زاہد احمد ... ہر کردار میں باکمال!

May 19, 2019

زاہد احمد نے ٹی وی پر اپنی پہلی ہی جھلک سے ایسا گہرا تاثر چھوڑا ہے کہ ہر بڑے پراجیکٹ میں وہ لیڈنگ رول میںدکھائی دیتے ہیں۔ جیو ٹی وی کے ڈراموں’ میرا کیا قصور تھا‘ اور ’ مور محل ‘ سے اپنی شناخت گہری کرنے والے زاہد فی الوقت ایک فلم میںمصروف ہیں، جو عنقریب سلو ر اسکرین پر ان کی صلاحیتوں کو مزید سامنے لانے والی ہے۔

20ستمبر1984ء کو راولپنڈی میںپیدا ہونے والے سابق ریڈیو جوکی، کریئیٹو منیجر کے طور پر بھی کام کرچکے ہیں۔ اچھی خاصی کامیاب زندگی گزارنے کے باوجود اداکار ی کا سودا دماغ میں سمایا اور اس دشت کی سیاحی میں عمر گزارنے لگے۔ نجی یونیورسٹی سے مارکیٹنگ میںگریجویشن کرنے والے زاہد احمد2003ء سے 2011ءتک ایک آئی ٹی کمپنی میں کارپوریٹ ٹرینر کے طور پر ذمہ داریاں نبھا چکے ہیں۔ پھر ان کی ملاقات انور مقصود سے ہوئی اور انہوں نے ان کے تھیٹر ’سوا چودہ اگست‘ میں قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کا کردار ادا کرنے کی ہامی بھرلی۔ اس سے قبل زاہد It Runs in th Famliyتھیٹر ڈرامے میںبھی اہم کردار ادا کرچکے تھے۔

ریڈیو جوکی میںکیریئر کی بات کریں تو زاہد نے 2002ء میںدی بریک فاسٹ شواور رَش آور شوز کے ذریعے اپنی آواز کا جادو جگایا۔ وہاں حاصل کیے گئے تجربے سے انہوں نے پیشہ ورانہ وائس اوور آرٹسٹ کے طور پر بھی پہچان بنائی اور معروف برانڈز کے کمرشلز میںوائس اوور کی۔ سوا چودہ اگست کے علاوہ انھوںنے بومبے ڈریمز، فینٹم آف دی اوپرااور رن فار یور وائف جیسے مقبول تھیٹر میں زبردست فنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔ اس کے بعد ا ن کے مقبول ڈراموں کی ایک طویل فہرست ہے، جن میں بعض منفی اور سپورٹنگ کردار بھی تھے۔ انھوں نے بہترین اداکاری پر کئی ایوارڈ ز بھی جیتے ۔

اس پیشے کے بار ے میںزاہد احمد کاکہنا ہے، ’’اداکاری میرے خون میں ہمیشہ سے رہی ہے، اس لئے اپنے کیریئر کے آغاز میں اس جنون سے تھیٹر کے ذریعے نمٹتا رہا اورپھر آخر کار ٹی وی اسکرین پر آہی گیا‘‘۔

راتوں رات مشہور ہونے کو زاہد احمد اپنی خوش نصیبی سمجھتے ہیںاو راپنی تمام کامیابوں پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں۔ان کی ماںکی دعائیں اورآڈیئنس کا پیار ان کامیابیوںکی ایک وجہ ہے۔ جیو ٹی وی کا ڈرامہ مور محل زاہد احمد کے کیریئر کا ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا تھا ، جس کے بارے میں زاہد لب کشائی کرتے ہیں، ’’ اس سے میرے احساسات اور حوصلے مزید گہرے ہوئے۔ یہ ایک منفرد ڈرامہ تھا ، جس میںکام کرنا ایک رسک بھی تھا۔ اس کی کامیابی کیلئے میں اپنی ذات سے بڑھ کر فکر مند تھا‘‘۔

بے پنا ہ مصروفیت کی وجہ سےزاہد احمد ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی کو متوازن رکھنے میںکامیاب نہیںرہ پاتے، تاہم وہ سوشل میڈیا پر خرچ کیا جانے والا وقت اپنی فیملی کو دے کر مداوا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

زاہد احمد اپنے بارے میں مزید بتاتے ہیں، ’’ خدا پر میر ا یقین مجھے رواں دواںرکھے ہوئے ہے۔ یہی اعتقاد تو ہماری گھٹی میں ہے اور ہم سب کوہی ہونا چاہئے، اس کی سچائی ہمیں جابجا نظر آتی ہے۔ اگر میںنومولودگی کے وہ دن گزار سکتا ہوںجن میں، میں سب سے کمزور تھا اورمیرا بچنا مشکل نظر آتا تھا۔ میںنے معمولی تعلیم سے ایک ملٹی نیشنل کمپنی میںملازمت کی۔ اپنی ٹوٹی ہوئی کمر کےساتھ میںبہترین روّیے کےساتھ ریڈیو شو کرتا رہا تو میر ا یقینِ کامل تھا کہ خدا آئندہ بھی مجھے نوازے گااو رمجھے مضبوط تر کرے گا‘‘۔

اپنی ازدواجی زندگی کی بابت زاہد کاکہنا ہے، ’’آپ کسی سے اس وقت تک محبت نہیں کرسکتے جب تک آپ اس کی عزت نہ کرتے ہوں۔ مجھے اور میری شریک حیات کو یہ ثابت کرنے کیلئے کافی مواقع ملے۔ خوشی میںتو ہر کوئی ساتھ دیتا ہے، قدم سے قدم ملا کر چلتاہے ، پتہ اس وقت چلتاہے جب برا وقت چل رہا ہو۔ جب میری بیوی نے مشکل حالات میںمیرا ساتھ نہ چھوڑا، مجھ پر اپنا یقین برقرار رکھا، مجھے برداشت کیا، تو مجھے یہ کہنے میںعار نہیں کہ مجھے ایسے پر مل گئے جو مجھے ہواؤں میں اونچا اُڑائیں گے، مجھے کبھی نیچے نہیںگرنے دیںگے‘‘۔

ناکامی بھی زندگی کا حصہ ہے ،جسے زاہد ایک سبق سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ زندگی میںمجھے ناکامیاں ملیں ، لیکن ایک چیز میں، میںناکام نہیں ہوا اور وہ ہے کوشش کرنا، کوئی بھی شخص جو ناکامی سے خوفزدہ ہوتا ہے، میںاسے کہتا ہوں کہ اگر کوئی کام قابل قدر ہے تو کوشش کرو۔ کوشش کرنامت چھوڑو کیونکہ اگر آپ اپنے خواب کے حصول میںناکامی کے خوف سے ہتھیار پھینک دیںگے تو آپ واقعی پھر کچھ نہیںکرسکیں گے۔