مدینتہ الاولیاء... اُوچ شرف

May 19, 2019

مخدوم شاہ جہانیاں مسجد

احمد علی محمودی،لاہور

’’اُوچ شریف‘‘ جسے مدینۃ الاولیاء اور مدینۃ السادات بھی کہاجاتا ہے، اسے جغرافیائی، ثقافتی، مذہبی اور روحانی اعتبار سے قبل ازاسلام اور بعداز طلوعِ اسلام منفرد اور ممتاز حیثیت حاصل رہی ہے۔ اُوچ شریف بہاول پور سے 73کلومیٹر، احمد پور شرقیہ سے 22کلومیٹر، علی پور (ضلع مظفر گڑھ) سے تقریباً30کلومیٹر اور پانچ دریائوں کے سنگم، ہیڈ پنجند ہیڈ ورکس سے صرف 12کلومیٹرکے فاصلے پر موجود ہے۔ یہ قدیم اور تاریخی شہر، حوادثِ زمانہ کا شکار ہوکر کئی بار اُجڑا اور آباد ہوا۔ تاہم، زمانۂ قدیم میں زرخیز اور خوش حال علاقہ رہا ہے۔ اُوچ شریف کی وجۂ شہرت اور بنیادی شناخت اس خطّے میں صوفیائے کرام اور بزرگانِ دین کے مزارات ہیں، جو ہر دَور میں مرجّعِ خلائق رہے۔ مذہبی، تاریخی اور ثقافتی حوالے سے خاص شہرت رکھنے والے اس شہر میں نام وَر اولیائے کرام اور تاریخِ اسلام کے معروف بزرگانِ دین تشریف لائے۔ اُن کی تشریف آوری سے یہ خطّہ اسلام کے نُور سے منوّر ہوا، ظلم کی سیاہ رات کا خاتمہ ہوا اور دینِ اسلام کے ایسے چشمے پُھوٹے کہ دنیا دُور دُور تک دینِ حق کی کِرنوں سے فیض یاب ہونے لگی۔

برّ ِصغیر پاک و ہند میں خاندانِ سادات نقوی بخاری کے جدّ ِ امجد، حضرت مخدوم شیرشاہ سیّد جلال الدین حیدر بخاری سرخ پوش،ؒ بعداز نمازِ جمعۃ المبارک،`5ذی الحجہ595ھ بخارا میں سلطان سید علی ابوالموئید بخاریؒ کے علمی، روحانی اور پابندِ شریعت گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کا سلسلۂ نسب سترہویں پشت پر شہیدِ کربلا، حضرت امام حسین ؓ اور اٹھارہویں پشت میں خلیفہ ٔ راشد شیر خدا، حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ سے جا ملتاہے۔ وہ بڑے عالم، عارف باللہ، فقیہ، عابداور زاہد ولی تھے۔ اُن کی شادی حضرت سیّدبدرالدین بکھریؒ کی صاحب زادی سے ہوئی۔ شیرشاہ سیّد جلال الدین حیدر بخاری ؒکی اُوچ شریف تشریف آوری کے وقت یہاں کی سرزمین پر اوچا رانی نامی ایک غیر مسلم جادوگر خاتون حکمران تھی۔ ہر طرف کفر و شِرک کا دَور دورہ تھا۔ مسلمان نہایت ہی قلیل تعداد میں آباد اور ظلم کے شکار، کس مپرسی کی زندگی گزار رہے تھے۔اوچا رانی اُن کی تعلیمات سے متاثر ہو کر نہ صرف مسلمان ہوئی، بلکہ ان کے ہاتھ پر بیعت بھی ہوگئی۔ نیز، دعوتِ حق، تعلیمات اور زہد و تقویٰ سے متاثر ہو کر نہ صرف اُوچ شریف کے قُرب و جوار کی کثیر آبادی، بلکہ دُور دراز کے بڑے بڑے قبائل بھی اسلام سے منوّر اور مستفید ہوئے۔ سیّد جلال الدین سُرخ پوش تقریباً پچانوے (95)سال کی عُمر میں 19جمادی الاوّل 690ہجری میں اس دارِ فانی سے رُخصت ہوئے۔

سیّد جلال الدّین بخاری،ؒ المعروف جہانیاں جہاں گشت، سیّد جلال الدّین حیدر بخاری سُرخ پوش ؒکے پوتے تھے۔ مخدوم جہانیاں جہاں گشت کی ولادت 14؍شعبان المعظم 707ہجری میں ہوئی۔ اُن کی کاوشوں سے مدینۃ الاولیاء اُوچ شریف میں جامعہ فیروزیہ کے نام سے ایک اسلامی یونی ورسٹی قائم ہوئی، جس کے وہ شیخ الجامعہ تھے۔ اس مثالی درس گاہ میں دُور دراز سے طلبہ حصولِ علم کے لیے آتے اور زیورِ تعلیم سے فیض یاب ہونے کے بعد بھٹکے ہوئے لوگوں کو ایمان و اسلام کی دولت سے مالا مال کرتے۔ مخدوم جہانیاں جہاں گشتؒ کی تعلیمات سے متاثر ہوکر نہ صرف لاکھوں بندگانِ خدا کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوئے، بلکہ ظاہری اور باطنی فیض بھی پایا۔ انہوں نے اپنی زندگی رب ِکائنات کی وحدانیت، نبی آخرالزمانﷺ کی رسالت کی تبلیغ، اصلاحِ معاشرہ اور خدمتِ خلق کے لیے وقف کررکھی تھی، اسی لیے زیادہ تر وقت سفر میں گزرتاتھا، اور اسی وجہ سے اُن کو ’’جہاں گشت‘‘ کہا جاتا تھا۔ انہوںنے چھتیس حج کیے اور مکّہ مکّرمہ، مدینہ منوّرہ، کربلائے معلیٰ، نجف، بغداد، سبزوار، ہمدان، تبریز، اصفہان اور کشمیر وغیرہ کا سفر کیا۔ اُن کی تاریخِ وفات 10؍ذی الحج 785ہجری اور مزار اُوچ شریف میں ہے۔

سرزمینِ اُوچ شریف کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اپنے وقت کے بلند مرتبت اولیائے کرام سیّد محمد عثمان مروندی المعروف حضرت سخی لعل شہباز قلندرؒ (سیہون شریف سندھ)، حضرت شیخ بہائو الدین زکریا ملتانی ؒاور حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکرؒ (پاکپتن شریف) ہر سال مقررہ ایّام میں کچھ دن کے لیےیہاں تشریف لایاکرتے تھے اور ان تینوں بزرگوں کی میزبانی حضرت مخدوم سیّد جلال الدین حیدر سُرخ پوش ؒفرمایاکرتے ۔ اللہ تعالیٰ کی یہ چار برگزیدہ ہستیاں دینِ حق کی ترویج و اشاعت کے بارے میں تبادلۂ خیال اور آئندہ کا لائحہ عمل طے کرتیں اور رات کو عبادت اور آرام فرمانے کے لیے یہ چاروں اپنے اپنے حجروں میں تشریف لے جاتے۔وہ چاروں تاریخ ساز حجرے آج بھی زیارت گاہِ خاص و عام ہیں۔ نیز،اُوچ شریف میں مخدوم سیّد فضل الدّین بخاریؒ کے مزار کے قریب اور مسجدِ حاجات کے شمالی جانب ایک قدیم اور تاریخ ساز کنواں بھی موجود ہے۔

اوچ شریف میں مخدوم سیّد فضل الدّین بخاری ؒکے مزار کے بالکل قریب مغربی جانب تاریخی مسجدِ حاجات ہے، جو مسجد محمّد بن قاسم بھی کہلاتی ہے۔ ایک روایت کے مطابق مجاہدِ اسلام، فاتح سندھ، محمد بن قاسم ؒنے فتحِ سندھ کے بعد اس راستے سے ملتان جاتے ہوئے مسجد کی تعمیر کا حکم دیا تھا۔ یہ برصغیر پاک و ہند کی چند قدیم ترین مساجد میں سے ایک ہے۔ جو فنِ تعمیر کا نادر نمونہ ہے۔ اس کی تعمیرمیں ماش کا آٹا، ریت اور چونے کا پانی استعمال کیا گیا۔ مسجد کی زیارت اور یہاں عبادت کے لیے نام وَر اولیائے کرام تشریف لاتے رہے۔ حضرت بابا فرید الدّین گنج شکرؒ نے اس مسجد میں چلّہ کشی کی اور اعتکاف کے لیے بھی منتخب کیا۔یہیںمخدوم جہانیاں جہاں گشت ؒ کے مزار کے بالکل قریب شمالی جانب شیرِ خدا، حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کے قدم مبارک کا نشان بھی موجود ہے۔ ایک روایت کے مطابق جہانیاں جہاں گشتؒ ایک بار مدینہ منوّرہ تشریف لے گئے، تو مدینہ منوّرہ کے لوگوں نے انہیں کچھ تحائف دیے، جن میں حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کے قدمِ مبارک کا پتھر پرنشان بھی شامل تھا، جو غزوۂ خیبرکے موقعے پر بابِ خیبر اُکھاڑتے وقت جوشِ ایمانی سے پتھریلی زمین پگھلنے کےسبب ثبت ہوگیا تھا۔

یہاں موجود دیگر مزارات میں قابلِ ذکر سیّد بدرالدّین بکھریؒ، سیّد صدرالدین المعروف سیّد راجن بخاریؒ، سیّد بہاول حلیمؒ، سیّد کبیر الدین حسن دریاؒ، سیّد غوث بندگیؒ، سیّد فضل الدین بخاریؒ اور حافظ ابوحنیفہ ہاشمی قریشی ؒکے مزارات شامل ہیں۔جب کہ معروف صوفی بزرگ شاعر، حضرت بابا بلھے شاہؒ بھی اُوچ شریف کے خاندانِ سادات میں پیدا ہوئے اور ابتدائی تعلیم بھی یہیں سے حاصل کی۔ بعدازاں، لاہور تشریف لے گئے اور پھر وہاں سے قصورجاکر اسے ہی مستقل طور پر اپنا مسکن بنالیا اور وفات بھی وہیں پائی۔