’’کعبے کی رونق کعبے کا منظر اللہ اکبر اللہ اکبر‘‘

May 14, 2019

ثناء خوانی ایک ایسی پاکیزہ عبادت،عادت اور سعادت ہے ،جو عطائے رب العزت بھی ہے اور عطائے رحمتہ للعالمین بھی۔ حمدیہ اور نعتیہ شاعری کے لیے ایک ایک قدم پھونک کر رکھنا پڑتا ہے۔ نعت کے حوالے سے بہت کم شخصیات ایسی ہیں، جنہوں نے نعت گوئی میں نام پیدا کیا اور پھر اسے پڑھنے میں بھی کمال حاصل کیا۔ عہد موجود میں سید صبیح الدین رحمانی کے نام سے کون واقف نہیں۔ وہ نعتیہ ادب میں اپنا منفرد مقام و مرتبہ رکھتے ہیں، جب وہ نعت کہتے ہیں تو سراپا سپاس ہوتے ہیں اور جب حمد کی منزل پر آتے ہیں تو بے اختیاری انہیں اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ ادھر جالیوں کی حضوری میں حاضری کی لذت پاتے ہیں تو ادھر غلافِ کعبہ کی پہنائیوں میں امان و تحفظ محسوس کرتے ہیں۔اُن کے یہاں دونوں رنگوں کا امتیاز بھی ہے اور امتزاج بھی۔ سید صبیح الدین رحمانی کی لکھی ہوئیں حمد و نعت میں ایک طرح والہانہ پن اور وجد کی کیفیت کا احساس نمایاں ہوتا ہے۔ وہ خوش نصیب ہیں کہ قدرت نے انہیں نعت گو بھی بنایا اور نعت خواں بھی۔اُن کی مشہور حمد اور نعتوں میں،کعبے کی رونق کعبے کا منظراﷲ اکبر اﷲ اکبر،حضور ایسا کوئی انتظام ہوجائے،لب پہ نعت پاک کا نغمہ کل بھی تھا اور آج بھی ہے، شامل ہیں۔ ان کی لکھی ہوئی نعتوں کو ہندو اور سکھ برادری سے تعلق رکھنے والوں نے پڑھا۔ انہوں نے کم عمری میں نعت خوانی کا آغاز کیا۔بعد ازاں انہوں نے نعتیہ کلام لکھنا شروع کیا۔ وہ بہ حیثیت نعت خواں بعد میں مقبول ہوئے۔ اس سے قبل وہ نعت گو کی حیثیت سے شہرت و مقبولیت حاصل کرچکے تھے۔سید صبیح الدین رحمانی شعبۂ نعت کے حوالے سے ایک ہمہ جہت شخصیت کے طور پر اپنی منفرد شناخت رکھتے ہیں۔ وہ بہ یک وقت نعت گوئی، نعت خوانی، نعت پر ریسرچ، نعتیہ کتب اور نعتیہ رسائل کی اشاعت کے لیے کام کررہے ہیں۔ نعت رنگ، کاروان نعت، سفیر نعت اور نعت نیوز جیسے مقبول جریدے ان کے تعاون سے شائع ہورہے ہیں۔ کئی برس پہلے عالمی شہرت یافتہ نعت خواں قاری وحید ظفر قاسمی نے ان کی لکھی ہوئی نعت ’’حضور ایسا کوئی انتظام ہوجائے‘‘ پڑھی، جو بے پناہ مقبول ہوئی۔ان کی زیر نگرانی شائع ہونے والے ’’نعت رنگ‘‘ کو صدارتی ایوارڈ عطا کیاگیا۔ اُن کی اب تک درجنوں نعتوں کی آڈیو کیسٹس اور سی ڈیز دُنیا بھر میں ریلیز ہوچکی ہیں۔ انہوں نے اپنی زندگی نعت اور اس کے فروغ کے لیے وقف کر رکھی ہے۔ وہ سچے عاشقِ رسول ہیں۔ حکومتِ پاکستان کی جانب سے رواں برس انہیں تمغہ امتیاز عطا کیا گیا۔گزشتہ دِنوں ان سے ایک ملاقات کی گئی، اس موقع پر ہونے والی بات چیت کی تفصیل قارئین کی نذر ہے۔’’ آپ نعت لکھتے ہیں اور پڑھتے بھی ہیں،نعت پڑھنا زیادہ اچھا لگتا ہے یا لکھنا؟ اس سوال کے جواب میں سید صبیح الدین رحمانی نے بتایا’’ نعت لکھنا، پڑھنا اور سماعت کرنا انتہائی سعادت کی بات ہے۔ نعت روشنی کا ایک استعارہ ہے۔ نعت ہمیں ادب کا سلیقہ اور قرینہ سکھاتی ہے۔ آدمیت کو انسانیت کی راہ پر لا کر منزلِ توحید سے روشناس کرواتی ہے۔ نعت کہنے کے لیے کوئی صنف مخصوص نہیں۔ مسدس، قطعہ، رباعی، ثلاثی، دوہے، ماہیے اور ہائیکو میں بھی نعت لکھی جا رہی ہے۔ نعت ہمارا ادبی اور ثقافتی ورثہ بھی ہے۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران اردو ادب میں نعت کی تخلیق، اشاعت اور مقبولیت میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ حمد و نعت گوئی بیک وقت فکر کا مرحلہ بھی ہے اور فن کی بساط بھی۔ مجھے نعت سے جڑی ہر چیز سے پیار ہے۔‘‘ تعلیم کہاں تک حاصل کی؟ کراچی یونی ورسٹی سے اردو ادب میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد پی ٹی سی ایل میں ملازمت اختیار کی ، اُس کے بعد ایک مقامی چینل میں پروڈیوسرو ڈائریکٹر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔‘‘

’’ گزشتہ20 برسوں میں جونعت خوانی میں بڑی تبدیلیاں آئیں۔ اس بارے میں کیا کہتے ہیں’’ زندگی کا کوئی بھی شعبہ ہو، جب وہ سفر کرتا ہے، آگے بڑھتا جاتا ہے تو تبدیلیاں فطری طور پر آتی ہیں، صرف نعت ایک ایسا شعبہ ہے، جہاں بنیاد ہی ادب ہے۔ اگر ہماری کسی بھی تبدیلی سے یا کسی بھی تجربے سے ادب محفل سے رخصت ہوجائے تو یہ سمجھ لیجیے کہ ایسی ہر تبدیلی، ایسا ہر تجربہ نعت کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہوگا۔ گزشتہ چند برسوں میں کچھ نئے ٹرینڈز سامنے آئے ہیں، جس میں نعت خوانی کے دوران ذکرکا ٹرینڈ

آیا ہے، تا کہ نعت کے بیک گرائونڈ میں ذکر کا ایک ردھم پیدا کیا جائے، اسے بہت سے لوگوں نے بہت کثرت سے سُنا، ظاہر ہے ایک نئی چیز تھی، کچھ لوگوں نے وقتی طور پر اسے پسند کیا، لیکن جب ان لوگوں کو شعور ہوا کہ اس میں بے ادبی کا اظہار زیادہ ہے، تو وہ اس سے تائب ہونا شروع ہوئے ۔اس کے علاوہ علماء نے بھی اس کی شدید مخالفت کی۔‘‘

’’پچھلے چند برس میں کم سن نعت خوانوں کے رجحان میں شدت سے اضافہ ہوا ہے‘‘؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’’پچھلے چند برس میں نعت خوانی جب بہت زیادہ ٹیلی ویژن پر دکھائی جانے لگی، تو لوگ بہت تیزی سے اس جانب متوجہ ہوئے تو اس کا ایکسپوژر بھی بڑھا اور اس سے مالی فوائد بھی بڑھ گئے ،ایسی صورت میں لوگ اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو لے کر مذہبی چینلز پر آگئے۔ ان کو پتا تھا کہ یہاں سے فوری شہرت حاصل کی جاسکتی ہے۔ ظاہر ہے بچے اچھے پڑھنے والے تھے، خوب صورت آوازیں تھیں، تو انہوں نے اپنی جگہ بنائی اور پھر یہ ایک ٹرینڈ بن گیا۔ پھر سب نے دیکھا کہ وہ جس تیزی سے آتے ہیں، اسی تیزی سے رخصت ہوجاتے ہیں۔‘‘

’’نعت خوانی کو پروفیشن بنانے کے حوالے سے آپ کے کیا خیالات ہیں؟‘‘ اس سوال کے جواب میں انھوں نے کہا ’’پیشے کا لفظ میرے خیال میں اس کے لیے اچھا نہیں ہے۔ آج اگر نعت خواں اپنی پیشہ ورانہ مصروفیات کے باعث آج ملتان میں ہے، کل کراچی میں، پرسوں ٹوبہ ٹیک سنگھ میں اور پھر ملک سے باہر تو اس کا روزگار تو کوئی باقی نہیں رہ سکتا۔ کوئی ایسا آدمی نہیں جو ان ساری باتوں کے باوجود اس کو نوکری پر رکھے۔ اس لیے اس شعبے سے وابستہ افراد کو مناسب معاوضہ دینا چاہیے۔‘‘

’’اپنا لکھا ہوا کلام پہلے آپ خود پڑھتے ہیں یا کسی اور نعت خواں کو دیتے ہیں؟‘‘ اس سوال کے جواب میں سید صبیح الدین رحمانی نے بتایا کہ اپنا لکھا ہوا کلام پہلے میں خود پڑھتاہوں اور بعد میں اسے دوسرے نعت خواں بھی پڑھنا شروع کردیتے ہیں۔‘‘’’اسکول کے زمانے سے ہی آپ نعت خواں بننا چاہتے تھے؟‘‘ جواب میں انہوں نے بتایاکہ ’’اسکول کے زمانے ہی سے نعت میرے خون میں دوڑتے ہوئے محسوس ہوئی، مجھے شاید اللہ رب العزت نے نعت کی خدمت ہی کے لیے پیدا کیا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ بہ حیثیت خادم نعت کے، اپنے آپ کو سب سے زیادہ خوش نصیب سمجھتا ہوں۔ اس کا فیصلہ کہ میں اچھا نعت خواں ہوں یا نعت گو شاعر ہوں یہ میں نہیں کہہ سکتا۔‘‘ ’’ ذاتی زندگی کے بارے میں کچھ بتائیے؟‘‘ اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’’میری شادی کو کئی برس ہوچکے ہیں۔ میری اہلیہ،میرے بچے اور بہن بھائی بھی نعت خوانی کرتے ہیں۔ قدرت نے مجھے دو بیٹے اور ایک بیٹی سے نوازا ہے۔ میرے دونوں بیٹے بھی نعت کے شعبے سے وابستہ ہیں اور بیٹی ابھی زیرتعلیم ہے، وہ ماسٹرز کررہی ہیں۔ وہ بھی نعت پڑھتی ہے۔‘‘ آپ نے نعت خوانی میں خُوب نام پیدا کیا، یہ سب کچھ کیسا محسوس کرتے ہیں؟ رب کی عطا کےبغیر کوئی چیز نہیں ملتی۔ اتنی شہرت اور کام یابی میرے نصیب میں لکھی ہوئی تھی۔ تو مجھے ملی،ورنہ کام تو سب ہی اچھا کررہے ہیں۔یہ سب میرے رب کی مہربانی ہے۔‘‘ آپ کو حکومتِ پاکستان کی جانب سے رواں برس تمغہ امتیاز عطا کیا گیا، اس وقت آپ کی کیا کیفیت تھی؟ جواب میں انہوں نے بتایا کہ میری زندگی کا مقصد نعت کا فروغ ہے، اس حوالے سے جو بھی انعام یا ایوارڈ ملتا ہے تو بے حد خوشی ہوتی ہے۔