یومِ بابُ الاسلام تجدیدِ عہد اور عزمِ نو کا مظہر

May 16, 2019

پروفیسر سیّد مظہر حسین

’’یومِ باب الاسلام‘‘اس عہد کی تجدید اور اس عزم کا اظہار ہے کہ ہم حق کی بقا، ظلم کے خاتمے اور دین کی سربلندی کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے

خلیفۂ دوم حضرت عمر فاروقؓ کے عہدِ خلافت میں مکران پر مسلمانوں کی حکومت قائم ہوچکی تھی۔ 703ء میں محمد بن علافی اور اس کے خاندان کے لوگوں نے بغاوت کی اور مکران کے گورنر سعید بن اسلمؓ کو قتل کرکے سندھ کےراجہ داہر کے پاس پناہ گزین ہوگئے۔ راجہ داہر نے انہیں گورنر عراق حجاج بن یوسف کےحوالے کرنے سے انکار کردیا۔ سندھ کی اکثریت بدھ مت کے ماننے والوںکی تھی۔ راجہ داہر ہندو تھا اور بدھ مت کے پیروکاروں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑا کرتا تھا۔ ان کے وفود حجاج بن یوسف کے پاس آتے اور سندھ پر حملہ کرنے کی دعوت دیتے۔اس کے باوجود حجاج بن یوسف نے کوئی توجہ نہ دی، لیکن ایک خاص واقعے نے حالات کا رخ موڑ دیا۔ ہوا یوں کہ لنکا کے راجہ نےوہاں مقیم عرب تاجروں کی چند لاوارث لڑکیاں اور بیش قیمت تحائف روانہ کئے۔ دبیل کے قریب بحری ڈاکوئوں نے انہیں لوٹ لیا ان ڈاکوئوں کا تعلق سندھ کے مشہور قوم’’مید‘‘ سے تھا۔ اس موقع پرایک مسلمان لڑکی نے دہائی دی۔ حجاج بن یوسف کو جب اطلاع ہوئی تو اس نے راجہ داہر سے سامان کی تلافی اور ان لڑکیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ داہر نے جواب دیا کہ بحری ڈاکو خود مختار ہیں۔ ان پر میرا کوئی اختیار نہیں۔

اس زمانے میں مسلمانوں کا خلیفہ ولید بن عبدالملک منصب خلافت پر متمکن تھا۔ حجاج بن یوسف نے خلیفہ سے اجازت حاصل کرکے فوری طور پرعبید اللہ بن نبہان کی زیر قیادت ایک فوج روانہ کی، عبید اللہ اس جنگ میں شہید ہوئے۔710ء میں عبید اللہ کی شہادت کے بعد بدیل بن طہفہ کی سرکردگی میں ایک مہم روانہ کی، مگر اسے ناکامی ہوئی اور بدیل شہید ہوئے۔ آخر حجاج بن یوسف نے اپنے داماد عمادالدین محمد بن قاسم کو جس کی عمر صرف17سال تھی۔ 6ہزار شامی اور 6ہزار عراقی سپاہیوں اور تین ہزار بار بردار اونٹوں کے ہمراہ دیبل کی طرف روانہ کیا۔ اس کےعلاوہ بحری بیڑے پر سامان رسد اور قلعہ شکن منجنیق روانہ کی۔

محمد بن قاسم712ء میں دیبل پہنچا اور دیکھتے ہی دیکھتے دیبل، نیرون، سہستان،سیم، برہمن آباد اروڑکو تسخیر کرتے ہوئے ملتان تک کا علاقہ فتح کرلیا۔ بعض مستشرقین اور ہندو مورخین نے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے کہ عربوں کی فتح سندھ تاریخ اسلام اور تاریخ ہند میں ایک سانحہ تھا۔ جس کے کوئی دور رس نتائج برآمد نہ ہوئے۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ مسلمان برصغیر کے اس حصے پر قابض ہوئے۔ جو بقیہ ملک سے سیاسی اور تمدنی لحاظ سے الگ تھا۔ جس بناء پر برصغیر اور اسلام ایک دوسرے سے کسی قسم کے اثرات قبول نہ کرسکے۔ مزید برآں خلفانے ہندوستان کے معاملات میں زیادہ دلچسپی نہ لی اور جب ان کا سیاسی غلبہ ختم ہوا۔ تو سوائے منتشر کھنڈرات کے مسلم تہذیب کا کوئی اثر ہندوستان میں باقی نہ رہا۔ حقیقت یہ ہے کہ ان مورخین نے جان بوجھ کر سورج کی روشنی کو جھٹلانے کی کوشش کی ہے۔ محمد بن قاسم جہاں گیر ہی نہیں ،جہاں دار بھی تھا۔ اس نو عمری میں اس قدر فتوحات اس کی شہرت دوام کے لئے کافی ہیں، اس نے4سال کی قلیل مدت میں نظام مملکت ایسی مضبوط بنیادوں پر استوار کیا اور رواداری کی وہ روایات قائم کیں کہ آئندہ مسلم فاتحین کے لیے مشعل راہ ثابت ہوں۔

ملت اسلامیہ میں اس وقت بنو اُمیہ کی حکومت تھی۔ عراق کا گورنر حجاج بن یوسف تھا، جو اپنی سخت گیری کی بنیاد پر شہرت رکھتا تھا، لیکن اصول جہاں بانی سے خوب واقف تھا۔ سندھ کے نظام حکومت میں حجاج کی ہدایات کام کررہی تھیں۔ چونکہ سندھ کا مفتوحہ علاقہ عراق کا ذیلی صوبہ تھا۔ اس لیے یہاں کے حاکم کو والی کہا جاتا تھا۔ جسے گورنر عراق کی سفارش پر خلیفہ خود مقرر کرتا تھا۔ مرکز سے بہت دور واقع ہونے کی وجہ سے اس کا والی کافی حد تک خود مختار ہوا کرتا تھا۔

محمد بن قاسم نے ہمیشہ مقامی آبادی کے جذبات کا خیال رکھا اور انہیں حکومت کے کاروبار میں شریک بنایا۔ بدھ حاکم ’’کاکا‘‘ جس کا لقب رانا تھا۔ اس نے اطاعت قبول کرلی تو محمد بن قاسم نے اس کی بڑی عزت کی۔ان کے رواج کے مطابق اسے خلوت سے نوازا۔ اس عمل نے اس کے تمام ساتھیوں میں وفاداری کا جذبہ پیدا کردیا۔ محمدبن قاسم ہر معاملے میں اس سے مشورہ کیا کرتا تھا۔ اس سلسلے میں برہمن آباد کا انتظام خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ برہمن آباد کے مرکزی شہر کو چار حلقوں میں تقسیم کردیا گیا۔ ہر حلقے پر ایک کوتوالی کا تقرر ہوا جو کہ غیر مسلم تھے۔ شہر کی مردم شماری کروائی گئی۔ اس وقت اس کی کل آبادی دس ہزار تھی۔ محمد بن قاسم نے کئی ہزار درہم شہریوں کو ادا کئے، تاکہ محاصرے کے دوران لوگوں کو جو نقصان پہنچا تھا اس کی تلافی ہوسکے۔ اگرچہ اس نقصان کی ذمہ داری مسلمانوں پر عائد نہیں ہوتی تھی۔ محمد بن قاسم نے اس فراخدلانہ اقدام سے نہ صرف انسان دوستی کا ثبوت دیا، بلکہ اس نے مقامی آبادی کے دل جیت لیے۔

سندھ میں متعدد جگہ فوجی چھائونیاں قائم کی گئیں۔ان چھائونیوں میں ہسپتال، عدالت، دفاتر ،اصطبل وغیرہ کا باقاعدہ انتظام تھا، سپاہیوں کو تنخواہ ملتی تھی۔ اس کے علاوہ مالِ غنیمت میں بھی ان کا حصہ تھا۔ فتح ملتان کے بعد محمد بن قاسم ایسا خوش ہوا کہ حکومت کا خُمس نکالے بغیر سب کچھ سپاہیوں میں تقسیم کردیا۔ مسلمانوں سے زکٰوۃ اور صدقہ وصول کیا جاتا تھا۔ غیر مسلموں سے جزیہ اس کے تین درجے تھے۔ امراء سے 48درہم، متوسط طبقے سے24درہم اور نیم متوسط طبقے سے12درہم فی کس سالانہ وصول کئے جاتے تھے۔ جو لوگ فوجی خدمات انجام دیتے تھے۔ وہ اس ٹیکس سے آزاد تھے۔ اسی طرح غربا، اپاہج ، عورتیں، بچے، برہمن اور جو لوگ اپنی مرضی سے اسلام قبول کرلیتے، وہ بھی اس سے مستثنیٰ تھے۔ زمین کا خراج بھی اہم ذریعہ آمدنی تھا۔ نہری زمین کی پیداوار کا 2/3 حصہ ، بارانی زمین کی پیداوار کا 1/4حصہ اور باغات کی پیداور کا 1/3 حصہ بطور خراج وصول کیا جاتا تھا۔

مسلمانوں کے مقدمات کا فیصلہ کرنے کے لیے قاضی مقرر کیے گئے جو اسلامی قانون کےمطابق فیصلہ کرتے۔ مقامی قسم کے معاملات میں غیر مسلم کافی حد تک خود مختار تھے۔ ان کے مقدمات کے فیصلے ان کی پنچائتیں کرتی تھیں۔سندھ میں مسلمانوں نے غیر معمولی رواداری سے کام لیا۔ ہندوئوں کو مکمل مذہبی آزادی حاصل تھی۔ نہ صرف یہ کہ ان کے قدیم مندروں کو کوئی نقصان پہنچایا گیا، بلکہ نئے مندرتعمیر کرنے کی اجازت دی گئی، جن میں وہ مکمل آزادی سے مذہبی رسومات ادا کرسکتے تھے۔ برہمنوں کی قدیم مراعات سے کسی قسم کا تعرض نہیں کیا گیا۔ جزیہ سے وہ مستثنیٰ تھے۔ جزیہ کی وصولی بھی برہمنوں کے ذمہ کردی گئی اور انہیں نرمی برتنے کی ہدایت کی گئی۔ فتح سندھ سے محصولات کا تین فی صد برہمنوں کو ملتان تھا۔ محمد بن قاسم نے اسے بھی برقرار رکھا۔برہمن اس سلوک سے اس قدر خوش ہوئے کہ انہوں نے ملک کے مختلف علاقوں کے دورے کئے اور لوگوں کو نئی حکومت کی وفاداری کی تلقین کی۔

محمد بن قاسم نے ایک اہم کام یہ بھی کیا کہ بڑے بڑے زمین داروں کو تبلیغ اسلام کے خطوط ارسال کئے۔ اسلام قبول نہ کرنے کی صورت میں اطاعت اور ادائیگی خراج کی طرف توجہ دلائی۔ ان میں سے بعض نے اسلام قبول کرلیا اور بعض نے خراج دینے پر رضا مندی ظاہر کی۔ہر شہر میں ایک جامع مسجد تعمیر کی جاتی اور اس کے ساتھ کچھ زمین وقف کردی جاتی ،یہ اوقاف ٹیکس سے مستثنیٰ تھے۔ مساجد ، علوم و فنون کے مراکز تھے۔ ان اوقاف سے نہ صرف مساجد کی مرمت وغیرہ کی جاتی تھی۔ بلکہ طلباء اور اساتذہ کے قیام و طعام کا بھی انتظام کیا جاتا تھا۔ دینیات کی تعلیم دی جاتی تھی، مگر اس کے ساتھ ساتھ فلسفہ،منطق اور صرف ونحو وغیرہ بھی پڑھائے جاتے تھے۔ کوفہ اور بصرہ سے علماء سندھ آتے اور علم کی روشنی پھیلاتے تھے۔ طلباء کی اخلاقی تعلیم کو خاص طور پر مد نظر رکھا جاتا تھا۔

فتح سندھ وسیع پیمانے پر علمی ترقی کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔ عربوں نے ہندی علوم کو نہ صرف مٹنے سے بچالیا بلکہ ان کی اشاعت کی اور دنیا کو ان سے روشناس کرایا۔ ہندوستان کی پہلی کتاب جس کا عربی میں ترجمہ ہوا۔ وہ سدھانت تھی۔ سندھ کے ایک وفد کے ساتھ ہیئت اور ریاضیات کا ایک فاضل پنڈت یہ کتاب لے کر بغداد پہنچا اور خلیفہ کے حکم سے ایک عرب ریاض داں نے اس کا عربی میں ترجمہ کیا یہ کتاب علم ہیئت کی تھی اور عربی میں السندوالہند کے نام سے مشہور ہوئی۔ اس کتاب نے عربوں کے علم ہیئت پر گہرا اثر ڈالا۔

ہند سے لکھنے کا طریقہ سب سے پہلے ہندوئوں نے ایجاد کیا تھا۔ عربوں کا بیان ہے کہ انہوں نے حسابی رقم (ہندسے) لکھنے کا طریقہ ہندوئوں سے سیکھا ،اس لیے وہ ہندسوں کو حساس ہندی یا ارقام ہندی کہتے تھے۔ مشہور عرب ریاضی داں خوارزمی نے ہندی حساب کو عربی قالب میں ڈھالا۔ اقوام یورپ نے یہ ہند سے عربی سے سیکھے، اس لیے وہ انہیں اعداد عربیہ کہتے تھے۔ یہ فتح سندھ کے اثرات ہیں کہ آج تمام عالم میں ریاضی کی بنیاد یہی ہندسے ہیں۔

علم ہیئت اور حساب کے علاوہ عربوں نے ہندوستانی طب کو بھی فروغ دیا اور اس سے استفادہ کیا۔ ہندوستان کے وید عرب میں بڑے مقبول تھے۔ ایک دفعہ خلیفہ ہارون رشید سخت بیمار پڑااور تمام عرب طبیب اس کے علاج سے قاصر رہے تو ایک شخص نے مشورہ دیا کہ ہندوستان سے منکہ نامی وید کو بلایا جائے۔ خلیفہ نے اسے بلوایا، اوراس کے علاج سے خلیفہ صحت مند ہوا۔ اس نے خوش ہوکر انعام و اکرام سے نوازا اور اسے دارالترجمہ میں سنسکرت کی کتابیں ترجمہ کرنے پر مامور کیا۔

حکمت و دانش کی بھی کئی کتابیں سنسکرت سے عربی میں ترجمہ ہوئیں، ان میں کلیلہ ودمنہ اہم ترین کتابوں میں سے ہیں۔ اس کے علاوہ کئی کتابیں ہندوستان سے عرب پہنچیں، بعض قصے کہانیوں کی تھیں۔ بعض ہندوستان کے جادومنتر ، کیمیا اور علم جوتش کے متعلق تھیں۔ مہا بھارت کا خلاصہ بھی عربی میں مرتب ہوا۔

ہندوئوں میں تاریخ نویسی کا مادہ ہی نہیں تھا۔ مسلمانوں نے تاریخ نویسی پر خصوصی توجہ دی۔ انہوں نے پاک و ہند کے متعلق بھی مختلف معلومات بہم پہنچائیں۔ عرب سیاحوں نے تاریخی اور جغرافیائی حالات کے ساتھ ساتھ یہاں کی تہذیب و تمدن پر بھی روشنی ڈالی ۔ اس سلسلے میں البیرونی کی کتاب کتاب الہند بہت مشہور ہے۔

عربوں نے ہندوئوں کو مکمل مذہبی آزادی دی، اس کے باوجود سندھ کی آبادی کا اچھا خاصا حصہ مسلمان ہوگیا۔ اسلام صرف سندھ تک محدود نہیں رہا، بلکہ گجرات کارومنڈل، مالابار، مالدیپ، لنکا میں بھی اپنے قدم جمانے شروع کردیئے۔مسلمانوں کی آمد سے قبل یہ خطہ برصغیر کے دیگر ممالک سے الگ تھلگ تھا۔ فتح سندھ سے اس ملک کی یہ علیحدگی ختم ہوگئی۔ سندھ عظیم اسلامی سلطنت کا حصہ بنا اور اس طرح بلاد اسلامیہ کے ساتھ اس کے تعلقات قائم ہوگئے۔

ان واضح اور روشن اثرات کے پیش نظر یہ کہنا کسی بھی لحاظ سے درست نہیں کہ فتح سندھ تاریخ اسلام اور تاریخ ہند میں محض ایک سانحہ ہے۔ اس فتح نے ہر دو اقوام کے تمدن پر گہرے نقوش چھوڑے، ہندی علوم مسلمانوں کے ذریعے یورپ تک پہنچے اور اس طرح گویا یورپ کی تمدنی دنیا فتح سندھ سے متاثر ہوئی۔