ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان ناکام....

May 19, 2019

معاشیات پر گہری نظر رکھنے والے کرنسی کی قدر میں کمی کو برآمدات میں اضافے کے ساتھ منسلک کرتے ہیں۔سابق وزرائےخزانہ نے سفارتی اور غیر سفارتی سطح پر منڈیوں کی تلاش ، مُلک میں بجلی کی قیمتوں میں ردّ و بدل اوراس جیسے دیگر اقدامات نہیں کیے،جن سے برآمدات میں ایک سال کے اندرکم از کم 25فی صد اضافہ ہوسکتاتھا۔ تاہم ،ٹیکسٹائل کے شعبے کو مراعات دی گئیں، لیکن اس کے باجودبرآمدات میں دو فی صد بھی اضافہ نہیں ہوسکا۔روپے کی قدر میں کمی کرنے کا نقصان یہ ہوا کہ درآمدات کا پورا سلسلہ ہی اُلٹ گیا،ایک تو درآمد کنندگان کے تمام معاہدے اور آرڈرز میں رخنہ پڑ گیا ،دوسری جانب اشیاء و مصنوعات کی درآمدی قیمتوں میں بھی بے تحاشا اضافہ ہوا،خاص طور پر فارما سیوٹیکل کمپنیز نے ادویہ کی قیمتوں میںضرورت سے زیادہ اضافہ کردیا ، نتیجتاً غربت کے مارے عوام کے لیےاب زندہ رہنا بھی محال ہوگیاہے۔ دوسری جانب گیس کی قیمتوں میں 147فی صد تاریخی اضافے سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ موجودہ حکومت کےسابق وزیرِ خزانہ 157 ارب روپے کی گیس چوری روکنے میں بھی بری طرح ناکام رہےہیں۔ اقتصادی انتشار، جوپہلے ہی ایک عرصے سے عوام کے لیے عذاب ِجاں بنا ہوا ہے ،اُسے اتنا بڑھادیاگیا کہ اب لوگوں کے بد عنوان عناصر کے خلاف غصّےکی شدّت کم ہوگئی ہے اور ہر کوئی اپنے روزگار ِشکم کے بارے میں فکرمند ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ 70برسوںمیں مُلک میں کوئی صنعتی پیش رفت نہیںہوسکی، حالاں کہ مسائل کا حل صرف صنعتی انقلاب ہی میں مضمر ہے ۔ ہمارے یہاںتو معیشت کو ابتدا ہی سے قرضوں کی دلدل میں پھنسا دیا گیاہے۔ اس وقت حالت یہ ہےکہ عوام غربت اور سفید پوشی کا بھرم بمشکل رکھ پا رہے ہیں، اُس پر مہنگی ادویہ کا مسئلہ کسی عذاب سے کم نہیں۔ اسٹیٹ بینک نے اپنی ایک رپورٹ میںکہا ہے کہ ’’ادویہ کی قیمتوں کو مناسب سطح پر رکھنے کے لیے ایک دو سال کا پراسیس درکار ہے۔‘‘ معاشی فلسفہ کہتا ہے کہ آج سائنسی علم ،ریموٹ ایکشن سطحوں ، خودکار مشینوں ، ریموٹ کنٹرول صنعتی، تجارتی اور مالیاتی اداروں کے عہد میں داخل ہوچکا ہے اورانٹرنیٹ ٹیکنالوجی کی بہ دولت انفارمیشن انقلاب کا گجر بج چکا ہے، لیکن عالم ِاسلام مع پاکستان، جن کے پاس کمپیوٹرائز ڈ مشینیں ہیں ،نہ صنعتیں ، وہ زیریں منزل کے بغیر بالائی منزل کی تعمیر کیسے کرسکیںگے۔

سابق وزیرِ خزانہ ،اسد عمر نے پہلے ہی روپے کی قدر میں کمی اور یوٹیلٹیز بڑھا دیں، ادھر آئی ایم ایف ،عالمی بینک اور ایشیائی بینکس نے سروے رپورٹس کے ذریعے پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے والوں کو خوف میں مبتلا کردیا ہے۔ اگر آج حکومت، آئی ایم ایف سے معاہدہ کر لے ، تو اسٹاک مارکیٹ بھی کام کرنے لگے گی اور کچھ عرصے بعد سروے رپورٹس میں بھی بہتری آنا شروع ہوجائےگی ، لیکن غریب کی زندگی میں کوئی بہتری نہ آسکے گی، وہ غریب سےغریب تر ہوتاچلا جائے گا،کیوں کہ آئی ایم ایف کا قرضہ مہنگائی کی آگ کو مزیدہوا دے گا۔ فارما سیوٹیکل کمپنیز پہلے ہی روپے کی بے قدری پر شور مچا کر من مانی قیمتوں پر ادویہ فروخت کررہی ہیں ، روپے کے استحکام اور مہنگائی کے ٹھہرائو کے بارے میں آئی ایم ایف کے پجاری، معاشی دانش وَر کہتے ہیں، ایک مرتبہ معاہدہ ہوجائے، تو حالات میں خود بہ خود بہتری آجائے گی۔ اس دَوران دوا ساز کمپنیزنے زندگی بچانے والی ادویہ کی مصنوعی قلّت پیدا کر دی ہے، غالباً عوام کو علم نہیں کہ سرمایہ داری میں انسانوں کی لاشوں ہی پر زیادہ منافع کمایا جاتاہے ۔ اسی لیے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ )ناکام ثابت ہوئی ،کیوں کہ اس کی مقرر کردہ قیمتیں یک سر نظر انداز کر دی گئیںاور بازار میںمَن مانی قیمتوں پر ادویہ فروخت کی جا رہی ہیں۔سابق وفاقی وزیر برائے صحت ، عامر محمود کیانی نے 226ادویہ کی قیمتوں کا اعلان کیا تھا، مگر اس پر عمل درآمد نہیں ہوا۔اس ضمن میں ادویہ فروشوں اور کمپنیز کے خلاف چھاپے تومارے جا رہے ہیں، مگر کوئی مثبت نتیجہ سامنے نہیں آرہا۔حالاں کہ وزیرِ اعظم ، عمران خان کہہ چُکے ہیں کہ ’’ہم زاید قیمتوں پر ادویہ فروخت نہیں ہونے دیں گے‘‘ تاہم، جذباتی الفاظ بے قابو حالات کا نعم البدل ثابت نہیں ہوسکتے۔

ڈاکٹر فیروز احمد نے1971 ء میں ’’سامراج اور پاکستان‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب میں غیرملکی سرمائے کے طرز ِعمل پر ایک جگہ لکھا کہ ’’قیمتوں میں ہیرا پھیری ، بلیک میلنگ، دبائو اور دھمکی سے کام لینا غیرملکی دواساز کمپنیز کے آزمائے ہوئے ہتھیار ہیں‘‘ ان غیر ملکی دوا ساز کمپنیوںکے کالے کرتوتوں کا پول اُس وقت کُھلا ،جب 1970ء میں امریکی سینیٹ کی ایک کمیٹی نے دوا ساز کمپنیز کے معاملات پرتحقیقات شروع کیں۔ ان کمپنیزنے پاکستان میں جو اندھیر مچارکھا تھا، اس کا اندازہ ایسے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ کمپنی اںعالمی منڈی یا امریکی بازار کے بھائو کے مقابلے میں پاکستان سے 80گنا تک زیادہ قیمتیں وصول کر رہی تھیں۔ واضح رہے کہ یہ اعداد و شمار منافعے کی شرح کی ترجمانی نہیں کرتے ، کیوں کہ منافع تو امریکا اور عالمی منڈی میں بھی کمایا جاتا ہے ، یہ اعداد و شمار اس لوٹ کھسوٹ کی ترجمانی کرتے ہیں ،جو شرحِ منافع وصول کرنے کے بعد پاکستان سے محض زاید قیمتوں کی بنیاد پر حاصل کیا گیا۔آج ہمارے مُلک میں تعلیم و صحت کے شعبوں کی حالت انتہائی ابتر ہے۔ دونوں ہی غریب کی پہنچ سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ سابق وزیرِ صحت،محمود کیانی کا کہنا تھا کہ روزانہ 65ہزار ہیلتھ کارڈز چھپ رہے ہیں ، جو ساڑھے 5کروڑ غریبوں میں تقسیم کیےجائیں گے، تاکہ وہ مفت علاج کروا سکیں۔اس اقدام سے یہ بات تو واضح ہوگئی کہ حکومت زرتلافی فراہم کررہی ہے، لیکن کیا فارما سیوٹیکلز بھی ایسا کریں گی؟ مبیّنہ طور پریہ الزام بھی لگایا جاتا ہے کہ بعض کمپنیزوائرس پھیلا کر ادویہ سازی کرتی ہیں اور پھر آر اینڈ ڈی (R&D) کا وقت بھی مقرر کرتی ہیں، جو ڈاکٹرز ان کمپنیز کی ادویہ تجویز کرتے ہیں ،انہیں مراعات دی جاتی ہیں، اُن کے بچّوں کو بیرونِ مُلک تعلیم کے لیے بھیجا جاتا ہےاورسیر و تفریح کے مواقع بھی فراہم کیے جاتے ہیں۔ جب حالات یہ ہوں تو حکومت بھی کیا کر سکتی ہے؟ آج جو معاشی بربادی نظر آرہی ہے، اس کی ایک وجہ تاریخی معاہدوں میں کک بیکس اور کمیشن ہے۔

مشرّف کے دَور میںشوکت عزیزاور آئی ایم ایف کی ملی بھگت سے ڈالر 60روپے فکسڈ رکھا گیا،پیپلز پارٹی کی حکومت میں اس کی قدر بڑھا کر 85روپے کر دی گئی، اس کے باوجود پیپلزپارٹی کی حکومت برآمدات بڑھا کر 25ارب ڈالرز تک لے گئی۔ حالاں کہ اُس دَور میں تیل کی قیمتیں عروج پر تھیں، لیکن بجلی ، گیس اور پیٹرول کی قیمتیں نون لیگ کے دَور سے بہت کم تھیں۔ نواز شریف کے دَور میں آئی ایم ایف کی ہدایات پر ڈالر کوزبر دستی 100روپے کر دیا گیا۔ اسحاق ڈار مُلک سےباہر گئے، تو مفتاح اسماعیل ڈالرکی قدر 122روپے تک لے گئے۔اور اب قرضوں اور خساروں کے ڈھیر پر تحریک ِانصاف براجمان ہے، جب کہ ڈالر کی قدر 140 سے 145روپے کے درمیان ہے۔ اس وقت صوبائی و قومی اسمبلیوں اور سینیٹ میں و ہی طبقہ بیٹھا ہے، جس نے قومی معیشت کو تباہ حال کردیا ،اس لیےعمران خان جس قدر بھی کوشش کرلیں، اس مُلک کو ایمان داری سے چلانا نہایت ہی مشکل ہے۔اب یقیناً وزیرِ اعظم سمجھ گئے ہوں گے کہ مُلک کے لیےمعاشی دلدل سے نکلنا آسان نہیں ۔ دوسری جانب ادویہ کے بارے میں اگر عالمی سطح پر مکمل تحقیقات ہوں،تو یہ علم ہوگا کہ ملٹی نیشنل فارماز کس طرح انسانوں کی زندگیوں سے کھیلتی چلی آرہی ہیںاور پاکستان میں نجی اسپتالوں اور مخصوص ڈاکٹرز نے علاج کو جس قدر مشکل بنا دیا ہے، وہ بھی انقلاب کا متقاضی ہے، لیکن انقلاب کے لیے کوئی تیار نہیں۔ یہ خبر بھی سامنے آئی ہے کہ 395ادویہ کی قیمتوں میں کمی پر عمل درآمد جلد شروع ہوجائے گا۔ جینیرک نظام کا اجرا بھٹو حکومت سے ہوا تھا، جسے بڑی ملٹی نیشنل کمپنیز نے سبوتاژ کردیا ۔ درحقیقت ابتدائی برسوں میں کچھ سرمایہ لگانے کے بعد غیرملکی سرمایہ دار پاکستان میںکم سرمایہ لاتے اورزیادہ لے جاتے رہے ہیں ۔ یہ کام کمپنیز کی نج کاری کے بعد مزید تیز ہوگیا ،اب جعلی ڈبل منافع، ڈالرز میں منتقل کرکے قانونی طور پر چالاکی سے باہر لےجایاجارہا ہے اور اس میں ٹیلی کام سیکٹر کے کچھ انویسٹر زبھی پیش پیش ہیں۔ حال ہی میں نون لیگ کے ایک سابق وزیرِ قانون نے بھی تسلیم کیا کہ پاکستانی تاجروں کا جو پیساباہر جاتا ہے ،وہ ترسیلاتِ زر کے ذریعے سفید دھن کی صُورت واپس لایا جاتا ہے۔ ابتدا ہی سے پاکستان نے ادویہ سازی کے غلط معاہدے کیے، خود امریکی سینیٹر، گیلارڈنیلسن حیران تھے کہ پاکستان کے حکمران اس قدر احسان لے کر اپنے عوام پر ظلم کررہے ہیں، کیوںکہ یہ سارا دھندا پاکستان پر احسان جتاتے ہوئے کیا جاتا تھا، جس کا خمیازہ اب تک پاکستانی عوام بھگت رہےہیں ۔نیلسن نے اے آئی ڈی کے ایک اعلیٰ افسر سے پوچھا کہ’’ حکومت ِپاکستان اس قسم کی تجارت کی کس طرح اجازت دے دیتی ہے؟ جس پر افسر نے جواب دیا ’’اگر وہ ان قیمتوں پر امریکی ادویہ درآمد کرنا چاہتے ہیں ،تو یہ اضافہ ان کا معاملہ ہے ،ہمارا نہیں۔ ‘‘ جواباً سینیٹر نیلسن نے کہا ’’مَیںتو کبھی نہیں چاہوں گا کہ کوئی مجھ پر اس قسم کا احسان کرے، میرا خیال ہے کہ یہ پُراسرار ظلم ہے‘‘ (ڈاکٹر فیروز احمد کی کتاب :سامراج اور پاکستان) ۔آج یہ بھی ثابت ہوگیا کہ پاکستانی حکمرانوں، اشرافیہ اور بیورو کریسی نےمل کراس مُلک کو نوچ کھسوٹ ڈالا ہےاوراس وقت رائج ادویہ کی قیمتیں سراسر ناجائز اور استحصالی ہیں۔