقرار رکھی ہو اور کوئی ایف گریڈ نہ آیا ہو۔ اسٹاف ممبران، اپنے بچوں کے لیے ٹیوشن فیس میں 85فیصد رعایت حاصل کرتے ہیں۔

اسکالرشپس کے حوالے سے یو آئی ٹی کی ایک منفرد کاوش یہ ہے کہ 2016ء کے الیکٹریکل انجینئرنگ اور کمپیوٹر سائنس بیچ سے جو طلباء 2020ء میں گریجویٹ ہوکر نکلیںگے، تو ان دونوں پروگرامز میںسے ایک ایک ٹاپ کے طالب علم کو بیرونِ ملک سے ماسٹرز کرنے کے لیے سو فی صد اسکالرشپ آفر کی جائے گی۔

جنگ: کیا یو آئی ٹی میں فزیکل فٹنس کلچر کو بھی فروغدیا جاتا ہے؟

ڈاکٹر ظہیر علی سید: کہتے ہیںکہ صحت مند دماغ ہی معاشرے کا کارآمد فرد ثابت ہوسکتا ہے۔ یو آئی ٹی میں کھیلوں کے فروغ کے لیے ٹیبل ٹینس ایریا بنایا گیا ہے، جہاں فارغ اوقات میں طلباء اپنا وقت مثبت جسمانی سرگرمیوں میں گزار سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ بڑے پیمانے کے کھیلوںکے لیے انٹر انسٹیٹیوٹ ٹورنامنٹس میںہمارے طلباء حصہ لیتے ہیں، ہم بھی اپنے طلباء کے لیے شہر کے مختلف گراؤنڈز اور پارکس میں مختلف کھیلوں کا انعقاد کرتے رہتے ہیں۔