بھتہ کلچر کا نیا انداز

May 19, 2019

سلیم اللہ شیخ ، بلڑی شاہ کریم

چند سال قبل ملک بھر میں امن و امان کی مخدوش صورت حال اور چند دل خراش واقعات نے مملکت کی بنیادی ہلادیں۔ ان حالات سے بنرد آزما ہونے اوربدامنی کے خاتمے کے لیے لائحہ عمل طے کرنے کی خاطر عسکری قیادت ، سول حکومت اورتمام سیاسی جماعتیں سرجوڑکربیٹھ گئیں اور ایک ایسی قانون سازی پر زور دیا گیا کہ جس کے تحت ملک بھرمیں دہشت گردوں اوران کے سہولت کاروں کے خلاف دندان شکن کاروائیاں عمل میں لائی جاسکیں۔مملکت کے تمام اسٹیک ہولڈرز کی باہمی مشاورت کے بعدنیشنل ایکشن پلان کے نام سے ایک اہم آپریشن کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔پورے ملک میں پولیس رینجرز اور فوج کی مشترکہ کارروائیوں کے بہتر نتائج برآمد ہوئےاور پھرنیشنل ایکشن پلان کے تحت ملک بھرمیں دہشت گردوں اور سماج دشمن عناصر کی کمرتوڑ کررکھ دی۔ اس آپریشن کے نتیجے میں وطن عزیز میں امن و امان کی فضا بحال ہوئی ۔ لیکن یہ بات افسوس کے ساتھ تحریر کرنا پڑ رہی ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کے کئی اہم حصوں پراب تک عمل درآمد نہیں ہوسکا جیسا کہ ملک بھر سے’’ بھتہ کلچر‘‘ جیسے جرائم کا خاتمہ بھی نیشنل ایکشن پلان کا حصہ تھا لیکن اس اہم معاملے پر نہ جانے کیوں حکام بالا نے چشم پوشی اختیار کررکھی ہے۔

آج سندھ کے متعدد اضلاع میں بھتہ خوری کی وارداتیں عام ہیں۔ مختلف شہروں میں جگہ جگہ گاڑیوں کی پارکنگ کے نام پر بھتہ وصول کیا جارہا ہےجس کا دل چاہتا ہے وہ کسی بھی اہم اورمصروف سڑک کو بھتہ خوری کے لیئے مختص کرلیتا ہے اورپھرپولیس کی ملی بھگت سے وہاں پارکنگ قائم کردی جاتی ہے جہاں سے لاکھوں روپے غیر قانونی طور سے پارکنگ فیس کی مد میں وصو ل کیے جاتے ہیں اس مکروہ کاروبار میں جرائم پیشہ عناصر کو شامل کیاجاتا ہے تاکہ بہ زور طاقت سو فیصد بھتے کی وصولی کویقینی بنایا جاسکے ۔ریلوے اسٹیشن ، شاپنگ پلازہ ، مارکیٹیں ، ہفتہ بازاراور بسوں کے اڈوں پر بھتہ مافیا نےہرجگہ خودساختہ پارکنگ قائم کردی ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا کہ کیاہمارے ملک میں پارکنگ کا کوئی قانون موجودہے ؟آخر کیوں بھتے کے عوض مصروف مقامات پرپارکنگ کو جائز قرار دے دیا جاتا ہے ۔ ہرسڑک ،محلے ،گلی اور مصروف شاہ راہوں پربڑی تعداد میں گاڑیاں کھڑی دکھائی دیتی ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ایک ہی سڑک پر نوپارکنگ اور چارجڈ پارکنگ دونوں کے بورڈز لگے ہوتے ہیں۔ اگر مذکورہ علاقہ نوپارکنگ زون ہے تو وہاں چارجڈ پارکنگ کیسے قائم کردی جاتی ہے؟۔

دوسری جانب ایکسائزپولیس کے اہل کار گاڑیوں کے ٹیکس کے کاغذات چیک کرنے کے دوان مختلف قسم کے قانونی سقم نکال کر گاڑی مالکان سے مبینہ طورپربھاری بھتہ وصول کرتے ہیں۔ ٹریفک پولیس کے اہلکار بھی جگہ جگہ گاڑیوں کی رجسٹریشن اور لائسنس کے نام پر مبینہ طور پربھاری رقم بطوربھتہ وصول کرتے ہیںاکثر مقامات پر ٹریفک پولیس اہلکاروں نے یومیہ اجرت کی بناء پر سول لوگوں کو بھی مبینہ طور پر بھتے کی وصولی کے کام پر لگا رکھاہے اس طرح لوگوں کی جیبوں سے بٹوری جانے والی بھاری رقوم جرائم پیشہ عناصر کی جیبوں میں چلی جاتی ہے جس سے جرائم کو تقویت ملتی ہے ۔

نیشنل ایکشن پلان کے تحت کارروائیوں نے ملک کی مخدوش صورت حال کو بہتر بنانے میں ناقابل فراموش کردار ادا کیا اور سکیورٹی اہل کاروں کی بیش بہا قربانیوں کےملکی حالات میں مجموعی طور سے بہتری آئی ہے۔ لیکن مقتدر شخصیات کی جانب سے نیشنل ایکشن پلان کے دوسرے اہم حصے کو قطعی طور سے نظرانداز کردیا گیا جس کے تحت کرپشن اور بھتہ کلچر کے خلاف کارروائی بھی ہونا تھی۔ سول سوسائٹی اس صورت حال سے سخت دل گرفتہ ہے ۔ سول سوسائٹی کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ کرپٹ مافیا اور بھتہ کلچر کے خلاف بھی بے رحمانہ آپریشن وقت کی اہم ضرورت ہے۔ پولیس اور سکیورٹی ادارے ناجائز پارکنگ ، ایکسائز و ٹریفک پولیس میں سے’’ اسٹارٹرز’’کا کردار ختم کرنے کے لیے اقدامات کریں۔