اردو کے محاورے اور ہماری تہذیب...

May 15, 2019

سید ضمیر حسن دہلوی

زبان سے ملک کا سکّہ ہے عورت

انوکھا ہے چلن سارے جہاں سے

زباں کا فیصلہ ہے عورتوں پر

یہ باتیں مردوئے لائیں کہاں سے

عورتوں کی زبان سے خدا بچائے، بیگمات کی بول چال سے گو کان آشنا نہیں، آنکھوں نے اور اقِ پارینہ میں اُن کی جھلکیاں دیکھی ہیں۔ ان کے ممتاز محاورات پر نظر ڈالیے تو آنکھوں کے سامنے رمز و کنائے کا ایک رنگیں چمن ہو گا۔ اُن کی صنّاعی، طباعی کا جوہر منہ بند کلیوں کی طرح کھلتا اور خندۂ مل کی طرح مہکتا نظر آئے گا۔

بہادر شاہ ظفر کے عہد پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر اسلم پرویز نے لکھا ہے:

’’قلعہ معلّیٰ کی تہذیب کا ایک اہم جزو وہ زبان تھی جس میں شاہ عالم ثانی اور اُن کے بعد ظفر نے بھرپور شاعری کی تھی۔ اس زبان کی گونج بازارسے گزرتی ہوئی کابلی دروازے کے اس تنگ و تاریک مکان تک سنائی دیتی تھی جہاں ذوق کا مسکن تھا اور پھر یہ گونج سننے والوں کو اپنی طرف کھینچتی تھی۔ اس گونج میں ذوق بھی کھینچے چلے گئے اور پھر دلّی کا محاورہ اور روزمرہ جس طرح ذوق کی شاعری میں رچ بس گیا، اس کی دوسری اور نسبتاً زیادہ خوب صورت مثال داغ کے یہاں ملتی ہے‘‘۔

زبان کی خوبی اس کی سلاست، عام فہمی، نرمی، موزونی، چھوٹے چھوٹے الفاظ اور بڑے بڑے مطالب پر موقوف ہے۔ محاورات وہ ننھے مرقّع ہیں جو کسی سماج کے تجربات، تصوّرات اور تاثّرات کی نمائندگی کرتے ہیں۔ عام لوگوں کی زبان کو پایۂ اعتبار سے گرانا زبان کے زوال اور عدم مقبولیت کاسبب بنتاہے۔ بیگمات نےاپنے محاوراتی اسلوب میں مجاز و مبالغہ، تشبیہ اور تمثیل، مصوّری و محاکات اور رمزیت و اشاریت کے سارے جوہر محفوظ کر لیے تھے۔ اسی لیے جب ہم ان کی صدائے بازگشت سنتے ہیں توبے قرار ہو جاتے ہیں۔اظہارِ خیال اور ادائے مطلب میں پے چیدگی سے بچنے کے لیے بول چال کی زبان، روزمرہ اور محاورے کا استعمال ناگزیر ہو جاتا ہے۔ زبان کا ذوق رکھنے والوںنےادبی شبہ پاروں میں محاورات پر ضرور نظر کی ہو گی۔ یہاں چند محاورات مثال دینے کے لیے پیش کئے جاتے ہیں:

چُلوؤں لہو خشک ہونا، اُوڑا پھڑنا، سر بالوں کو آنا، اٹواٹی کھٹواٹی لینا، منہ تھوتھائے رہنا، دیدے کا پانی ڈھلنا، تکلّفی کے سے بل نکالنا، آنکھوں پر چربی چھانا، نعمت کی اماں کا کلیجہ ہونا جیسے محاوروں کے علاوہ ضرب الامثال کا بھی ایک بیش بہا خزانہ ہے جو ہماری زبان میں پایا جاتا ہے۔ مثلاً ایک توے کی روٹی، کیا چھوٹی، کیا موٹی، جس کے ہاتھ ہنڈیا ڈوئی اس کا ہر کوئی، انیس و بیس، روڑے اُچھلیں، سرخ رو چونڈا، ایمان بھونڈا، مائی جی کا تھان کھیلے چوگان، ٹاٹ کی انگیا، مونچھ کا بخیا، جہاں بہو کا پسار وہیں خسر کی کھاٹ، ان محاورات اور ضرب الامثال کی مدد سے کچھ مصنّفین نے ابلاغ اور معانی آفرینی کے کمالات دکھائے ہیں اور کچھ مصنّفین صناعیِ کلام کی ان بُھول بُھلیّوں میں گم ہوکے رہ گئے۔

سنا ہے کوئی جاٹ سرپر چارپائی لیےے کہیں جا رہا تھا۔ ایک تیلی نے دیکھ لیا اور جھٹ پھبتی کسی: جاٹ رے جاٹ، تیرے سر پہ کھاٹ۔ جاٹ اُس وقت تو چُپ ہو گیا مگر دل میں بدلے کی بھاؤنا لیے بیٹھا رہا۔ ایک دن دیکھا کہ تیلی اپنا کولہو لیے جاتا ہے۔ جاٹ نے جواباً کہا تیلی رے تیلی ،ترے سر پہ کولہو۔ تیلی ہنسا اور کہنے لگا جچی نہیں۔ جاٹ نے جواب دیا: جچے نہ جچے ،تُو بھوجھوں تو مرے گا۔ محاوراتی اُسلوب کا راستہ پلِ صراط سے زیادہ خطرناک ہے۔ غزل کے ہر شعر کی طرح اس کا تعلق آب دار اور برجستگی سے ہے ،پھر یہ کہ عورتوں سے محاورے، زبان کی طراری اور ایک مخصوص معاشرتی تربیت کے بغیر اس پُر شکوہ اورپُر خطر مہم کا سر کرنا ممکن نہیں ہے۔ نذیر احمد کی زبان ٹکسالی ہے، لیکن ان کی تصنیف اُمّہات الامۃ کو لوگ کہتے ہیں اسی لیے نذرِ آتش کیا گیا تھا کہ اس میں ایک محاورہ یہ بھی تھا کہ جوتیوں میں دال بٹنے لگے گی۔

اب نہ اُردوئے معلیٰ رہی اور نہ گلی کوچوں میں بولا جانے والا ریختہ۔جمہوری انقلابات نے ماضی کے تمام امتیازات کی جڑیں اکھاڑ پھینکی ہیں ۔عورت، مرد سب بچھڑی زبان بول رہے ہیں۔ جو لوگ زبان کا حُسن اور محاورے کی وابستگی کا رونا روتے تھے، وہ بھی قصّہ پارینہ ہوئے۔ جواب دکھائی دیتے ہیں وہ کل ناپید ہو جائیں گے۔ ہمیشہ رہے نام اللہ کا۔ایسے میں عشرت ہاشمی کا کارنامہ،یعنی ’’اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ‘‘ ایک تاریخی دستاویز کا درجہ رکھتا ہے۔ عشرت نے بہادر شاہ ظفر کے عہد اور شاعری پر پہلے بھی کام کیا ہے۔ انہیں اس دور سے ربطِ خاص ہے جس میں محاورات اور ضرب الامثال کے چلن نے اُردو زبان کو مقبولیتِ عام اور شہرتِ دوام بخشی تھی۔ محاورے کیسے بنتے ہیں، اُن کی ساخت میں معاشرت کے کس کس عمل اور انسانی فکر کے کن کن زاویوں کا دخل ہوتا ہے، یہ سمجھے بغیر محاوراتی اسلوب کو برقرار رکھنا ناممکن ہے۔ اور محاوراتی اسلوب کے ہاتھ سے نکلنے کے بعد اردو زبان کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ جائے گی۔ہماری ہزار ،آٹھ سو سال کی محنت اور جاں فشانی رائیگاں ہو جائے گی۔ محاورات اور ضرب الامثال پر اردو میں متعدد لغتیں اور فرہنگیں موجود ہیں۔ لیکن اُن کی تہذیبی اور کلیدی جہتوں پر اہلِ زبان کی نظر کم گئی ہے۔ کچھ عرصے پہلے تک یہ ضروری بھی نہیں تھا۔ کیوں کہ تہذیب کے سوتے ہمارے وجود میں ضم ہو گئے تھے۔ چناں چہ اس نازک دور میں ڈاکٹر عشرت ہاشمی کا یہ کام جودقیع اور جامع ہونے کے ساتھ تہذیبی مرقعوں کی افہام و تفہیم کا فریضہ انجام دیتا ہے، لایقِ ستائش ہے۔یہ اُردو بولنے والوں کے لیے سیکھنے اور سکھانے کا ذریعہ بنے گا ۔ مُرتّب کی ذہانت،کاوش،دیدہ ریزی اور تاریخِ معاشرت سے دل چسپی اس کتاب کی مقبولیت کی ضامن ہے۔