آپ کا صفحہ: عوام النّاس کی خدمت....

May 19, 2019

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

ماں واری جائے

ایڈیٹر صاحبہ! اتنے بڑے اشاعتی ادارے کے ایک کثیرالاشاعت میگزین کی ایڈیٹر ہونے کے ناتے صفحہ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ پر لوگوں کے اعتراضات کے جواب میں آپ کا یہ کہنا کہ ’’اپنے دین کی حفاظت کے لیے تھوڑی محنت آپ بھی کرلیا کریں‘‘ انتہائی نامناسب بات ہے۔ ماں واری جائے، ایسے جواب پر۔ آپ کے لیے تو ماڈلنگ کا صفحہ شیڈول کرنا لازم ٹھہرا، اس کے بغیر جریدہ بکتا جو نہیں۔ آپ ایڈیٹر ہیں، قارئین کو مطمئن کرنا آپ کی ذمّے داری ہے۔ آپ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کے پیچھے بچّوں کا صفحہ بھی تو شایع کرسکتی ہیں۔ (اسلم قریشی، ملیر، کراچی)

ج: کس کی ماں واری صدقے جارہی ہے ہم پر…؟؟ اُن سے کہیں پہلے آپ کی تو نظر اُتارلیں۔ چشمِ بددُور، سرِورق پر ’’بچّوں کا صفحہ‘‘ چھاپنے جیسا معرکتہ الآرا مشورہ آپ ہی دے سکتے ہیں۔ کسی اور کی تو وہاں تک سوچ بھی نہیں جاسکتی۔

’’جہاد بالقلم‘‘ کے ساتھ

ہم قارئین، آپ کے ’’جہاد بالقلم‘‘ کے ساتھ ہیں۔ جنگ گروپ کا پچھلی کئی دہائیوں میں کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکا، تو آئندہ بھی اِن شااللہ تعالیٰ اس کا بال بھی بیکا نہیں ہوگا۔ ( ولی احمد شاد، الامین سٹی، ملیر،کراچی)

ج: لگتا ہے، آپ ’’تبدیلی اینڈ کو‘‘ سے کچھ زیادہ اچھی طرح واقف نہیں ہیں۔

فکر انگیز تحریر

خوشبو کے موسم میں رنگا رنگ شولڈر بیگز کی بہار نے مَن موہ لیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ایمان افروز تذکرہ بہت پسند آیا۔ ڈیجیٹل آلات کے بچّوں پر اثرات، فکرانگیز تحریر تھی۔ سیّدہ رابعہ سے شفق رفیع کی بات چیت بھی بہت پسند آئی۔ ’’سیلانی پاکستانی‘‘ اورناقابلِ فراموش کے واقعات نے بھی متاثر کیا ۔ ( عبدالجباررومی انصاری، بورے والا)

آزادی کا رونا

’’قصص الانبیا‘‘ سلسلے میں حضرت ابراہیمؑ کی دعائوں، معجزات اور اُن کو راتوں میں بےدار کردینے والی اُن صدائوں کا تذکرہ نہیں کیا گیا کہ جنگلوں سے’’ابراہیمؑ…ابراہیمؑ‘‘ کی سرگوشیاں آیا کرتیں اورابراہیمؑ کےبسترچھوڑکر’’ندا‘‘کو تلاشنےنکل کھڑے ہونے پر راہ کے اشجار و اثمار منور ہوجایا کرتے تاکہ ضیا فراہم کرسکیں۔ البتہ آخری قسط میں حضرت اسحق علیہ السلام کی پیدائش کے ماجرے، حضرت حاجرہ ؑ کی وفات اور حضرت اسمعیل علیہ السلام کے نکاح کے واقعات نے متاثر کیا۔ نجم الحسن عطا نے بہترین، سنجیدہ اور متین انداز میں جامع لکھا۔ نریندرمودی کی آنکھوں پر ہاتھ رکھے تصویر اور ’’جنگی ہسٹریا‘‘ کی سُرخی بہت کچھ کہہ رہی تھی۔ منور راجپوت نے میعاد گزرے کھانوں سے متعلق بہت اچھا لکھا۔ مضمون پڑھ کر تو جالینوس کا مشہورِ عام فقرہ یاد آگیا، جسے مختلف مفکّرین کے ناموں سے منسوب کیا جاتا ہے ’’ایک خاص وقت تک آدم، روٹی کھاتا ہے، بعد ازاں روٹی، آدم کو کھا جاتی ہے‘‘۔ ایڈیٹر صاحبہ کا ’’آزادئ نسواں‘‘ پڑھا اور پڑھ کر چکّر سا آگیا کہ آخر عورت کب تک اپنی آزادی کا روناروتی رہے گی۔ ملک ارشد نے اسکول ایجوکیشن کی زبوں حالی کا عمدہ نقشہ کھینچا۔ منور مرزا نے ’’بریگزٹ‘‘ کے برطانوی خطرات وتفکّرات کاجائزہ پیش کیا۔ ’’متفرق‘‘ میں روزنامہ جنگ کی ادبی خدمات‘‘ پر پروفیسر ڈاکٹر طاہر مسعود اور ڈاکٹر رضا کاظمی کا محاکمہ پیش کیا گیا، تو مہ وَش طالب نے’’ پاکستانی سیمسٹر سسٹم‘‘ کوعالمی معیار تک لانے کی سعی فرمائی اور خُوب فرمائی۔ (پروفیسر مجیب انوار حمیدی، گلبرگ ٹائون، کراچی)

ج: ایڈیٹر صاحبہ نے’’ آزادئ نسواں‘‘ کے حق میں نہیں، مخالفت میں لکھا تھا۔ خطوط میں 6-6 صفحات کے لیکچر جھاڑنے سے پہلے اگر آپ تحریر پڑھنے کی زحمت بھی کر لیا کریں، تو کیا ہی بات ہو۔

زورِ قلم اور زیادہ

سنڈے میگزین میں اسلامی صفحہ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ قابلِ تحسین و صد آفرین ہے۔ اختصار سے لکھا ہوا مضمون، گویا دریا کو کُوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے۔ اس مہارت اور فن پر ایک قاریہ کا سلامِ عقیدت قبول کیجیے۔ اللہ کرے، محمود میاں نجمی کا زورِقلم اور زیادہ۔ (ارم لاہوری، واہ کینٹ)

خادم ملک کی صف

اس بار بھی ہمیشہ کی طرح دو ہی شماروں پر تبصرہ کروں گا۔ آپ کے حکم پر اب تازہ شماروں ہی پر تبصرہ کررہا ہوں، امید ہے آپ مجھے اعتراض ملک، سوری خادم ملک کی صف میں نہیں رکھیں گی۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کے متبرّک صفحات مسلسل شایع ہو رہے ہیں۔ خواتین کے حقوق کے حوالے سے مضمون خوب تھا۔ حریّت رہنما، یاسین ملک کی اہلیہ مشال ملک اور شہید ذوالفقار علی بھٹو یونی ورسٹی آف لا کے وائس چانسلر پروفیسر جسٹس (ر) قاضی خالد کے انٹرویو پسند آئے۔ سندھ، بلوچستان کے چوکنڈی قبرستان کے بارے میں اچھی معلومات ملیں۔ سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس جواد ایس خواجہ کے ہرسُکھ اسکول بنانے پر ہم انہیں سیلوٹ پیش کرتے ہیں۔ ڈاکٹر ساجد اسلام بھٹی نے ذیابطیس اور گُردوں کے مرض پر معلوماتی مضمون لکھا، تو خانوادے میں بھی علم وآگہی کے گھنے شجر، پروفیسر کرّارحسین سے متعلق لاجواب معلومات تھیں۔ (پرنس افضل شاہین، ڈھاباں بازار، بہاول نگر)

ج: ارے نہیں بھئی، خادم ملک کی صف میں شامل ہونا، کوئی ایسا آسان کام نہیں کہ ہر دوسرا تیسرا کرنے لگے۔ وہ تو بس اپنی ذات میں کندن، اپنی مثال آپ ہی ہیں۔

باقاعدگی سے عمل

آپ کے حُکم نامے کہ ’’پہلا خط شایع ہونے کے بعد دوسرا لکھا کریں‘‘ پر باقاعدگی سے عمل کررہے ہیں۔ البتہ میگزین کا مطالعہ مستقل جاری و ساری ہے۔ محمّد سلیم راجہ نےمصباح طیّب کی حکومت میں ہمیں ’’وزیرِ مہنگائی‘‘ بنادیا۔ مگر خادم ملک، چاچا چھکّن اور ولی شاد وغیرہ کو کوئی وزارت نہ دی، یہ زیادتی ہے۔ ہماری گزارش ہے کہ ان لوگوں کے لیے بھی گنجائش نکالی جائے۔ باقی جریدہ اور خصوصاً ’’آپ کا صفحہ‘‘ حسبِ روایت لاجواب ہی ٹھہرے۔ (شبو شاد شکارپوری، الامین سٹی، ملیر، کراچی)

ج:شاباش، اِسی روش پر قائم رہیے گا۔ اس طرح کم از کم نئے لوگوں کو موقع تو ملتا رہتا ہے۔

کم قیمت، معیاری جریدہ

مَیں پہلی مرتبہ ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں کچھ لکھنے کی جسارت کر رہا ہوں۔ بہت خوشی ہوتی ہے، ’’سنڈے میگزین‘‘ پڑھ کے کہ آج کے دَور میں بھی اتنی کم قیمت پر ایسا معیاری جریدہ دستیاب ہے۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ اور خصوصاً آپ کے جوابات سے تو بہت ہی لُطف اندوز ہوتا ہوں۔ (یاسر جمالی، جعفر آباد، بلوچستان)

ج: دیکھتے ہیں، میڈیا انڈسٹری کا یہ بحران کس نہج تک جاتا ہے اور معیار و اعتبار کا یہ رشتہ کب تک بنا رہتا ہے۔ بہرحال، جریدے کی پسندیدگی کا شکریہ۔

گلیات کی داستان

’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا نے سانحہ کرائسٹ چرچ پر کیا عُمدہ مضمون لکھا کہ پڑھ کر دل خوش ہوگیا۔ کیوی وزیراعظم کے لیے تو دل سے دُعائیں نکلتی ہیں۔ ’’انٹرویو‘‘ میں رضا علی حبیب کی بات چیت، سوال جواب کی صُورت نہیں تھی۔ لگ رہا تھا کہ انہوں نے گلیات کی داستان بیان کر کے کر رکھ دی ہے۔ سرِورق پر تو ایسا لگا، جیسے بہار آگئی ہو۔ ’’پیارا وطن‘‘ میں مظفر گڑھ کی تاریخ پڑھ کے اچھا لگا، مگر قومی وَرثے کی حفاظت بھی ہونی چاہیے۔ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ میں اداکار حبیب کی یادیں تازہ کرنے کا شکریہ۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ کا صفحہ بہت عُمدہ جا رہا ہے۔ ’’گوشہ برقی خطوط‘‘ میں عائشہ طارق کی ای میل دیکھی، ارے بھئی نئی نسل کو کیا پتا کہ ڈاک خانے اور تار گھر کیا ہوتا ہے۔ آج کل تو نیٹ اور کمپیوٹر کا دَور ہے۔ ویسے آپ کا جواب ہمیں بہت ہی پسند آیا۔ صدائے کشمیر، سارہ خان بڑے عرصے بعد آئیں اور ’’اس ہفتے کی چِٹھی‘‘ کا اعزاز لے اڑیں۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)

ج: ڈی سی گلیات، گلیات کی داستان نہ بیان کرتے، تو کیا کرتے۔ ویسے بندہ خط لکھے تو سارہ خان، مہناز بٹ، ڈاکٹر کومل عبدالستار اور محمد سلیم راجہ ہی کی طرح لکھے کہ جب بھی آئیں، بس چھا جائیں۔

کم صفحات، جان دار، شان دار انداز

میگزین کے حسین آنگن میں اِدراک وشعور کے دِیپ جلاتی، پختہ فِکر تحریرات روشن سوچ عطا کرتی ہیں۔ تازہ شمارہ رُوبرو ہے، بیک گرائونڈ میں پیلے رنگ اور ہلکی سفید لائنوں سے آراستہ قدرے شوخ سرورق رعنائی بکھیر رہا ہے۔ ’’کون لایا ہے، ہوائوں کی معطّر پالکی…‘‘ نے پورے میگزین کو معطّر سا کردیا۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کے سلسلے قصص الانبیاء میں حضرت ابراہیم علیہ السلام جیسے جلیل القدر پیغمبر پر روحانی لذت سے بھرپور تحریر لکھی گئی۔ اس مرتبہ ’’حالات و واقعات‘‘ کی مسند منور مرزا نے سنبھالی۔ لگتا ہے ’’عالمی اُفق‘‘ کو تھوڑا آرام دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ شدّت پسندی کے خاتمے پر مفصّل مضمون دل چسپی کا حامل تھا۔ ’’رپورٹ‘‘ میں ارشد عزیز ملک نے ایف سی اسپورٹس گالا پر شان دار تحریر رقم کی، تو ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں رفیق مانگٹ نے ڈیجیٹل آلات کے تباہ کُن اثرات سے تفصیلاً آگاہ کیا۔ ساڑھے تین صفحات کی طویل تحریر میں ڈیجیٹل آلات کے منفی اثرات بہت عُمدگی سے بیان کیے گئے۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ پر حاضری دی، تو وہاں ہوائوں کی معطّر پالکی میں سجے ملبوسات پر مختصر تحریر مہک رہی تھی۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں شکیل احمد چوہان نے ’’سیلانی پاکستانی‘‘ لکھ کر بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا۔ قائداعظمؒ کے فرمودات بھی لاجواب تھے۔ پیارا گھر کی دعوتِ خاص میں’’ڈرم اسٹک بریانی‘‘ پسند آئی۔ نئی کتابیں میں ڈاکٹر قمر عباس اور سلطان محمد فاتح کے تبصرے بھی حُسن بکھیرتے رہے۔ میگزین کے صفحات بے شک 20 ہوگئے ہیں، لیکن ہم اب بھی اس کا حصّہ ہیں اور اِن شاء اللہ آئندہ بھی رہیں گے، جب کہ 20 صفحات کے رسالے کو جان دار اور شان دار انداز سے اشاعت کے قابل بنانے پر ہم آپ اور آپ کی پوری ٹیم کی دل سے قدر بھی کرتے ہیں۔ (ملک محمد رضوان، محلہ نشیمن اقبال، واپڈا ٹائون، لاہور)

ج: حوصلہ افزائی، ذرّہ نوازی کا بے حد شکریہ۔

دو دو اعزازات

پچھلے خط کے جواب میں آپ نے مجھے بہ یک وقت دو دو اعزازت ’’فلسفی اور نامہ نگار‘‘ سے نواز دیا، اللہ خوش رکھے۔ فلسفی تو ہم ہیں۔ ایک مقامی کالج کے پرنسپل نے ہمیں گھر سے بلوا کر شعبہ اناٹومی کی ذمّے داری دے دی۔ ایک سیمسٹر ہی طلبہ کو پڑھایا تھا کہ موصوف گویا ہوئے، ’’ہمیں پروفیسر چاہیے، فلسفی نہیں‘‘۔ خیر، میگزین عُمدہ ہے۔ بے شک کھانے کو زہر ملے، مگر کھانا مل تو رہاہےناں۔ نجم الحسن عطا جتنا مرضی پروپیگنڈا کرلیں۔ بھئی، ہمارے لیے تو جریدہ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ ہی ہے۔ نرجس ملک کا ایک مفصّل مضمون ’’آزادئ نسواں‘‘ پڑھنے کو ملا، بہت خُوب۔ مگر چادر اور چار دیواری کدھر گئی۔ جب اسلام کا حوالہ دیتے ہیں ناں تو ایسی صُورت میں صنفِ نازک کو مومنات میں شامل ہونے کی ترغیب دیتے ہیں۔ تب ہی یہ ہماری مائیں، بہنیں، بیٹیاں کہلاتی اچھی لگتی ہیں۔ ہاں، مگر جو عورت کو اشتہار بناتے ہیں، وہ بھی ایک لمحۂ فکریہ ہے۔ ’’عالمی افق‘‘ میں تھریسامے مسلسل تیسری بارشکستِ فاش سے دوچار ہوئیں۔ لوجی، یہ شعبہ بھی تمام ہوا، بےیقینی آخرکار اپنے انجام کو پہنچی۔ دیکھیے آگے آگے ہوتا ہے کیا۔ ارشد عزیز ملک نے ناخواندگی پر اچھا لکھا، حکومت کو چاہیے کہ عوام النّاس کو کم از کم اخبار پڑھنا اور خط لکھنا تو سکھا دے۔ اور ’’پیارا گھر‘‘ کتنا خُوب صُورت تھا اب کی بار۔ معلوم ہے، آلو کی جو گانٹھیں ہوتی ہیں، انہیں ’’آنکھیں‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ ’’چھپّر چھائوں‘‘ کی ’’آنکھیں‘‘ بھی قابلِ دید تھیں۔ ظاہر ہے جب طلبہ کو ڈنڈے ماریں گے، تو مکافاتِ عمل کے تحت کبھی نہ کبھی تو طالب علم بنناپڑہی جاتا ہے۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں اس بار تین شعراء کا کلام شایع ہوا۔ کیا ادارے کی حکمتِ عملی تبدیل ہوگئی ہے؟ متفرق میں ادارئہ جنگ کی ’’ادبی خدمات‘‘ کا ذکر تھا، تو اس حقیقت کا کون معترف نہیں۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں آپ نے ہمیں سراہا، شکریہ۔ فلسفی، نامہ نگار اور افسانہ نگار بنا دیا، بھئی بہت خُوب۔ (ڈاکٹر حمزہ خان ڈاھا، لاہور)

ج:اپنا یہی خط ایک بار خود پڑھ دیکھیں، فلسفہ اور بھلا کیا ہوتا ہے۔ اور پھر ہماری بات پر تو مقامی کالج کے پرنسپل پہلے ہی مُہرِتصدیق ثبت کرچُکے ہیں۔ انہیں تو پروفیسر درکار تھا، فلسفی نہیں۔ جب کہ ہماری ڈیمانڈ تو پروفیسر کی بھی نہیں، اِک عام خط نویس بھی چلے گا۔ ابھی تو ہمارے ’’زہرملے کھانے‘‘ کے سبب بھی آپ لوگوں کی فلاسفی کچھ زیادہ باہر نہیں آپاتی۔ وگرنہ اندازہ ہمیںبھی ہےکہ خیر سے مُلکِ عزیز میں عوام النّاس کم، ’’سقراط، بقراط‘‘ زیادہ ہیں۔

عوام النّاس کی خدمت

ریسٹورنٹس کے غیر معیاری کھانوں سے متعلق منور راجپوت کی تحریر پڑھی۔ کئی چشم کُشا حقائق سامنے آئے۔ آپ لوگ عوام النّاس کی بڑی خدمت کر رہے ہیں ، اللہ آپ کو اس کا اجر دے۔ (گل شاہ)

علمی و ادبی خدمات کا اعتراف

بندہ روزنامہ جنگ اور سنڈے میگزین کا باقاعدہ قاری اور اس جریدے کی علمی و ادبی خدمات کا دل سے معترف ہے۔ اور آج اسی لیے شریک محفل بھی ہوا ہے۔ (اویس حبیب، چشتیہ پارک، فیصل آباد )

ج: اس قدر زحمت اُٹھانے پر بندی کی طرف سے، بندے کا بے حد شکریہ

فی ا مان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

آدابِ محبت! اپنے یقین کے عین مطابق اپنا ڈیبیو صفحے کے عین وسط میں براجمان دیکھا، لیکن زیادہ خوشی خُوب صُورتی سے سنوری نوک پلک دیکھ کر ہوئی کہ جی ابھی تو ہم بچّے ہیں، میچور ہونے میں ذرا وقت تو لگے گا ہی ناں…!خیر بڑھتے ہیں، دو شماروں کےدرمیان تعریفوں کے پُل باندھنے کی طرف…صفحۂ آغاز میں ’’قصص الانبیاء‘‘ کا سرچشمۂ ، چشم وعقل کو خیرہ کرتا ہوا کام یابی سے گام زن نظر آیا۔ منور مرزا نے جہاں نیوزی لینڈ کے حالات وواقعات کا تجزیہ کیا، وہاں عالم کے اُفق پر داعش کے خاتمے کا اعلان بھی کردیا۔ اب دیکھتے ہیں، فسادِ عالم کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ رضا علی حبیب سے ملاقات، انٹرویو کی بجائے فیچر لگی۔ البتہ ڈاکٹر سعید الدّین سے نشست لا جواب تھی کہ اُن کی سلجھی باتوں میں بڑا دَم نظر آیا۔ منور راجپوت کی آٹو انڈسٹری کی رپورٹ میں تصاویر کے حوالے سےکچھ کنجوسی برتی گئی۔ ڈاکٹر ناظر محمود کی تحریر لائقِ تعریف ٹھہری۔ کہی اَن کہی میں ایک طرف رضا زیدی کی والٹ سے متعلق قناعت پسندی تھوڑی عجیب لگی، تو دوسری طرف عالیہ کاشف کے توسّط سے یاد آیا کہ ’’ایک تھی نرما…‘‘ شفق رفیع نے فیچر میں ’’ضرورتِ رشتہ‘‘کے تحت ایک اہم مسئلے کو بہت عُمدہ انداز سے اجاگر کیا۔ طارق بلوچ صحرائی کی میگزین میں موجودگی خوش گوار محسوس ہوئی، تو چاچا چھکّن کہیں سے خلیل جبران کو ڈھونڈ لائے، لیکن معین قریشی کی کاوش کے ساتھ زیادتی ہوئی۔ ایک تو دسویں مصرعے میں غلطی، دوم مئی کے تناظر میں لکھے گئے اشعار کو اپریل میں شایع کر کے مزدور کے کیف کو بے کیف کر دیا گیا۔ ڈاکٹر قمر عباس کا تعلق کہیں نیب سے تو نہیں؟ پتا نہیں کہاں کہاں کی ہستیاں حاضرِ خدمت کرتے رہتے ہیں۔ متفرق میں ہمایوں ظفر، ایم رفیق جیسے شبیہ ساز کو ڈھونڈ لائے، تو مجیب الرحمٰن نے اپریل فول کو منفرد انداز سے بیان کیا۔ ویسے اگر مجھے زندگی میں کبھی کوئی اتھارٹی نصیب ہوئی، تو اس دن کو ’’اپریل کول‘‘ سے بدل کر ماحولیاتی انداز سے منانے کا اجراء کروں گا۔ آپ کی انجمن میں اسماء کا ’’سال نامہ‘‘ اور سارہ کا ’’سُسرال نامہ‘‘ دونوں ہی خُوب تھے۔ اگر سچ بتائوں تو میگزین کا حصّہ بننے کی تحریک مجھے سارہ کے اندازِ تحریر سے ملی ہے۔ نوابوں پر فیچر لکھوانا ایک اچھا مشورہ ہے کہ نت نئےریسٹورنٹس کُھلنے کی بابت گلی کوچوں سے ان کی تعداد ایسے غائب ہو رہی ہے، جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ یہ ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں عموماً حضرات، ماڈلز پر ایسے تبصرہ کیوں کر رہے ہوتے ہیں، جیسے خود تو آرڈر پر تیارہوئےہوں۔ اورہاں، میرے خیال میں’’آپ کا صفحہ‘‘ کے آخر میں لکھی گئی عبارت میں ترمیم ہونی چاہیے کہ یہ پتا تمام صفحات کا حصّہ بننے کے لیے بھی ہے، تاکہ نئے لکھاریوں کو آسانی رہے۔ ایک اور بات، ہمیں اپنا ہرکارنامہ ایک ایسا عظیم شاہ کار لگتا ہے، جو پوری دنیا میں تہلکہ مچا سکتا ہے، لیکن اگر دنیا اس کی اشاعت سے قاصر رہے، تو ہماری ایک دو مہینے بعد کی ٹھنڈے دماغ سے کی گئی، کارنامے پر نظرثانی، ہماری کہانی اپنی زبانی بیان کردے گی۔ (مرزا تحسین بیگ، ازدامنِ شیر، دریائے سندھ، لیّہ)

ج: لیجیے، دنیا نے شایع ہی نہیں، نمایاں طورپر شایع کر کے اگر، مگر کا سارا جھگڑا ہی ختم کردیا۔

گوشہ برقی خُطوط

٭ میری میلز کیوں شایع نہیںہوتیں۔ مَیں تو ہر ہفتے ای میل بھیج بھیج کر تھک چُکی ہوں اور ذرا یہ تو بتائیے کہ میری عُمر کیا ہوگی۔ (رمشہ الیاس، مرغزار کالونی، لاہور)

ج: تو آپ سے کس نے کہا کہ آپ ناحق اس قدر تھکیں۔ آپ سب سے ہاتھ باندھ کے درخواست ہے کہ جب تک ایک تحریر شایع نہ ہوجائے، دوسری ہرگز مت بھیجیں۔ رہی آپ کی عُمر، تو اتنا بچگانہ سوال عموماً 20,19 برس کی عُمر تک ہی پوچھا جاسکتا ہے۔

٭ ایک طویل عرصے سے میگزین کی قاریہ ہوں۔ آج تک جتنی ای میلز کیں، اللہ کا شُکر ہے، سب شایع ہوئیں۔ لیکن یہ شاید میری آخری ای میل ہو کہ میری شادی طے پا گئی ہے اور سُسرال میں سنڈے میگزین نہیںآتا۔ مگر یقین کریں، میںآپ اور آپ کے جریدے کو بہت مِس کروں گی۔ آپ کی پوری ٹیم، ادارئہ جنگ کے لیے دعا گو۔ (تنزیلا شبّیر مغل، سیال کوٹ)

ج: یہ کیا بات ہوئی تنزیلا، کیا تم اپنے شوہرِ نام دار سے اتنی بات نہیںمنوا پائو گی کہ تمہاری خوشی کے لیے گھر میںکم از کم اتوار کا جنگ اخبار تو لگوادیں۔ یہ کون سا کوئی بہت مشکل ٹاسک ہے۔ آج کل کی لڑکیاں تو.....اور اگر یہ ممکن نہ بھی ہو تو کیا، اپنا نیٹ ایڈیشن تو ہے ناں!!

٭ سمندر کو کُوزے میںبند کرنے کا فن تو کوئی ’’جنگ، سنڈے میگزین‘‘ سے سیکھے۔ محمود میاں نجمی اور منور مرزا کی تحریروں کی بہت مدّاح ہوں۔ اور ہاں، وہ جو ایک صاحب نے پہلے تو ’’اسٹائل‘‘ کی ماڈل کے خُوب قصیدے پڑھے اور پھر فرماتے ہیں کہ اس قوم کو اسلامی تعلیمات کی سخت ضرورت ہے، تو کیا یہ کُھلا تضاد نہیں۔(ماہم ستار، پیکو روڈ، لاہور)

ج: بے شک، مگر کیا کریں، خواص (خصوصاً سیاست دانوں) سے لےکر عوام النّاس تک کون ہے، جو ان تضادات کا مجموعہ نہیں۔

٭ میگزین میں’’سرچشمۂ ہدایت‘‘کےصفحےکا مستقل اجراء کافی خوشآئند امر ہے، ’’قصص الانبیاء‘‘ سلسلے کا تو جواب ہی نہیں، لیکن اس ضمن میںہمارے کچھ تحفّظات ہیں اور وہ یہ کہ اس صفحے کو سرِورق کے پیچھے شیڈول نہیں ہونا چاہیے۔ اس کے لیے کوئی اور موزوں جگہ مقرر کی جائے۔ (سحر طارق)

ج: آپ کے تحفّظات کا حل تلاشکرنے کی کچھ سعی کی تو ہے۔ اب دیکھیں، اس پر کیا تحفّظات سامنے آتے ہیں۔

قارئین کرام!

ہمارے ہر صفحے ، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazinejanggroup.com.pk