اسکول میں بچوں کے روّیوں کو منظم کرنا

May 19, 2019

وہ زمانے گئے جب اساتذہ بچوں کو مارا پیٹا کرتے تھے۔ اب والدین کا مطمح نظر یہ ہے کہ ان کے بچوں کو خراش تک نہیں آنی چاہئے اور بچے کو سزا دینا تو کجا، ڈانٹنے کا اختیا ربھی استاد کو حاصل نہیں ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ اگر بچہ جارحانہ اور پرتشدد مزاج کا حامل ہے تو اسے عدم تشدد کی راہ پر کیسے ڈالا جائے اور اس کے رویّے کو کیسے بہتر کیا جائے، جس سے نہ تو اس کی شخصیت متا ثر ہو اور نہ ہی اس کے ہم جماعتوں کو کسی قسم کا نقصان پہنچے۔

روایت کی عینک سے دیکھا جائے تو بچوں کی بہتری کو استاد کی مار سے تعبیر کیا جاتا ہے، لیکن اہل مغرب نے اس تصور کو یکسر بدل کرکے رکھ دیا ہے۔ ان کے نقطۂ نظر کے مطابق بچے کی ذہنی اور جسمانی نشوونما کیلئے ڈرانے یا دھمکانے کے بجائے بچوں کو خود کچھ کرنے دیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے مغربی ممالک میں اسکولوں میں یا گھر میں بچوں کی پٹائی کو جرم قرار دیا گیاہے اور اس کی خلاف ورزی کی صورت میں متعلقہ شخص کو سزا ہوسکتی ہے۔

ہمارے ملک میں سرکاری اور غیر سرکاری اسکولوں کے علاوہ مدراس میں بھی اساتذہ کے ہاتھوں بچوں کی پٹائی کی خبریں آتی رہتی ہیں، جسے روایتی میڈیا کے ساتھ سوشل میڈیا پر بھی خوب آڑے ہاتھوں لیا جاتاہے ۔ اس ضمن میں ماہرین نفسیات کہتے ہیں کہ بچوں پر کیے گئے تشدد کا اثر فوری طور پر نظر نہ بھی آئے مگر بعد میں جاکر اس کے اثرات نظر آنا شروع ہوجاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اسکولوں میں اور خاص طورپر کلاس روم میں بی ہیویئر مینجمنٹ یعنی بچوں کے روّیوں کو کیسے منظم کیا جائے ؟

اساتذہ کا کردار

بچوں کے روّیوں کو منظم کرنا اساتذہ کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ انہیں کمرہ جماعت کو اپنی فہم و دانشمندی کے ساتھ کچھ اس طرح کنٹرول کرنا ہوتا ہے کہ بچوں کی عزّتِ نفس متاثر نہ ہو۔ ایک بات کہی جاتی ہے کہ اچھے استاد کے ہاتھ میں عام کتاب بھی خاص بن جاتی ہے اور اچھے استاد کے بغیرخاص کتاب بھی عام بن جاتی ہے۔ یہی حال بچوں کابھی ہے، ایک اچھا استاد ہر بچے کے ساتھ اس کے مزاج کے مطابق سلوک رکھے تو نتائج بہتر آتے ہیں۔

عزت نفس کے ساتھ ساتھ نظم و ضبط اور حوصلہ افزائی استاد کو بگڑی ہوئی کلاس پر قابو پانے کے قابل بناتی ہے۔ ا س سلسلے میں تعلیمی سال کے آغا زپر ہی اساتذہ کو ایسی تدابیر اپنا لینی چاہئیں، جس سے کمرہ جماعت کے ماحول پر خوشگوار اثر پڑے اور جسمانی سزا کے مواقع کم سے کم پیدا ہوں۔ بعض اساتذہ شرارتی بچوں کیلئے الگ حکمت عملی اپناتے ہیں جبکہ کچھ شرارتی بچوں سے ہی قوانین بنوالیتے ہیں لیکن معاملہ فہم اور زیرک اساتذہ کمرہ جماعت کے ماحول کو باہمی میل جو ل اور عزت واحترام کے اصول پر لے آتے ہیں ، جس سے اساتذہ اور طلبا کے درمیان ایک ضابطہ اخلاق طے ہو جاتاہے۔ اس طرح مشاورت، تبادلہ خیال اور ٹیم ورک کے ذریعے مسائل پر قابو پانے کی راہ ہموار ہوجاتی ہے۔

حوصلہ افزائی و ترغیب

حوصلہ افزائی اور ترغیب کی تکنیک اپنا لی جائے تو بچوں کے روّیوں کو کنٹرول کرنے کیلئے کوئی خاص سعی نہیں کرنی پڑتی اور جارحانہ مزاج بچے بھی اچھا روّیہ اپنانے کی جانب مائل ہونے لگتے ہیں۔ عزت نفس کے ساتھ ساتھ نظم وضبط کی پابندی بھی بی ہیوئر مینجمنٹ میں اہم کردار اداکرتی ہے۔ اگر طالب علم اپنا دیا گیا اسائنمنٹ وقت پر مکمل نہیں کرپاتا تو اسے پوری کلاس کے سامنے ڈانٹنے ڈپٹنے یا درشت روّیہ اپنانے کے بجائے اس سے اسائنمنٹ نہ کرنے کی وجہ پوچھی جائے اور اس وجہ کو دور کرنے میں اگر استاد اپنا کردار ادا کرسکتاہے تو اسے ضرور کرنا چاہیے۔ اسائنمنٹ نہ کرنے کی وجہ اگر طالب علم کے گھریلو مسائل ہیں تو اس کے والدین کےساتھ مل کر کوئی صورت نکالی جائے تا کہ طالب علم آئندہ وقت پر اپنا اسائنمنٹ جمع کروائے۔ اسی طرح کلاس کے کم فہم بچوں کے اسائنمنٹس پر خود استاد کو خصوصی توجہ دینی چاہئے اور انہیں ترغیب دینی چاہئے کہ وہ یہ کام اپنے بل بوتے پر کرسکتے ہیں اور بروقت اسائنمنٹ مکمل کرنے پر انہیں انعام بھی دیا جائے گا۔ کسی شرارتی یا جارحانہ مزاج بچے کے رویے کو کنٹرول کرنے میں حوصلہ افزائی اور ترغیب کی تکنیک کافی کارگر ثابت ہوتی ہے۔

جارحانہ مزاج بچوں کو منظم کرنے کے مشورے

٭ان کے ساتھ فوراً بات چیت شروع کرکے انہیں ہدایات دینا شروع کریں کہ اپنے بیگ چیک کروائیں۔ درست طریقےسے بیٹھنے کی تاکید کریں اور ان کی توجہ اپنی جانب مرکوز رکھنے کو کہیں۔

٭ کائونٹ ڈائون کا طریقہ اپنائیں، بچوںکو کہیںکہ میں 10تک گنوں گا/ گی جب تک اپنا کام مکمل کرلیں یا اپنی بات چیت ختم کریں۔

٭جادوئی اثر رکھنے والے الفاظجیسے شکریہ (تھینک یو)، مہربانی (پلیز) وغیر ہ استعمال کرکے بچوں کے کام مکمل کروائیں ۔

٭ طلبا کو تحفظ کا احسا س دلائیں کہ وہ آپ کے بغیر کس پریشانی میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔انہیں ہدایت دی جائے کہ کلاس میں یا کلاس سے باہر کسی بھی سرگرمی کے دوران ہونے والے واقعات وہ فوراً اساتذہ کے علم میں لائیں ۔

٭ مختلف سرگرمیوں کیلئے بچوں کی ڈیوٹیز لگائی جائیں، جیسے چھٹی کے وقت والدین سے کارڈ وصول کرکے متعلقہ کلاس سے بچے کو لے کر آنا وغیرہ ۔