ماہِ صیام ... ظاہری و باطنی تربیت کا بہترین موقع

May 19, 2019

رضیہ جوہر، گلشن اقبال، کراچی

’’ارے فائزہ! تم اب تک موبائل فون میں لگی ہو، نماز کا وقت گزرا جارہا ہے۔‘‘ ’’بس ،جا رہی ہوں دادو جان۔‘‘ اس کے لہجے اور انداز میں عبادت کی چاہ سے زیادہ فرض کی ادائیگی کا احساس نمایاں تھا۔’’دادو! ایک بات تو بتائیں،جب مَیں نماز ادا کررہی ہوتی ہوں، تو یک سوئی نہیں ہوتی، ساری بھولی بسری باتیں یاد آنے لگتی ہیں۔ بس خواہش ہوتی ہے کہ نماز جلد سے جلد مکمل کرلی جائے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟‘‘ فائزہ کا لہجہ اُلجھا ہوا اور چہرے پر خفّت سی تھی۔ ’’بیٹا! یہ سب شیطان کی کارستانیاں اور نفس کی قلابازیاں ہیں۔ ان سے تم ہرگز بددِل مت ہو۔ روزے تو تم رکھ رہی ہو۔ نماز کی پابندی بھی سختی سے کرو اور فارغ وقت میں قرآنِ پاک ترجمے کے ساتھ پڑھو۔ تم دیکھو گی کہ اس ماہِ کامل اور روزوں کی برکت سے تمہارے ظاہر و باطن میں یک رنگی آجائے گی۔‘‘شائستہ بیگم کے لہجے کی سچّائی اور یقین نے فائزہ کو کافی حد تک مطمئن کردیا تھا۔بے شک کردار کی درستی اور سیرت کی تعمیر کے لیے ماہِ رمضان اُمّتِ محمّدیؐ کے لیے فضائل و برکات سے مزّین، ایک بہترین موقع ہے کہ روزوں کا اصل مقصد تقویٰ کا حصول ہے اور تقویٰ ہمیں برائیوں، غلط کاموں اور گناہوں سے دُور رکھ کر نیکی اور بھلائی کی ترغیب دیتا ہے۔ گویا ماہِ صیام کے فیوض و برکات میں مومنوں کی اخلاقی اور روحانی تربیت بھی شامل ہے۔

ماہِ صیام کو اللہ تعالیٰ نے اپنا مہینہ قرار دے کر اسے قدر و منزلت کے عروج تک پہنچا دیا۔ دیکھا جائے تو اس میں بھی اس کی حکمت و دانائی ہے کہ وہ ہر حال میں اپنے بندوں کا بھلا اور خیر و عافیت چاہتا ہے۔ اُسے اپنے اُن کم علم، کم فہم اور شیطان کے بھٹکائے کم زور ایمان والے بندوں کی بھی بھلائی مطلوب ہوتی ہے، جو دین کی تعلیمات اور اپنا مقصدِحیات فراموش کرکے دُنیاوی لذّتوں اور نمود و نمایش والی زندگی میں کھو جاتے ہیں۔ رب العالمین انہیں اپنی آخرت و عاقبت سنوارنے کے لیے شہرِرمضان میں لے آتا ہے، جہاں کا موسم پُربہار اور ہوائیں خیر و برکت والی ہیں۔بلاشبہ خوش نصیب ہیں وہ، جو اپنے پروردگار کے اس عظیم احسان کی اہمیت اور فضیلت محسوس کرتے ہیں اور اطاعت گزار بن کر احکاماتِ خداوندی بجا لاتے ہیں۔ روزے رکھتے ہیں، بھوک پیاس میں صبر و استقامت کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیتے، اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں، توبہ استغفار کرتے ہیں۔نیز، حقوق اللہ کی ادائیگی کے ساتھ انہیں حقوق العباد کی فکر بھی دامن گیر رہتی ہے۔

نفس کی تربیت ،کردار کی اصلاح اور ایمان کو نکھارنے کا موقع سال میں ایک بار رمضان المبارک ہی کی صورت ملتا ہے۔ اس سے پہلے کہ ہدایت کا یہ موسم گزر جائے، بخشش و مغفرت کے نذرانے بٹنابند ہوجائیں، رحمتوں،برکتوں کی ہوائیں اپنی سمت بدل لیں، ربِ کریم کی اس عظیم عطا کی دِل سے قدر کرتے ہوئے، اس کی ہر ساعت اپنے لیے بامُراد اور یادگار بنالیں، کیا خبر کہ اگلے برس یہ ساعتیں نصیب ہوں، نہ ہوں۔