آگہی کی منزل پر

May 19, 2019

شاعرہ:رضیہ سُبحان قریشی

صفحات: 211

قیمت: 500 روپے

ناشر: ویلکم بُک پورٹ، کراچی

؎’’غم تو غم ہیں، آپ کی خاطر خوشی بھی مسترد… آپ کہتے ہیں تو، لیجیے زندگی بھی مسترد‘‘یہ ہیں رضیہ سُبحان قریشی، جو ’’آگہی کی منزل پر‘‘آن پہنچی ہیں۔تاہم، آگہی کی یہ منزل طویل ریاضتوں کے بعد حاصل ہوئی ہے۔ ’’سرد آگ‘‘، ’’خاموش دستک‘‘،’’سیپیاں محبّت کی‘‘اور ’’مکاں لامکاں‘‘ سے گزرنے کے بعد رضیہ یہ سُخن کرتی ہیں؎’’اِک نہ اِک دِن تو اسے تن سے جدا ہونا ہے…دَم کو ہر دَم ،مِرا دَم سازنہ سمجھا جائے‘‘ تدریس سے وابستگی کے ساتھ انہوں نے تخلیق سے مضبوط ہم رشتگی اس طرح قائم رکھی کہ دھیرے دھیرے اپنی شناخت بنائی اور اہلِ ادب سے داد پائی۔ مطالعہ اور مشاہدہ اُن کی زندگی کا نچوڑ ہے۔ مولانا روم سے استفادہ اس طور کیا کہ اُن کی چند نظموں کے تراجم بھی اہلِ علم کے سامنے پیش کیے۔ اُن کی ایک اور پہچان انگریزی نظموں کو اُردو کا پیرہن عطا کرنا بھی ہے۔