انسانیت کے طاقت وَربیج

May 19, 2019

یقیناً ایسے واقعات ہر اُس خاندان کے ساتھ پیش آئے ہوں گے، جس نے قیامِ پاکستان کے سلسلے میں جدوجہد اور ہجرت کی صعوبت برداشت کی۔ اس جہاد میں انہیں جان و مال کی قربانیاںدینی ہی پڑی ہوں گی۔ ہمارے خاندان نے بھی وطنِ عزیز کی خاطر ایک نہیں،دو بار قربانیاںدیں، پہلی قیامِ پاکستان کے وقت اور دوسری بار سقوطِ ڈھاکا سے قبل پاکستان کو دولخت ہونے سے بچانے کے لیے۔ ان مہینوں کے حوالے سے کئی ناقابلِ فراموش واقعات میرے ذہن میں جاگ اٹھتے ہیں۔ پہلی قربانی کے وقت میری عمر سات برس تھی، بچپن ہی سے میری یادداشت بہت اچھی تھی، اس لیے اُس زمانے کی باتیں آج بھی ذہن پر نقش ہیں۔ ہم صوبہ بہار، ہندوستان میں ایک بڑی حویلی میں اپنے خاندان کے ساتھ اکٹھے ہنسی خوشی رہتے تھے۔ میرے والد کے چار بھائی تھے۔ دادا کاروباری آدمی تھے۔ انہوں نے اپنے پانچوں بیٹوں کو تعلیم دلوانے کے بعد سب کو کاروبار میںشریک کرلیا تھا۔ پانچوں بھائی محنتی تھے، کاروبار دن دگنی، رات چگنی ترقی کرتا ہوا بنگال کے شہر بوگرہ اور سلہٹ تک پھیل چکا تھا۔ جب قیامِ پاکستان کی جدوجہد زور پکڑنے لگی، تو فسادات پھوٹ پڑے۔ میرا اسکول جانا بھی بند ہوگیا، اور اس خوف اور پریشانی کے عالم میںسب پاکستان ہجرت کرنے کا سوچنے لگے۔ تاہم، دو بھائیوں نے ہندوستان چھوڑنے سے انکار کردیا، جب کہ تین بھائی پاکستان ہجرت کے لیے اپنا رختِ سفر باندھنے لگے۔ اُن دنوں بوگرہ سے میرے دادا کے ایک کاروباری دوست آئے ہوئے تھے، انہوں نے مشورہ دیا کہ ’’کراچی جانے کے بجائے اگر آپ لوگ ڈھاکا، سلہٹ یا بوگرہ چلے جائیں، تو مناسب ہوگا، کیوں کہ حالات نارمل ہونے پر آپ لوگ بہار اپنے بھائیوں کے پاس بہ آسانی واپس آسکتے ہیں۔ میرے والد، جو کراچی جانے کے لیے بے تاب تھے، انہیںجب ان کے بھائیوں نے سمجھایا، تو والد صاحب کو ان کا ساتھ دینا پڑا۔ حالات روز بہ روز بگڑتے چلے جارہے تھے۔ بالآخر ایک روز تینوں بھائیوںنے بہار چھوڑ کر بوگرہ کی راہ لی، یوںہماری پہلی ہجرت ہوئی۔ اپنی حویلی، روپیا پیسا سب کچھ وہیں چھوڑ آئے۔ بوگرہ میںبڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ رہایش کے لیے دادا کے کاروباری دوست نے کرائے کا مکان دلوایا، تو ابو تایا اور چچا کو سر چھپانے کی جگہ ملی۔ چھے ماہ تک ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہے، کچھ بھی نہیںکرپائے۔ جب ذرا امن ہوا، تو والد صاحب اور چچا نے اپنا کاروبار انتہائی قلیل رقم سے شروع کیا۔ شروع میںخاصا نقصان ہوا، مگر رفتہ رفتہ کاروبار جم گیا۔ اگرچہ پہلے جیسے ٹھاٹھ باٹ نہ رہے، مگر پھر بھی خاصے بہتر حالات ہوگئے تھے۔ والد صاحب نے مجھے بوگرہ کے ایک اسکول میںداخل کروادیا، جہاں سے میٹرک کرکے ڈھاکا چلا آیا۔ میںکالج میں داخلے کے لیے والد صاحب پر بوجھ نہیںڈالنا چاہتا تھا، اس لیے نوکری کرلی۔ جب والد صاحب کو میری نوکری کا علم ہوا، تو انہوںنے مشورہ دیا، ’’اگر پڑھنا نہیںچاہتے، تو اپنا کاروبار شروع کردو۔‘‘ انہوںنے مشورے کے ساتھ کچھ رقم بھی دی، جو میرے جیسے الگ دماغ والے لڑکے کے کام نہ آسکی۔ کاروبار تو چلا نہیں، رقم بھی ڈوب گئی۔ میںنے پھر سے چھوٹی موٹی نوکری کرلی۔ سوچا کہ کچھ رقم جمع کرکے پہلے پڑھائی مکمل کروں گا، پھر کوئی بہتر ملازمت مل جائے گی، تو شادی کا سوچوں گا، لیکن یہ خواب دھرے کے دھرے رہ گئے اور دوسری ہجرت کے سامان ہونے لگے۔ بھارت نے مشرقی پاکستان کو علیحدہ کرنے کے لیے مکتی باہنی جیسی تنظیم بناکر اس کی پشت پناہی کے لیے سازشوں کا جال بُننا شروع کردیا، اور حالات اس حد تک خراب کردئیے کہ جلائو، گھیرائو اور فسادات کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ بوگرہ میں اردو بولنے والوںکی دو بڑی فیکٹریزکو آگ لگانے کی خبر سنی، تو میںنے فوری طور پر دوسری ہجرت کا فیصلہ کرلیا اور بوگرہ پہنچ کر والدکو اپنے ارادے سے آگاہ کیا کہ ’’مَیں کراچی جانا چاہتا ہوں، کیوںکہ حالات اب سدھرنے والے نہیں، اس سے پہلے کہ ہمیں نقصان ہوجائے، یہاںسے کوچ کرجانا ہی بہتر ہے۔‘‘ میرے تایا زاد نے سنا، تو کہنے لگے کہ ’’یہ مسلمانوں کا ملک ہے۔ ہمارے ساتھ ایسا کچھ نہیںہوگا۔ یہاں سب اپنے ہیں، تم خواہ مخوا ڈر رہے ہو۔‘‘

میں اپنے تایا زاد بھائی کو بھی ساتھ لے جانے کا ارادہ رکھتا تھا، لیکن وہ الٹا میرا مذاق اڑا رہا تھا، چناںچہ والد صاحب سے دعائوں کی درخواست کرکے 31دسمبر 1969ء کو کراچی کا رخ کرلیا۔ بوگرا میںمیرے اسکول کا ایک ساتھی کراچی میںرہتا تھا، اس سے میری خط و کتابت تھی، مَیں اُسی کے پاس ٹھہرا۔ وہ بنگالی تھا، سیاسی سوجھ بوجھ بھی رکھتا تھا، لہٰذا مغربی اور مشرقی پاکستان کے حالات دیکھے، تو کچھ ہفتوں بعد وہ واپس ڈھاکا چلا گیا، مجھے یہاں ایک اچھی نوکری مل گئی تھی، تو میں نے ایک مکان کرائے پر لے لیا۔ اس دوسری ہجرت نے مجھے پھر سے تنکا تنکا جوڑنے پر لگادیا۔ کچھ عرصے بعد اپنے والد کو خط لکھاکہ ’’آپ لوگ بھی کراچی آجائیں، وہاںرہنا اب خطرے سے خالی نہیں،ہوسکے تو چچا اور تایا جی کو بھی آمادہ کرلیں کہ وہ کراچی شفٹ ہوجائیں۔‘‘ والد نے میری بات مان لی اور کراچی آنے میںزیادہ دیر نہیںکی، یوں میری فیملی کی یہ دوسری ہجرت کسی جانی نقصان کے بغیر ہوئی، مگر مالی طورپر ہم نے جو مصائب جھیلے، وہ ہم ہی جانتے ہیں۔ بوگرہ میں جب شدید مشقّت کے بعد پھر سے پیر جمانے کی کوشش کی، تو بھارت کی مداخلت سے اکھڑگئے۔ کراچی میںکرائے کا مکان اور محض میری تن خواہ پر گزارا، اگرچہ مشکل تھا، مگر ہم پھر بھی مطمئن تھے کہ ہماری جانیںمحفوظ رہیں۔ روکھی سوکھی کھا کر ہم خوش تھے۔ میرے تایا اورچچا، جنہوںنے بوگرہ ہی میںرہنے کا فیصلہ کیا تھا، سقوطِ ڈھاکا کے بعد گھر میںقید ہوکر رہ گئے، کیوںکہ مکتی باہنی کے غنڈے انہیںپکڑکر ماردینے کے بہانے ڈھونڈ رہے تھے۔ انہوںنے ایک روز بوگرہ کے اس علاقے کا رُخ کیا اور سب کو پکڑ کر جیل میں ڈلوادیا۔ کئی ہفتے جیل میںجانوروں جیسا سلوک کیا۔ کھانے پینے کے لیے گلی سڑی باسی چیزیں دیتے۔ زندہ رہنے کے لیے وہ ایسا سلوک جھیلنے پر مجبور تھے۔ اسی دوران جیل میںمیرے تایا زاد بھائی یٰسین سے مکتی باہنی کا ایک کمانڈر ملنے آیا۔ وہ میرے کزن کا پرانا دوست نکلا، میرا کزن اکثر روپے پیسوں سے اس کی مدد کرتا رہا تھا، اس نے قیدیوں میںمیرے کزن یٰسین کا نام پڑھا، تو تصدیق کے لیے جیل آیا، یہاں اس کی ناگفتہ بہ حالت دیکھ کر اسے از حد دکھ ہوا، اس نے میرے کزن کو بتایا کہ ’’مکتی باہنی کے غنڈے تم لوگوں کو قتل کرنے کا فیصلہ کرچکے ہیں۔ چند روز بعد تم سب قیدیوں کو ایک میدان میںفائرنگ کرکے ماردیا جائے گا۔‘‘ اس نے مشورہ دیا کہ ’’تم یہاں سے جتنی جلد ممکن ہو، فرار ہوجائو، ورنہ بے موت مارے جائو گے۔‘‘ لیکن فرار کیسے ہوتے، ان کے ساتھ اردو بولنے والے قیدیوں کی خاصی بڑی تعداد قید تھی، اور سب ان جلاّدوںکی کڑی نگرانی میںتھے۔ چوں کہ میرے کزن نے ملٹری آپریشن کے دوران اس کمانڈو کی کافی مدد کی تھی، اسے گرفتاری سے بچانے کے لیے محفوظ جگہوں پر چھپاکر بچایا بھی تھا، لہٰذا اسے اس احسان کا پورا احساس تھا، اس نے راز داری سے میرے کزن سے کہا ’’چند روز بعد یہ جنگ ہمارے حق میںختم ہوجائے گی، اور تم سب کو بے دردی سے گولی مار کرآزادی کا جشن منانے کا پروگرام بنایا گیا ہے۔ میںتمہیں، تینوںبھائیوں سمیت یہاں سے فرار کروانے میں مدد کروں گا۔ تم یہاں سے نکل کر پاکستان چلے جانا۔‘‘میرے کزن یٰسین نے جواب دیا۔ ’’میںنے تمہاری مدد انسانیت کے ناتے کی تھی، لیکن اب اپنے اسی انسانیت کے جذبے سے تمہاری مدد قبول نہیںکرسکتا۔ اپنے ساتھیوں کو اس حال میںچھوڑ کر بھاگ گیا، تو میرا ضمیر مطمئن نہیں رہے گا، ہمیشہ پچھتاتا رہوںگا، اگر تم ہم سب کو رہا کرواسکتے ہو، تو میںتیار ہوں، ورنہ ان لوگوںکے ساتھ ہی میرا مرنا بہتر رہے گا، میں ان کے ساتھ جان دے کر شہادت کے عہدے پر فائزہونا پسند کروںگا۔‘‘

یٰسین کی بات کا کمانڈوکے دل پر گہرا اثر ہوا۔ وہ کچھ دیر تک حیرت سے اسے تکتا رہا اور پھر خاموشی سے چلا گیا۔ اس وقت مغرب کی اذان ہونے والی تھی۔ سب قیدیوںکو یٰسین اور کمانڈو کی گفتگو کا علم ہوچکا تھا، عجب بے کسی کا عالم تھا کہ اچانک انہیں شور و غل سنائی دیا۔ کسی نے بتایا کہ مکتی باہنی کے دو گروپس کسی بات پر آپس میںلڑ پڑے ہیں اور کشیدگی بڑھتی جارہی ہے۔ قیدیوں کے اندر جیسے بجلیاں سی بھرگئیں۔اس صورتِ حال سے فائدہ اٹھا کر یٰسین نے یکے بعد دیگرے کوٹھریوںکے تالے توڑے، سب نے ایک دوسرے کی مدد کی اور دیواریںکود کود کر راہِ فرار اختیار کی۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ اس کارروائی کے دوران کسی نے قیدیوں کی طرف رخ نہیں کیا۔ وہ اپنی میٹنگ روم ہی میںدست و گریباں رہے، ان کی نگرانی پر مامور مسلّح گارڈ بھی ان لوگوںکو یہ خبر بتانے کے بعد واپس میٹنگ روم میں چلا گیا تھا، جہاںگالم گلوچ اور مار دھاڑ کی آوازیں مسلسل بڑھتی جارہی تھیں۔ اس موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میرے کزن، یٰسین سمیت سارے قیدی بھاگنے میںکام یاب ہوگئے ۔ رات کی سیاہی گہری ہوئی، تو ان کے ہاتھ لگنے کا امکان بھی باقی نہ رہا۔ یٰسین اپنے تینوں بھائیوں سمیت تین روز تک ایک قریبی دوست کے گھر چُھپا رہا۔ پھر وہ ڈھاکا آگئے، وہاںبڑی مشکلوں سے پاکستان جانے کے لیےائر لائن کے ٹکٹس حاصل کیے اور کراچی پہنچ گئے۔ ان لوگوں کے کراچی پہنچنے کے تیسرے روز سقوطِ ڈھاکا کا سانحہ رونما ہوگیا۔ اسی روز ان کا قتل عام ہونا تھا، مگر انہیں خراش تک نہیںآئی، وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ خیریت سے کراچی پہنچ چکے تھے۔ بلاشبہ، یہ قدرت کی ان پر بہت بڑی مہربانی تھی، مگر جب یٰسین نے یہ ساری کتھا جزئیات کے ساتھ مجھے سنائی، تو میں نے اس سے چند سوالات پوچھے اور میرے ذہن میں وہ بات آگئی، جو یٰسین نہیںسمجھ سکا تھا کہ یہ کارنامہ مکتی باہنی کے اس کمانڈو کا تھا، جس کے اندر یٰسین نے انسانیت جگائی تھی کہ وہ اپنے ساتھیوںکے بغیر یہاں سے ہرگز نہیں نکلے گا،اور اگر ایسا کیا، تو وہ عمر بھر اپنے ضمیر کا مجرم بنارہے گا۔ اور یہ کہ اس نے کمانڈو کی مدد محض انسانیت کے ناتے کی تھی، وہ کسی لالچ اور جواباً مدد کی نیّت نہیں رکھتا تھا۔ بقول یٰسین وہ یہ بات سن کر یک لخت چپ ہوگیا تھا اور شرمندگی کے تاثرات لیے اپنے ساتھیوں کے کمرے کی طرف چلا گیا تھا۔ یقیناً یہ منصوبہ اسی کا تھا کہ کچھ ایسی بات کہہ کر گروپ کو آپس میںلڑوادیا اور دوسری طرف گارڈ کے ذریعے اس جھگڑے کی اطلاع بھی قیدیوں کو کروادی۔ یہ اشارہ تھا کہ وہ لوگ موقعے سے فائدہ اٹھائیں۔ چناںچہ ایسا ہی ہوا۔ سب کی رہائی ممکن ہوگئی اور باہمی لڑائی میںان پر کیا بیتی، اس کا پتا نہ چل سکا۔ گویا انسانیت نے اس کمانڈو کے اندر بھی اپنے طاقت ور بیج بودئیے تھے۔ (ظفر العالم، کراچی)

آپ ہی سے کچھ کہنا ہے

اگر آپ کے ذہن میں کوئی ایسا واقعہ محفوظ ہے جوکسی کردار کی انفرادیت، پُراسراریت یا واقعاتی انوکھے پن کی بنا پر قارئین کے لیے دل چسپی کا باعث ہے تو فوراً قلم اٹھائیے اور اس صفحے کا حصہ بن جائیے۔ یہ واقعات قارئین کے شعور وآگہی میں اضافے کے ساتھ ان کے لیے زندگی کاسفر آسان کرنے میں ممدومعاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ واقعات بھیجنے کے لیے تحریر کا پختہ ہونا ضروری نہیں، صرف سچّا ہونا لازم ہے، نیز ،اپنا نام و پتا بھی لکھیے تاکہ رابطے کی ضرورت پڑے تو آسانی ہوسکے۔ ہمیں اپنی کہانیاں اور آراء اس پتے پر بھیجیں

انچارج صفحہ، ناقابلِ فراموش، جنگ سنڈے میگزین،روزنامہ جنگ،

اخبار منزل ،آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی