اللہ سب کو محفوظ رکھے

May 19, 2019

1989ء میں ہم نے ایک نئی آبادی میں رہایش اختیار کی،جہاں ہر وقت ایک عجیب سی بُو پھیلی رہتی تھی۔ کچھ لوگ کہتے تھے کہ یہ علاقہ پہلے ایک قبرستان تھا، قبریں مسمار کرکے اس پر پلاٹ کاٹ کر مکانات تعمیر کیے گئے۔ جس وقت ہم وہاں شفٹ ہوئے، اس وقت محلّہ پوری طرح آباد نہیں ہوا تھا۔ ہمارے ایک پڑوسی نے، جو طویل عرصے سے وہاں قیام پزیر تھے، والد صاحب کو بتایا کہ ’’جب قبریں مسمار کرکے پلاٹ کاٹے گئے، تو برسوں یہ علاقہ غیرآباد رہا، یہاں شہر بھر کا کوڑا کرکٹ ٹرکوں میں لاکر پھینکا جاتا تھا۔ محلّہ چوںکہ مکمل طور پر آباد نہیں تھا، توہر دوسرے تیسرے گھر کے بعد خالی پلاٹ میں کیکر کے درختوں کے ساتھ جھاڑیاں اُگی ہوئی تھیں۔ ہماری گلی سے آگے بھی خالی پلاٹوں کا ایک طویل سلسلہ تھا۔ میرا ایک دوست وہاں سے چند فرلانگ کے فاصلے پر رہتا تھا۔اس کے علاقے میں تو بجلی آچکی تھی، مگر ہمارا علاقہ بجلی سے محروم تھا۔ مَیں ان دنوں ایک مِل میں ملازمت کرتا تھا اور سائیکل پر آتا جاتا تھا، میرا دوست بھی ساتھ ہی جاتا تھا۔نوکری سے واپسی پرچند منٹ ہی میں اس کا گھر آجاتا، جب کہ اندھیرے کی وجہ سے مجھے اپنے گھرتک کا فاصلہ پہاڑ کی چوٹی سر کرنے کے برابر لگتا اور پھر جب خالی میری شفٹ ہوتی، تو عموماً اکیلےبھی جانا پڑتا۔مَیںڈیوٹی کے لیے رات بارہ بجے نکلتااور پورا راستہ قرآنی آیات پڑھتا رہتا۔ اس ڈر، خوف کی وجہ بھوت پریت نہیں تھے، بلکہ اس کی واحد وجہ روشن چائے والے کا وہ قوی الجثّہ کتّا تھا، جسے چائے والا دن بھر باندھے رکھتا، مگر رات کو کھلا چھوڑ دیتا تھا۔ اس کتّے کو خدا جانے مجھ سے کیا بیر تھا کہ دیکھتے ہی مسلسل بھونکنے لگتا، اس کا خوف ناک انداز میںبھونکنا میرا خون خشک کرنے کے لیے کافی ہوتاتھا، ایسا لگتا تھا کہ ابھی چھلانگ مار کر مجھ پر حملہ آور ہوجائے گا۔

ایسی ہی ایک اندھیری رات کا ذکر ہے۔ سردی کے دن تھے۔ میں اور میرا دوست رات کی ڈیوٹی کے بعد گھر لوٹ رہے تھے۔ اُس روز ہماری شام کی ڈیوٹی تھی، جو رات بارہ بجے ختم ہوئی۔ ہم تقریباً ایک بجے اپنے محلّے پہنچے۔ میںنے حسبِ سابق غفار کو اس کے گھر اُتارا اور تیزی سے سائیکل کے پیڈل مارتا گھر کی طرف روانہ ہوگیا۔ میرے ذہن میں یہ بات تھی کہ نکّڑ ہی پر کتّا میرے استقبال کے لیے موجود ہوگا، یہ سوچ کر ہی میرے پسینے چُھوٹنے لگے۔ نکڑ تک پہنچا، تو حیرت انگیز طور پر وہ وہاںموجود نہیں تھا، البتہ دُور سے بہت سے کتّوں کے رونے کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں، جو معمول سے ہٹ کر تھیں۔ میرے دل میں فطری طور پر ایک اَن جانا سا خوف پیدا ہوگیا۔ بالکل ڈرائونی فلم کا منظر لگ رہا تھا۔ ابھی میں گلی کی نکّڑ سے تقریباً ایک سو فٹ کے فاصلے ہی پر تھا کہ میرا خوف حقیقت بن کر سامنے آگیا۔ چشمِ زدن میںایک ہیولا سا میرے سامنے سے گزر کر تیزی سے اندھیرے میں گم ہوگیا۔ اس کے خدّوخال نہایت عجیب اور چال بے ڈھنگی سی تھی۔ اس منظر کو دیکھتے ہی میرے رہے سہے اوسان بھی خطا ہوگئے۔ سمجھ نہیںآرہا تھا کہ پیچھے بھاگوں یا آگے جائوں، مدد کے لیے چیخنا چاہا، مگر خوف سے گلا خشک اور آواز گُھٹ گئی۔ پتا نہیں کیسے غیرارادی طور پر اپنی سائیکل گھمائی اور اسے پکڑ کر پیدل ہی دوڑ لگادی، ایسا لگ رہا تھا، جیسے کوئی میرا پیچھا کررہا ہو۔ ایک بار ہمّت کرکے پیچھے مڑکر دیکھا، مگر گھٹاٹوپ اندھیرے کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیا۔ جیسے تیسے اپنے دوست کے گھر پہنچا اور زور زورسے دروازہ کھٹکھٹایا، اس نے دروازہ کھولا اور مجھے دیکھ کر حیرانی کا اظہار کیا، تو میں نے اشارے سے اس سے پانی مانگا، پانی پی کر جب قدرے پُرسکون ہوا، تو دوست کو ساری رُوداد بتائی، اس نے میری بات پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا، میرا بستر وہیں لگا دیا اور کہا کہ یہیں سوجائو، صبح گھر چلے جانا۔

میں وہاں رُک تو گیا، مگر ساری رات ڈر کے مارے کروٹیں بدلتا رہا۔ رہ رہ کر لوگوں کی باتیں یاد آنے لگیں کہ کسی نے یہاں اکثر سرکٹا انسان دیکھا، کسی نے چڑیل دیکھی۔ تو کیا، جو میں نے دیکھا، وہ کوئی چڑیل تو نہیں تھی۔ یہی سوچتے سوچتے اور ڈر و خوف کے عالم میںرات گزاری اور صبح گھر چلا آیا۔ دوپہر تک سوتا رہا۔ سہ پہر کو اٹھ کر باہر نکلا، تو ایک بزرگ دکھائی دئیے۔ حسبِ عادت سلام کرکے انہیں گزشتہ رات کا واقعہ سنایا، تو مُسکراتے ہوئے کہنے لگے۔ ’’ارے تم نے مراد کا گدھا دیکھ لیا ہوگا۔ وہ نکڑ پر زیرِتعمیر مکان کے لیے اینٹیں اپنے گدھے پر لاد کر لاتا ہے۔ کبھی دیر ہوجاتی ہے، تو اپنا گدھا وہیں چھوڑ جاتا ہے، جو رات بھر اِدھر اُدھر مٹر گشت کرتا پھرتا رہتا ہے۔‘‘ میں نے انہیں اس ہیولے کی جسامت اور قد وغیرہ کی تفصیل بتائی، تو تسلّی دی کہ ’’سردی کی وجہ سے اس نے گدھے پر کمبل ڈال دیا ہوگا، ڈرنے کی کوئی بات نہیں۔‘‘ان کے جواب سے مجھے پوری طرح تسلّی تو نہیں ہوئی، البتہ دل کو سمجھالیا۔ پھر میںنے اپنے ڈیوٹی انچارج سے درخواست کرکے رات کی شفٹ کے اوقات تبدیل کروالیے۔ کئی ماہ گزر گئے۔ مَیں اس واقعے کو بھول بھال گیا تھا کہ ایک دن محلّے میں کہرام مچ گیا۔ میرے پڑوس سے چار گھر آگے ایک شخص کا انتقال ہوگیا تھا، وہ صحت مند آدمی تھے۔ رات کو دیر سے گھر آتے ہوئے راستے میں مردہ پائے گئے۔ صبح اس سانحے کا علم ہونے پرگھر والے ان کی لاش اسپتال لے کر گئے، تو ڈاکٹرنے ان کی موت کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ کسی خوف کی وجہ سے اُن کی حرکتِ قلب بند ہوئی ہے۔ یہ سن کر میرا دل بند ہوتے ہوتے رہ گیا۔ کیوں کہ یہ وہی جگہ تھی، جہاں مجھے عجیب و غریب ہیولا دکھائی دیا تھا۔ بزرگ کی بات پر میں پہلے ہی تحقیق کرچکا تھا کہ اُس رات مراد نے اپنا گدھا کھلا نہیں چھوڑا تھا۔ میں نے تصدیق کے بعد ان بزرگ کو یہ بات بتائی، تو انہوں نے جواب دیا ’’بیٹا! میں نے تمہارا خوف کم کرنے کے لیے یہ بات کہی تھی کہ کہیںتم ڈر کی وجہ سے اپنا کام نہ چھوڑدو۔ ایسی مخلوق اس علاقے میں کئی اور لوگوں نے بھی دیکھی ہیں۔ اللہ کی باتیں اللہ ہی جانے، آتے جاتے کلامِ الٰہی پڑھتے رہا کرو، اللہ سب کو ہر بلا سے محفوظ رکھے۔‘‘

(محمد انور، کراچی)

آپ ہی سے کچھ کہنا ہے

اگر آپ کے ذہن میں کوئی ایسا واقعہ محفوظ ہے جوکسی کردار کی انفرادیت، پُراسراریت یا واقعاتی انوکھے پن کی بنا پر قارئین کے لیے دل چسپی کا باعث ہے تو فوراً قلم اٹھائیے اور اس صفحے کا حصہ بن جائیے۔ یہ واقعات قارئین کے شعور وآگہی میں اضافے کے ساتھ ان کے لیے زندگی کاسفر آسان کرنے میں ممدومعاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ واقعات بھیجنے کے لیے تحریر کا پختہ ہونا ضروری نہیں، صرف سچّا ہونا لازم ہے، نیز ،اپنا نام و پتا بھی لکھیے تاکہ رابطے کی ضرورت پڑے تو آسانی ہوسکے۔ ہمیں اپنی کہانیاں اور آراء اس پتے پر بھیجیں

انچارج صفحہ، ناقابلِ فراموش، جنگ سنڈے میگزین،روزنامہ جنگ،

اخبار منزل ،آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی