’’اردو بازار‘‘ اوپر رہائشی فلیٹ، نیچے کاروبارِ زندگی

May 16, 2019

حیات رضوی امروہوی

ریگل چوک سے فرئیر روڈ پر چوراہا برنس روڈ تک جائیں، راستے میں بائیں جانب خوشبو بھری کباب کی دکانیں بھی آئیں گی، جو کراچی کی مشہور و معروف فوڈ اسٹریٹ ہے، پھر یہاں سے داہنی جانب بند روڈکی طرف مڑ جائیں تو عید گاہ میدان کا علاقہ آ جائے گا۔ یہاں سے واپس بندر روڈ پھر تبت مارکیٹ سے ہوتے ہوئے داہنی طرف مڑ کر ریگل چوک پر واپس آ جائیں تو یہی اصلی ”اردو بازار“ کا حدود اربعہ ہے کیونکہ اسی نام سے بہت سے علاقوں میں اردو بازار بنا لیے گئے ہیں، مگر حقیقی اردو بازار وہی ہے جس کا حدود اربعہ پہلے بتایا، یعنی فرئیر روڈ اور بندر روڈ کا وہ درمیانی علاقہ جو ریڈیو پاکستان کی پشت پر واقع ہے۔ اگر آپ اس میں بندر روڈ کے دوسری طرف کا وہ علاقہ بھی شامل کر لیں، جوعید گاہ میدان کی طرف ہے تو یہ اردو بازار کا توسیعی علاقہ کہلائے گا، کیونکہ یہاں بھی کئی جگہوں پر وہی کاروبار ہو رہا ہے جو اردو بازار کا خاصہ ہے یعنی کتابوں کا کاروبار، خواہ وہ طباعت ہو، اشاعت ہو، فلم میکنگ، بائنڈنگ ہو، کاغذ کی کٹنگ ہو، لیمی نیشن ہو یا کتابوں کی خرید و فروخت، یہ سب کام اردو بازار میں ایک جگہ پر ہو رہے ہیںاگر دیکھیں تو آپ حیرت زدہ ہو جائیں۔ چھوٹی چھوٹی، پتلی پتلی، ادھڑی ہوئی سڑکیں، اوپر رہائشی فلیٹ، نیچے کاروبارِ زندگی، جن میں بڑے بڑے پریس قائم ہیں اور مشینوں پر دھڑا دھڑ کام ہو رہا ہے۔ دکانوں کے درمیان نہ تو چلنے کی جگہ ہے نہ سامان ایک دوسری جگہ سے منتقل کرنے کی سہولت، مگر کام ہے کہ ہوتا جا رہا ہے۔ کام روکنے کی چھوڑیں، سر کجھانے کی بھی مہلت نہیں، کام رکنے کی بس یک ہی صورت ہے کہ بجلی چلی جائے، اب سب کام ٹھیک ہے، کارندے اپنا اپنا پسینہ پونچھ رہے ہیں، چائے کے آرڈر دیے جا رہے ہیں، کاغذ کی گنتی ہو رہی ہے۔ ایک دکان بلکہ ایک کارخانے سے دوسرے کارخانے میں سامان منتقل کیا جارہا ہے۔ ہاتھ گاڑیوں، چار پہیوں والے ٹھیلے اور سوزوکیوں سے سامان اتارا جا رہا ہے۔ دکان کے اندر جوٹانڈ (میزانین یا لوفٹ کی جگہ)بنا ہوا ہے، اس پر سامان رکھا جا رہا ہے، کچھ کارخانے اس وقت بھی چل رہے ہیں کیونکہ انہیں جنریٹر کی سہولت حاصل ہے، مگر جنریٹر سے جو حدت ا ور شور پیدا ہو رہا ہے اس سے ماحول سوبان روح ہو رہا ہے اور کان پڑی آواز نہیں آرہی۔

کرخنداری زبان اگر سننی ہو تو آپ اردو بازار چلے جائیں، مشینوں کے شور کی بناپر ہر کارندہ دکاندار اونچی آواز میں گفتگو کر نے کاعادی ہے آواز بڑی مشکل سے سمجھ آتی ہے، اگر سمجھ میں آ جائے تو جواب بھی اس سے زیادہ تیز آواز میں موصول ہو گا۔ یہاں ہر جگہ کا آدمی موجود ہے، کراچی بڑا غریب پرور شہر ہے کاروبار دیتا ہے۔ رہنے کے لیے جھگی اور سستا کھانا ہر جگہ مل جاتا ہے۔ بہت سے لوگوں میں کتابیں خریدنے کی سکت نہیں لیکن پھر بھی اس بازار کا چکر لگاتے رہتے ہیں۔ یہی معلوم ہو جائے کہ کس مصنف کی کون سی نئی قیمت آئی۔ کس کتاب کا نیا آڈیشن آیا۔ اس مہینے کون کون سے نئے رسالے آ گئے، کون سی کتاب کتنی موٹی ہے، کتنے صفحات پر مشتمل ہے اور نئی قیمت کیا رکھی گئی ہے، ڈسکاونٹ پر کتنے میں مل سکتی ہے وغیرہ وغیرہ، مگر دکاندار بھی اب صورت سے پہچان لیتے ہیں کہ کون خریدار ہے اور کون صرف کتابیں سونگھنے کے لیے آیا ہے۔

حسن علی آفندی روڈ کاغذی بازار اور پاکستان چوک سے اس اردو بازار کا بڑا گہرا رشتہ ہے۔ کاغذی بازار سے کم و بیش ہزاروں ریم کاغذ اردو بازار پہنچتا ہے، جو ہاتھ گاڑیاں، ریڑھے، اور سوزوکیاں یہاں تک ڈھوتی ہیں، عام پاکستانی، امپورٹڈ، ہلکا بھاری، جس کا وزن گراموں میں متعین کیا جاتا ہے۔ آرٹ پیپر، ای ٹیشن آرٹ پیپر، ہلکا بھاری گتہ، فائل کارڈ کی ضرورت پرنٹنگ کے لیے چاہیے ہوتی ہے، جو ضرورت کے مطابق کاٹ کر چھاپا جاتا ہے۔ سب سے پہلے تو کمپوزنگ اور ڈیزائننگ کا مرحلہ ہے، جس میں دکانوں کی اوپر والی منزلیں اسی قسم کے دفاتر کے لیے استعمال کی جاتی ہیں اور اس اوپر کی منزلیں رہائشی فلیٹوں کے لیے وقف ہیں، جہاں سے مسلسل کوڑے کچرے کی تھیلیاں چٹاخ پٹاخ سڑک کنارے، بلکہ گلیوں کے بیچوں بیچ گرتی رہتی ہیں۔ اگر یہاں تیز بارش ہو جائے تو بازار کی گلیاں نہروں کا منظر پیش کرتی ہیں۔ گٹر لائنیں بالکل ناکارہ ہو جاتی ہیں۔ بارش کے پانی سے مل کر ان گٹر لائنوں سے بدبودار کیچڑ کے بھبکے اٹھتے ہیں۔ دکانوںکو بارش کے پانی سے بچانے کے لیے تمام اندرونی راستوں کے آگے کم از کم ڈیڑھ فٹ اونچی دیواریں بنا دی گئی ہیں اور دکانوں کو بھی اونچا کر لیا گیا ہے ۔

کمپوزنگ اور ڈیزائننگ کے لیے فرسٹ فلور اس قسم کے دفاتر سے بھرے پڑے ہیں، کمپیوٹر لگے ہوئے ہیں اور گاہکوں کی قطاریں ایک ایک آرٹسٹ کی کابک میں اپنی اپنی باری کا انتظار کر رہی ہے، ہر گاہک کے ہاتھ میں ڈبے یا ہینڈ بل یا لیٹر پیڈ کا نمونہ موجود ہے،جس کا چربہ وہ بنوانا چاہتا ہے۔ بیشتر یہ ڈیزائن غیر ملکی مصنوعات سے متعلق ہوتے ہیں جن کی دونمبری یا تین نمبری نقل یہاں کراچی میں تیار کر لی جاتی ہے اور دھڑلے سے یہ اصلی جاپانی یا اٹالین کہہ کر فروخت کی جاتی ہیں، ان کا زیادہ تر تعلق ادویات یا موٹر پارٹس سے ہوتا ہے۔ اس طرح آرٹ ورک بھی اب بیشتر کمپیوٹر کے نیٹ سے اٹھا لیا جاتا ہے۔ کسی زمانے میں بہادر شاہ مارکیٹ، اورنگ زیب مارکیٹ، اقبال مارکیٹ یا میونسپل کارپوریشن کے سامنے یا لائٹ سینما کے قریب نالے پر کارپوریشن کی دکانوں میں کاتبوں کی رونق ہوتی تھی۔ اب یہ سب رونقیں کمپوزلوگوں کے ہاں دیکھنے میں ملتی ہیں، جب تک کمپیوٹر نہیں تھا، اردو بازار میں کمرشل آرٹسٹوں کا راج تھا، تمام ذیزائن ہاتھ سے تیار کیے جاتے تھے۔ بلاک بنتے تھے پھر پرنٹنگ ہوتی تھی۔ اردو کی کتابیں پیلے کاغذ کے مسطر پر کاتبوں کے ہاتھ کی ہوتی تھیں، جن سے براہ راست پلیٹیں بنا لی جاتیںا وروہی مشین پر چھاپے کی غرض سے چڑھا دی جاتی تھیں۔ اب ان کاتب حضرات نے زیادہ تر پیسٹنگ کا کاروبار کر رکھا ہے یعنی کمپیوٹر کے ذریعے ہونے والی کتابت کی یا تو فلمیں بن جاتی ہیں یا پھر ان پیسٹنگ کرنے والوں کے ذریعے باریک بٹر پیپر پر فوٹو اسٹیٹ کر کے بٹر پیپر کے مسطر پر پیسٹ کیا جاتا ہے اور ان سے پلیٹ سازی کا کام لیا جاتا ہے، یہ سب امور اسی اردو بازار میں انجام پذیر ہوتے ہیں جنہوں نے اپنے اپنے دفاتر کھولے ہوئے ہیں پاکستان چوک سے اردو بازار کا یہ رشتہ ہے کہ تمام شادی کارڈ کی زیادہ تر دکانیں یا دفاتر پاکستان چوک پر ہی ہیں۔ ایک سے بڑھ کر ایک ڈیزائن سستے اور مہنگے ڈیزائن یہیں سے اردو بازار چھپنے کے لیے جاتا ہے۔ اسی سائز کے لفافے بھی یہاں متنوع قیمت پر مل جاتے ہیں، جن کے ڈیزائن دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ غرض پاکستان چوک اور اردو بازار میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔

اردو بازار کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہاں ملک کے نامور ادیبوں، شاعروں اور دانش وروں سے ملاقات ہو جاتی ہے وہ اپنی تصانیف کے لیے یہاں پبلشرز کے دفاتر میں آتے ہیں، یہ آمد و رفت سال کے بارہ مہینے رہتی ہے، کسی بھی وقت کوئی مشہور و معروف دانشوشاعر، افسانہ نگار یا محقق آپ کی دسترس میں آسکتا ہے۔ یہ پبلشرز بعض اوقات کسی بہت ہی چھوٹے سے آدمی کو بڑا شاعر یا مصنف بنادینے میں کمال رکھتے ہیں اگر آپ کی جیب میں پچاس ساٹھ ہزار روپے ہیں اور کچھ غزلیں کہی ہیں یا لکھوا رکھی ہیں تو باقی غزلوں، دیباچوں اور بہت سے ادیبوں کی آراءکا انتظام یہ پبلشرز کر لیتے ہیں اور آپ دیکھتے ہیں۔ یہ اردو بازار کا فیضان طلسمات ہے جس زمانے میں ریڈیو پاکستان کے پروگرام بندر روڈ والی عمارت میں ہوتے تھے تو اردو بازار میں بہت سے فنکاروں سے ملاقات بھی متوقع ہوا کرتی تھی کیونکہ ادیب حضرات تو ہوتے ہی اردو بازار میں تھے ان سے ملنے ملانے کے لیے ریڈیو کے فنکار بھی کسی کاتب یا اشاعت گھر کے دفتر میں ملاقات طے کر لیتے تھے، بلکہ بعض جگہوں پر تو یہ ملاقاتیں روزانہ شام کے وقت متعین ہوتی تھیں۔ مشہور و معروف خوش نویس جناب یوسف دہلوی جن کے خط میں آج بھی پاکستان کے کرنسی نوٹوں پر ”حکومت پاکستان“ لکھا ہوا ہے، اسی بازار کی عمارت بہادر شاہ مارکیٹ کے فلیٹ میں رہتے تھے۔ مشہور آرٹسٹ سمیع صاحب نے اردو و انگلش کی نہ جانے کتنی کتابوں کو تصاویر سے مزین کیاوہ بھی برنس روڈ پر رہتے تھے جو اردو بازار کا سب سے پر رونق حصہ ہے۔ کمرشل آرٹسٹوں کے ساتھ ان دنوں بلاک سازی کا طریقہ طباعت کا لازمی حصہ تھا، چنانچہ اس شعبے سے متعلق نہ جانے کتنے ادارے کمپیوٹر کے لقمہ اجل ہو گئے۔

اسی طرح اردو بازار میں بہت سے روزناموں، ہفت روزوں، ماہناموں کے دفاتر تھے، جواب نہیں رہے۔ یہاں درسی کتابیں، نئی اور پرانی ہر طرح کی کاپیاں، رجسٹر نیز ہر قسم کی اسٹیشنری کا سامان دستیاب ہے۔