وینز ویلا کا بُحران: سوشلزم اور مغربی جمہوری نظام میں کشمکش؟؟

May 19, 2019

جوآن گائیڈو نکولس مدورو

رمضان المبارک سے محض 3روز قبل پاکستان میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ ہوا۔ چُوں کہ پاکستان کا انحصار درآمد شُدہ تیل پر ہے، لہٰذا قیمتوں میں اضافے کا سبب دو ممالک کے حالات کو قرار دیا جارہا ہے، جن میں عالمی پابندیوں سے متاثرہ ایران اور سیاسی و اقتصادی بُحران کا شکار لاطینی یا جنوبی امریکا کا اہم مُلک وینزویلا شامل ہے۔ مشہور انقلابی لیڈر، ہیوگو شاویز کی وجہ سے شُہرت حاصل کرنے والے وینزویلا میں جاری سیاسی افراتفری نے نہ صرف تیل کی پیداوار کو متاثر کیا، بلکہ یہ تیل کی قیمتوں میں اضافے کا باعث بھی بنی۔ وینزویلا کو اس صورتِ حال سے دوچار کرنے میں امریکا نے اہم کردار ادا کیا۔اس وقت لاطینی امریکا کے اس اہم مُلک میں صدر، نکولس مدورو اور نئے خود ساختہ لیڈر، جوآن گائیدو کے ، جو نیشنل اسمبلی کے صدر بھی ہیں، درمیان اقتدار کی شدید کشمکش جاری ہے۔ گائیدو کو اپوزیشن جماعتوں کی حمایت حاصل ہے، جب کہ مدورو کی پُشت پناہی فوج کا ایک بڑا حصّہ کر رہا ہے۔ بعض تجزیہ کار اس بُحران کو سوشلزم اور مغربی جمہوری نظام کے درمیان تصادم قرار دیتے ہیں اور صدر مدورو کی حکومت کا بھی یہی مؤقف ہے ۔

وینزویلا کے لیے اس قسم کے حالات نئے نہیں۔ یہ مُلک برِاعظم، جنوبی امریکا کے شمالی ساحل پر واقع ہے۔ اس کے جنوب میں برازیل، مغرب میں کولمبیا، مشرق میں گیانا اور شمال مشرق میں ٹرینی ڈاڈ اور ٹوباگو واقع ہیں۔ وینزویلا کے دارلحکومت، کراکس کا شمار دُنیا کے اہم شہروں میں ہوتا ہے۔ اس مُلک کی آبادی 3کروڑ 10لاکھ سے زاید ہے اور یہ تیل پیدا کرنے والا دُنیا کا دسواں بڑا مُلک ہے۔ نیز، یہ تیل پیدا کرنے والے ممالک کی تنظیم، اوپیک کا اہم رُکن ہے۔ 1522ء میں اسپین نے وینزویلا کو فتح کر کے اپنی نو آبادی بنایا، جب کہ 1830ء میں وینزویلا نے اس سے مکمل آزادی حاصل کی۔ تاہم، آج یہ مُلک ہیوگو شاویز کی وجہ سے شُہرت رکھتا ہے، جس نے تقریباً دو عشروں تک اس مُلک پر حُکم رانی کی۔ شاویز اپنے بائیں بازو کے نظریات کی وجہ سے مشہور تھے اور 2013ء تک وینزویلا کے صدر رہے۔ وہ فیدل کاسترو اور چی گویرا جیسے رہنمائوں کی صف میں شامل تھے، جنہوں نے لاطینی امریکا میں سوشلزم کو فروغ دینے کی کوشش کی۔ تاہم، سوویت یونین کے انتشار کے بعد سوشلزم کی تحریک صرف نعروں تک محدود ہو چُکی ہے اور یہ نعرے بھی ان رہنمائوں کو تب یاد آتے ہیں کہ جب ان کی بیڈ گورنینس کی وجہ سے مُلک کی معیشت تباہ حال ہو جاتی ہے۔ رواں صدی کے آغاز میں وینزویلا کا شمار دُنیا کے خوش حال ممالک اور اُبھرتی معیشتوں میں ہوتا تھا ، لیکن بعد میں آنے والی حکومتوں کی نا اہلی نے اسے اس مقام پر پہنچا دیا۔ علاوہ ازیں، تیل کی گرتی قیمتوں نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور وینزویلا کے لیے بجٹ بنانا تک مشکل ہو گیا۔ خیال رہے کہ وینزویلا کی معیشت کا دارومدار تیل کی برآمد پر ہے اور اس کی تیل کی سرکاری کمپنی، پیٹرولیم کمپنی آف وینزویلا کا شمار تیل برآمد کرنے والی دُنیا کی بڑی کمپنیز میں ہوتا ہے، جو اس وقت خراب طرزِ حُکم رانی اور کرپشن کی وجہ سے خسارے کا شکار ہے۔

مہنگائی سے عاجز وینز ویلا کے شہری کیوبا کی جانب نقل مکانی کر رہے ہیں

وینزویلا کے موجودہ صدر،نکولس مدورو کو سیاسی و معاشی بدحالی وَرثے میں ملی، جب کہ اس وقت وینزویلا کی اقتصادی صورتِ حال ایک جنگ زدہ مُلک کی طرح دگرگوں ہے، حالاں کہ یہاں گزشتہ 20برس سے بہ ظاہر امن قائم ہے۔ دراصل، مدورو نے مُلک کی معیشت بحال کرنے کی بہ جائے بیرونی عناصر اور سازشوں کو اس کا ذمّے دار قرار دے کر اپنی جان چھڑوانے کی کوشش کی اور اُن کے پیش رو، ہیوگو شاویز نے بھی یہی طرزِ عمل اختیار کیا تھا ۔بدقسمتی سے مقبول مگر نا اہل حُکم رانوں کا یہ وتیرہ رہا ہے کہ وہ عمل کی بہ جائے کسی طاقت وَر بیانیے سے عوام کو اپنے سحر میں گرفتار اور اپوزیشن کو بے بس کیے رکھتے ہیں۔ یہ اپنے مُلک کے عوام کو ہمہ وقت خوش حالی کی خوش خبریاں سُناتے رہتے ہیں، لیکن عملی طور پر کچھ نہیں کرتے۔ افراطِ زر کی بلند شرح نے وینزویلا کے عوام کی چیخیں نکال دیں اور وہ احتجاجاً سڑکوں پر نکل آئے۔ مالیاتی ماہرین اور بین الاقوامی اداروں کے مطابق رواں برس مہنگائی میں مزید اضافہ ہو گا۔ اس وقت وینزویلا کی کرنسی، بولیویانو کو بدترین گراوٹ کا سامنا ہے اور 100کے نوٹ کی قدر بہ مشکل 3امریکی سینٹ رہ گئی ہے اور اکثر دُکان دار کرنسی نوٹ شمار کرنے کی بہ جائے تولنا پسند کرتے ہیں۔ گزشتہ برس کرنسی کی قدر میں کمی روکنے کے لیے وینزویلا کی حکومت نے پُرانے نوٹ منسوخ کر کے نئے نوٹ جاری کیے تھے۔ تاہم، ماہرین کا ماننا ہے کہ اس سارے عمل میں سنجیدگی اور مالیاتی سوجھ بوجھ کا فقدان نظر آتا ہے۔ نیز، مالیاتی حلقوں میں 20,000بولیویانو کے کرنسی نوٹ کا مذاق بھی اُڑایا جا رہا ہے۔

اس وقت وینزویلا کی صورتِ حال یہ ہے کہ مُلک بَھر میں مظاہروں کے آغاز بعد نیشنل اسمبلی کے صدر، جوآن گائیدو نے مُلک کے سربراہ کا عُہدہ سنبھالنے کا اعلان کر دیا ہے اور آئین بھی بُحران شدید ہونے کی صورت میں اس بات کی اجازت دیتا ہے۔ گائیدو کو اپوزیشن کے علاوہ عوام کی اکثریت کی حمایت بھی حاصل ہے، جو مسلسل مدورو کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں اور ان مظاہرین کا فوج اور پولیس اہل کاروں سے براہِ راست تصادم ہو رہا ہے۔ دوسری جانب سیاسی بُحران میں طوالت کے باعث علاقائی و عالمی طاقتیں بھی پوری طرح اس میں شامل ہو چُکی ہیں۔امریکا سمیت 50سے زاید دوسرے ممالک نے گائیدو کی حکومت تسلیم کر لی ہے، جس میں لاطینی امریکا کے ممالک کے علاوہ مغربی ممالک بھی شامل ہیں، جب کہ رُوس، چین اور کیوبا اب بھی مدورو کا ساتھ دے رہے ہیں، جس کا سبب ان کا سوشلسٹ بیانیہ ہے۔ دوسری جانب ٹرمپ انتظامیہ نے وینزویلا پر اقتصادی پابندیاں عاید کر دی ہیں، جب کہ اس کے ساتھ ہی تیل کی کم قیمتوں نے بھی مُلکی معیشت کی چُولیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ عوام عاجز آ چُکے ہیں، لیکن مدورو فوج کی حمایت کی وجہ سے ابھی تک برسرِ اقتدار ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ وہ منتخب صدر ہیں، جب کہ مظاہرے امریکا اور دیگر سام راجی طاقتوں کی ان کے خلاف سازش ہیں۔ نیز، گائیدو اور اپوزیشن لیڈر، لوپیز مل کر ان کی حکومت کا تختہ اُلٹنا چاہتے ہیں۔نکولس مدورو پہلی مرتبہ 5سال کے لیے2013ء میں صدر منتخب ہوئے تھے اور پھر انہوں نے مئی 2018ء کے انتخابات میں کام یابی حاصل کی تھی، لیکن اپوزیشن نے ان انتخابات کو غیر شفّاف قرار دیتے ہوئے نتائج تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب مدورو نے جنوری میں دوبارہ حلف اُٹھایا، تو جوآن گائیدو نے ان کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کر دیا اور اس کے ساتھ ہی خود کو مُلک کا صدر بھی قرار دیا۔

وینزویلا میں ہونے والے حکومت مخالف مظاہرے کا ایک منظر

امریکا نے اعلانیہ کہا ہے کہ وہ کسی بھی صورت مدورو کو وینزویلا کا صدر تسلیم نہیں کرے گا اور جوآن گائیدو کی حمایت کرے گا۔ امریکا کا دعویٰ ہے کہ اس سلسلے میں اُسے اس خطّے کے ایک سوشلسٹ مُلک کی حمایت بھی حاصل ہے اور وہ عملی طور پر بھی کارروائی کر رہا ہے۔ یہ مُلک کیوبا ہے، جسے امریکا جاسوس قرار دیتا ہے۔ اطلاعات کے مطابق امریکا، وینزویلا میں فوجی مداخلت پر بھی آمادہ ہے اور اس سلسلے میں امریکا کی قومی سلامتی کے مُشیر، جان بولٹن کے اُس بیان کا حوالہ دیا جاتا ہے کہ جس میں انہوں نے وینزویلا میں فوجی کارروائی کا اشارہ دیا تھا۔ تاہم، فی الوقت امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ انتہائی قدم اُٹھانے کا فیصلہ نہیں کیا، کیوں کہ مدورو کو اپنے مُلک کی فوج کی حمایت حاصل ہے۔ گائیدو نے 30اپریل کو اعلان کیا تھا کہ اُن کی جدوجہد حتمی مرحلے میں داخل ہو گئی ہے اور پھر انہوں نے مُلک گیر مظاہروں کی کال دی۔ تاہم، سیکوریٹی فورسز نے طاقت کا استعمال کرتے ہوئے احتجاج کو ناکام بنا دیا۔ بعدازاں، 2مئی کو صدر مدورو نے سرکاری ٹی وی پر قوم سے خطاب کیا، جس میں فوج کے سربراہ ان کے ساتھ کھڑے تھے اور یہ اس بات کا واضح پیغام تھا کہ فوج اُن کے ساتھ ہے۔

تاہم، اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وینزویلا کا سیاسی بُحران ٹل گیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق، گزشتہ چند برسوں کے دوران وینزویلا کے تقریباً 30لاکھ شہری روزگار اور پناہ کی تلاش میں پڑوسی ممالک کا رُخ کر چُکے ہیں اور اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وینزویلا میں کتنی ابتر صورتِ حال ہے۔ خیال رہے کہ یہ جنوبی امریکا کے کسی مُلک سے پناہ کی خاطر بیرونِ مُلک منتقل ہونے والے شہریوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ تاہم، وینزویلا کے حُکّام یہ اعدادو شمار تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں۔ بعض تجزیہ نگار اس بُحران کو لاطینی امریکا کی اُس کشمکش سے جوڑتے ہیں، جو کیوبا میں کاسترو اور وینزویلا میں شاویز کے زمانے سے چلی آرہی ہے۔یاد رہے کہ مذکورہ رہنمائوں سمیت دوسرے سوشلسٹ لیڈرز نہ صرف امریکا کے شدید نقّاد اور مخالف رہے، بلکہ انہیں اپنے مُلک میں مقبولیت کی وجہ سے طویل حُکم رانی کا موقع بھی ملا۔ مثال کے طور پر وینزویلا میں 1999ء سے سوشلسٹ حکومت قائم ہے، جب کہ کیوبا میں فیدل کاسترو کے بعد ان کے بھائی، راہُل کاسترو حُکم ران ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ شاویز وینزویلا کے مقبول ترین رہنمائوں میں سے ایک تھے اور ان کے بیانیے اور جوشِ خطابت نے دُنیا کے ایک بڑے حصّے کو اپنے سحر میں گرفتار کر رکھا تھا۔ انہیں امریکا کے کٹّر مخالفین میں شمار کیا جا سکتا ہے اور وہ ہمیشہ امریکا کو ایک سام راجی طاقت قرار دیتے رہے۔ تاہم، یہ بھی حقیقت ہے کہ اُنہی کے دَورِ حکومت میں وینزویلا کی معیشت بدترین بُحران کا شکار ہوئی۔ شاویز کی موت کے بعد اُن کے جانشین اور موجودہ صدر، مدورو نے اقتدار سنبھالا، تو صورتِ حال قابو سے باہر ہونے لگی۔ اس کا ایک سبب تیل کی قیمتوں میں تاریخی گراوٹ تھی، جو 114ڈالرز فی بیرل سے کم ہو کر 30ڈالرز فی بیرل ہو گئی تھی۔ تیل کی قیمتوں میں غیر معمولی کمی نے وینزویلا کو ایران جیسے ممالک کی صف میں شامل کر دیا، جہاں عوام کو کڑے حالات کا سامنا ہے۔ پھر جنوبی امریکا میں رہتے ہوئے امریکا سے دشمنی مول لینے کی وجہ سے بھی اسے خاصا نقصان پہنچا، جب کہ اس کا ایک ہم نوا مُلک، کیوبا فیدل کاسترو کی موت کے بعد امریکا سے اپنے تعلقات معمول پر لے آیا۔ تاہم، وینزویلا کو تباہی کے دہانے پر پہنچانے والا سب سے اہم عُنصر بیڈ گورنینس یا خراب طرزِ حُکم رانی ہے۔ وینزویلا کی حکومت مالیاتی نظام، تیل کی پیداوار و ترسیل اور عوام کی بنیادی ضروریات پر توجّہ دینے کی بہ جائے بیانات جاری کرنے میں مصروف نظر آتی ہے، جس کی وجہ سے اسے ایک کے بعد دوسرے بُحران نے اُلجھا کر رکھ دیا۔

ماہرین کا ماننا ہے کہ تیل پیدا کرنے والے تمام ممالک نے تیل کی قیمتوں میں گراوٹ کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اپنی معیشت کو متنوّع بنانے کے لیے اقدامات شروع کر دیے، کیوں کہ وہ یہ بھانپ چُکے تھے کہ اب صرف تیل ہی پر انحصار نہیں کیا جا سکتا اور اگر مُلک چلانا ہے، تو معیشت کے دوسرے شعبوں میں بھی طبع آزمائی کرنا ہو گی، لیکن ان کے برعکس وینزویلا کے صدر، نکولس مدورو اپنے مُلک کی اپوزیشن کے ساتھ اُلجھے رہے اور مُلک کی صورتِ حال بدسے بدتر ہوتی چلی گئی۔ وینزویلا میں حکومت اور اپوزیشن کے رہنمائوں کے درمیان پوائنٹ اسکورنگ پسندیدہ مشغلہ بن چکا ہے اور فوج ایک طرف کھڑی تماشا دیکھ رہی ہے، جب کہ دوسری جانب امریکا فیصلہ کُن اقدامات کے لیے تیار بیٹھا ہے۔یہ اقدامات فوجی مداخلت کی شکل میں بھی ہو سکتے ہیں اور یورپی و لاطینی امریکا کے ممالک سے سفارت کاری کی صورت میں بھی، تاکہ اس بُحران کا کوئی حل نکالا جا سکے۔ یاد رہے کہ وینزویلا سے نقل مکانی کرنے والے لاکھوں تارکینِ وطن دوسرے ممالک کا رُخ کر کے اُن کے لیے اقتصادی و سماجی مسائل پیدا کر رہے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ رُوس اور چین زیادہ عرصے تک صدر مدورو کا ساتھ نہیں دے پائیں گے، کیوں کہ امریکا کی جانب سے پابندیاں عاید ہونے کے بعد ان کے لیے وینزویلا کو امداد فراہم کرنا ممکن نہیں رہا۔ علاوہ ازیں، وینزویلا میں تیل کی پیداوار بہ تدریج کم ہوتی جا رہی ہے اور پھر اپوزیشن بھی کم زور ہونے کے باوجود پیچھے ہٹنے پر آمادہ نہیں۔ تاہم، فی الحال مُلک میں طاقت کا توازن فوج کے ہاتھ میں ہے اور اس کا جُھکائو جس فریق کی جانب ہو گا، وہی کام یاب ہو گا۔ یہ بات امریکا بھی جانتا ہے اور رُوس اور چین بھی۔ تاہم، فوج بھی آخر کب تک اس بُحران کو برداشت کرے گی، کیوں کہ اس کی وجہ سے ایک جانب عوام میں بے چینی پائی جاتی ہے، تو دوسری جانب اس کے اپنے معاشی مفادات پر زد پڑ رہی ہے۔ لہٰذا، اس وقت عالمی طاقتوں اور فریقین کے لیے اہم سوال یہ ہے کہ وینزویلا کو تباہی سے کیسے بچایا جائے؟